... loading ...
لوگ اسے دیوانہ کہتے تھے انتہائی غریب،مفلوق الحال پرائے تو پرائے اپنے بھی نظراندازکرتے تو وہ کسی سے گلہ کرتا نہ غصہ ۔ وہ گھروں کی تعمیر کے لیے مزدوری کرتاتھا لیکن لوگوںنے اس سے کام کروانا چھوڑدیا کہ وہ دیواریں ٹیڑھی بنا دیتا ہے بھوک اوربیروزگاری سے تنگ آکر اس نے پتھروںکو تراش کر تیڑھی میڑھی مورتیاں بنانا شروع کردی جو بچے شوق سے لے جاتے جس سے کچھ رقم ملنے لگی تو اس نے مستقل اسی کو روزگار کا وسیلہ بنا لیا اس کے لیے کسی کی ناراضگی، غمی، خوشی ایک جیسا ماحول تھا وہ مگرتھا سچا عاشق ایسا عاشق جس کی تنہائیاں درود و سلام سے مہکتی رہتی تھیں ،پیارے نبی حضرت مْحمَّد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکر آتا تو اس کی آنکھیں ساون بھادوں بن جاتیں ،لوگ حج عمرہ جانے کی باتیں کرتے تو وہ دل مسوس کرکے رہ جاتا کہ میں تو ہندوستان کی ریاست کتیانہ جونا گڑھ کا معمولی غریب سنگ تراش ہوں ،مزدوروں جیسا میرا حلیہ ہے وہ سوچتانہ جانے کب اتنی رقم جمع ہوگی کہ میں بھی اپنی آنکھوںسے خانہ کعبہ دیکھوں گا گنبد ِ خضری ٰ کی زیا رت کروں، وہ دل ہی دل میں روتا سوچتارہتا اتنی بڑی خواہش لوگ مجھے دیوانہ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہیں یہاں تو دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اورہزاروں لاکھوں خرچ کرکے بھی سب خواہش کے باوجود دیار ِ حبیب ﷺ نہیں جاسکتے وہ کیونکر جاسکے گا ،وہ روزانہ باادب ہوکر اپنے نبی ﷺ پر درود و سلام پیش کرتے ہوئے حاضری کی درخواست کرتادرودشریف سے اسے کام کے دوران بھی محبت تھی ، وہ اکثر درودشریف پڑھتا رہتا تھا درودشریف کی مشہور کتاب دلائل الخیرات اسے زبانی یاد تھی۔
کہتے ہیں کہ جذبے صادق ہوں تو منزل خودبخود آسان ہوجاتی ہے لیکن یہ ہرکسی کا نصیب نہیں ہوتا مگر جس پر نظر ِ کرم ہوجائے اس کے کیا کہنے نہ جانے کسی کی ادا آقا ﷺ کوبھاجائے تو بیڑاپارہوجاتاہے یقینا یہ بڑے کرم کے فیصلے ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے نگاہ ِ التفات کے منتظررہ جاتے ہیں ایسے لوگوںکی قسمت پر مقدر رشک کرتاہے۔آخرکار اس کی بے تابیاں رنگ لے آئیں وہ ہوا جس کا اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھااس کا ایک معمول تھا جب بھی کوئی پتھر تراشتا تودلائل الخیرات کا ایک باب پڑھتا،ایک دفعہ حج کی آمد آمد تھی لوگ مکہ مکرمہ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے ان دنوں زیادہ تر لوگ بحری جہاز کے ذریعے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جایا کرتے تھے ،ہوائی جہاز کا سفر بہت مہنگا تھا اور زیادہ مروج بھی نہ تھا سنگ تراش سوچ سوچ کر رونے لگا کہ اس سال بھی میں نہ جاسکوں گا کوئی زاد ِ راہ ہے نہ اسباب اب کیا بنے گا؟ وہ آبدیدہ ہوتے ہوتے سو گیا تو اس کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ اس رات جب سویا تو دل کی آنکھیں جاگ اٹھیں وہ کیا دیکھتا ہے کہ مدینہ منورہ میں وہ حاضر ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جلوہ فرما ہیں وہ مؤدب ہوکر بیٹھ گیا اس نے دیکھاسبز گنبد کے انوار سے فضا منور ہو رہی ہے اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مینار بھی نور برسا رہے ہیں ، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک مینار کا کنگرہ شکستہ تھا۔ اتنے میں حضور نبی کریم صلی علیہِ وآلہ وسلم کے لب مبارک کو جنبش ہوئی اور الفاظ یوں ترتیب پائے ،ہمارے دیوانے وہ دیکھو، ہماری مسجد کے مینار کا ایک کنگرہ ٹوٹ گیا ہے، تم ہمارے شہر آؤ اور اس کنگرے کو ازسرنو بنا دو۔جب اس سنگ تراش کی آنکھ کھلی تو اسے یقین ہی نہ آیا لیکن اس کے کانوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم کے ادا کیے ہوئے کلمات گونج رہے تھے اس کا د ل خوشی سے سرشار ہوگیا اس کا مطلب ہے ،مدینے کا بلاوہ آ چکا تھا مگر سنگ تراش کی آنکھوں میں یہ سوچ کر آنسو آگئے کہ میں تو بہت غریب ہوں، میرے پاس مدینہ منورہ جانے کے وسائل کہاں ؟ ڈر کے مارے اس نے کسی سے تذکرہ بھی نہ کیا کہ لوگ مذاق اڑائیں گے لیکن عشق نے ہمت دلائی، آرزو نے دلاسہ دیا لیکن مضطرب دل تھا خواب نے آتش ِ شوق کو اور بڑھکا دیا دل و دماغ میں ایک کش مکش جاری تھی دھڑکنیں کہہ رہی تھیں کہ تمہیں تو خود حضور نبی کریم صلی علیہِ وآلہ وسلم نے بلایا ہے، تم وسائل کی فکر کیوں کرتے ہو ،بس تیاری کرو سنگ تراش دیوانے نے رخت سفر باندھا اوزار کا تھیلا کندھے پر لٹکایا اور حسرت و امید کے امتزاج کے ساتھ پور بندر کی بندرگاہ کی طرف چل پڑا۔
پور بندر کی بندرگاہ پر آخری سفینہ مدینہ تیار کھڑا تھا مسافر پورے ہو چکے تھے معمول کی چیکنگ بھی ہوگئی ہر چیز فٹ فاٹ تھی مگر عجیب تماشا یہ تھا کہ کپتان کی کوشش کے باوجود سفینہ چلنے کا نام نہ لے رہا تھا۔ اتنے میں جہاز میں سے کسی کی نظر دور سے ایک شخص پر پڑی جو جذب و مستی میں جھومتے ہوئے آرہا تھا لوگ سمجھے کہ شاید ایک مسافر رہ گیا تھا جہاز گہرے پانی میں کھڑا تھا سنگ تراش کو لینے کے لیے انہوں نے ایک کشتی پانی میں اتاردی ،حیران پریشان سنگ تراش اس کشتی میں سوار ہو گیا مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے سوار ہوتے ہی جہاز جھومتا ہوا مدینے چل پڑا جیسے جہاز کو اسی کاانتظار تھا نہ اس سے کسی نے ٹکٹ مانگا نہ اس کے پاس تھا بالآخر وہ مدینہ منورہ پہنچ گیا اب دیوانہ وار جھومتا ہوا روضہ رسول صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم کی طرف چلا جا رہا تھا کچھ خدام حرم کی نظر اس پر پڑی تو ٹھٹک کررہ گئے بے ساختہ پکار اٹھے ارے یہ تو وہی ہے جس کا حلیہ ہمیں دکھایا گیا ہے۔ اس نے اشکبار آنکھوں سے روضہ ٔ رسول ﷺ پر حاضری دی سنہری جالیوں کے روبرو درود و سلام پیش کیا پھر باہر آ کر گنبد ِ خضریٰ کے میناروںکو بغور دیکھنے لگا اسے اس مینار کی تلاش تھی جو اسے خواب میں نظرآیا تھا وہ مینار دیکھا تو واقعی ایک کنگرہ شکستہ تھا۔ خدام نے کہا اسے مرمت کرو گے؟ اس نے چمکتی آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلادیا پھرجذب و مستی اپنی کمر میں رسی بندھوائی اور خدام کی مدد سے گھٹنوں کے بل اوپر چڑھ گیا وہ سوچنے لگا اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم کا حکم نہ ہوتا تو میں کبھی ان مقدس گنبد و مینار پر جانے کی جرأت تو کجا ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اس نے حسب الارشاد کنگرہ ازسرنو بنا دیا واہ رے عاشق ِ صادق کی خوش بختی جب سنگ تراش کی بے تاب روح نے سبز گنبد کا قرب پایا تو بے قراری اور اضطرابی حد درجہ بڑ ھ گئی وہ فریفتہ ہوکر گنبد ِ خضریٰ سے لپٹ گیا وہ کام مکمل کر چکا تھا اور اب اسے نیچے آنا تھا لیکن اس کی روح مضطر نے لوٹنے سے انکار کر دیا نیچے سے خدام نے بیسوں آوازیں دیں لیکن کوئی حرکت و جنبش نہ پاکر وہ خود ا وپر چڑھ گئے نہ جانے کب اس کی روح تن سے جدا ہوگئی تھی شاید وہ تو گھنٹوں پہلے سبز گنبد کی رعنائیوں پر نثار ہو چکا تھا ۔لوگوںنے جان لیا کہ عاشق ِ صادق ایسے بھی ہوتے ہیں ۔
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔