... loading ...
(مہمان کالم)
پوین چچ ولپونگپن
تھائی لینڈ کے شاہی خاندان کے پسندیدہ زرد اور گلابی رنگوں کے لباس پہنے ہزاروں افراد ہفتے کے دن بنکاک میں گرینڈ پیلس کے باہر اپنے بادشاہ بھومی بول اڈلیا ڈیج کی سالگرہ منانے کے لیے جمع تھے جن کا 2016ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ عوام کی کثیر تعداد حال ہی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک تھی جہاں لوگ بادشاہی نظام میں اصلاحات لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 25نومبر کو زرد رنگ کی اس شاندار بلڈنگ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہونے والا تھا جہاں کرائون پراپرٹی بیورو کا دفتر قائم تھا۔ یہ وہ ایجنسی ہے جو شاہی خاندان کی بے تحاشا دولت اور جائیدادوں کی حفاظت اور نگرانی کرتی ہے۔
2018ء میں تھائی لینڈ کے آنجہانی بادشاہ بھومی بول کے بیٹے اور موجودہ بادشاہ ماہا بوڈنڈرا ڈیبایا نے ان تمام اثاثوں پر براہِ راست کنٹرول کا دعویٰ کر دیا تھا جن کی مالیت کا تخمینہ 30 سے 60 ارب ڈالرز تک ہے مگر جب خاردار تاروں اور رکاوٹوں کی مدد سے اس کمپائونڈ کو بند کیا گیا تو مظاہرے کے منتظمین نے احتجاج کو سیام کمرشل بینک کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے لے جانے کا فیصلہ کر لیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ تھائی لینڈ کے موجودہ بادشاہ ہی اس بینک کے سب سے بڑے سنگل شیئر ہولڈر ہیں۔ مظاہرین کے ایک لیڈر پانوپونگ جیڈنوک نے یہ مظاہرہ اس لیے کرایا تھا تاکہ بادشاہ سے ٹیکس دہندگان کی رقم واپس لینے کا مطالبہ کیا جائے۔ اگست میں مظاہرین نے ایک دس نکاتی منشور پیش کیا تھا تاکہ بادشاہت سے متعلق امور کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ اسی منشور میں یہ مطالبہ بھی شامل تھا کہ بادشاہ کے پاس سیاسی اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔
سوال یہ ہے کہ عوام موجودہ بادشاہ کے خلاف ہی مظاہرے کیوں کر رہے ہیں جبکہ ان کے آنجہانی والد یعنی پہلے بادشاہ نے جمہوریت اور عوامی اختیارات پر کڑی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ تھائی لینڈ کے بادشاہوں نے اکثر ایسے اختیارات استعمال کیے ہیں جو جمہوریت کے مروجہ قوانین سے متصاد م نظر آتے ہیں۔ موجودہ بادشاہ کے والد یعنی شاہ بھومی بول بار بار تھائی لینڈ کے سیاسی امور میں مداخلت کرتے رہے جبکہ سالہا سال سے تھائی لینڈ میں نافذ ہونے والے کئی دساتیر میں یہ واضح طور پر لکھا تھا کہ بادشاہت کو سیاست سے بالاتر رہ کر کام کرنا چاہئے۔ معروف تاریخ دان تھونگ چائی ونچاکل کا موقف یہ ہے کہ آنجانی تھائی بادشاہ بھومی بول کے شاہی دور میں اس جملے کے معنی ہی تبدیل ہو کر رہ گئے تھے۔ آئین کا یہ جملہ تو تھائی بادشاہ کو ملکی سیاست سے دور رہنے کی بات کرتا ہے مگر انہوں نے ہر سیاسی معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور تمام قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بادشاہ کو ایک مطلق العنان حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔
تھائی لینڈ کی حقیقی صورتِ حال یہ تھی کہ نہ صرف یہ کہ تھائی لینڈ کے عوام اپنے بادشاہ کے ماورائے آئین اختیارات کے استعمال کو برداشت کر رہے تھے بلکہ انہوں نے ذہنی طور پر بھی یہ تسلیم کر لیا تھا کہ بادشاہ یہ اختیارات استعمال کرنے میں بالکل حق بجانب ہے‘ خواہ وہ تھائی عوام کی مرضی اور منشا کے برعکس اور ملک کے آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے سیاسی امور میں ہی مداخلت کیوں نہ کر رہا ہو۔ (یہ الگ بات ہے کہ شاہ بھومی بول‘ جو ستر سال سے زائد تھائی لینڈ کے بادشاہ رہے‘ نے اپنی سلطنت میں ہونے والی کئی فوجی بغاوتوں کی توثیق بھی کی تھی)
اس کی ایک جزوی وجہ یہ تھی کہ شاہ بھومی بول کو اپنے ملک میں ایک دھما راجہ کا مرتبہ حاصل تھا جو عوام کی نظروں میں ایک مقدس رہنما اور خدا کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اپنی رعایا میں انتہا درجے کی مقبولیت بھی حاصل تھی کیونکہ انہوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ملک کے پسماندہ علاقوں میں غریب لوگوں کے لیے ترقی اور فلاح کے کئی منصوبے شروع کروا رکھے تھے۔ موجودہ بادشاہ ماہا‘ جنہیں اپنے والد کی وفات کے بعد تخت نشیں ہوئے ابھی چند ہی سال ہوئے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ انہیں شاہی اختیارات پر لگنے والی کئی پابندیوں کو اپنے پائوں تلے روندنے کی عادت اپنے باپ سے ورثے میں ملی ہے مگر ان میں اپنے والد جیسی روحانی کشش پائی جاتی ہے اور نہ ہی ان کا طرزِ بادشاہت اپنے باپ سے کوئی مماثلت رکھتا ہے۔ شاہ بھومی بول اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ہمیشہ عوام سے کچھ فاصلہ رکھتے تھے اور اپنی بادشاہت کے وسیع حلقہ اثر پر مشتمل نیٹ ورک کو استعمال کرتے تھے مثلاً پریوی کونسل وغیرہ۔ ان کے ساتھ زیادہ مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے کئی مرتبہ عدلیہ کو بھی استعمال کیا جیسے 2006ء میں انہوں نے تھائی لینڈ کی عدلیہ کو حکم دیا کہ وہ جمہوری الیکشن کے نتائج کو منسوخ کر دے مگر موجودہ بادشاہ ماہا اپنے کار پردازوں کے بجائے براہ راست مداخلت پر یقین رکھتے ہیں۔ جب 2016ء میں وہ تخت نشین ہوئے تو اس کے کچھ عرصہ بعد ہی انہوں نے نئے ا?ئین میں ایسی ترامیم کرنے کی ہدایت کر دی جن کا ڈرافٹ فوج نے تیار کیا تھا اور ایک قومی سطح پر ہونے والے ریفرنڈم کے ذریعے منظوری لی گئی تھی تاکہ وہ جرمنی میں رہتے ہوئے بھی تھائی لینڈ پر حکومت کر سکیں۔ گزشتہ سال انہوں نے ایک شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ فوج کے دو یونٹس براہِ راست ان کی کمان میں دے دیے جائیں۔
مارچ 2019ء میں ہونے والے الیکشن میں تھائی رکسا چارٹ پارٹی کو سبقت مل گئی جو سابق وزیراعظم تھکسن شینا وترا کی پارٹی کی ہی ایک شاخ تھی۔ انہوں نے اوبلرنتانا سری ودھانا کو ملک کا نیا وزیراعظم نامزد کر دیا جو باشا ہ کی بڑی بہن تھیں۔ بادشاہ نے فوری طور پر ان کے امیدوار ہونے پر پابندی عائد کر دی اور سابق وزیراعظم تھکسن پر الزام عائد کر دیا کہ وہ شاہی خاندان کی غیر سیاسی حیثیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ بعد میں آئینی عدالت نے اس جماعت کو ہی کالعد م قرار دے دیا تھا۔ گزشتہ سال بھی شاہ ماہا نے اپنی ایک باڈی گارڈ سنیتا وانگ واجی راپکڈی سے شادی کر کے اسے ملکہ کے مرتبے پر فائز کر دیا۔ یہ واقعہ پوری ایک صدی کے بعد پیش آیا مگر چند مہینے بعد ہی انہوں نے اچانک ایک شاہی فرمان کے ذریعے ان کواس حیثیت سے برطرف کر دیا۔ شاہی بیان میں بتایا گیا کہ انہوں نے بڑی ملکہ کا مقابلہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ منظر عام سے بھی غائب ہو گئی تھیں مگرکچھ دن بعد انہیں بے قصور قرار دے کر اپنے سابق منصب پر بحال کر دیا گیا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تھائی بادشاہ اپنے استحقاق اور اختیارات کے حوالے سے عوام کی مرضی کے برعکس ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار ہیں۔ احتجاجی مظاہرین بادشاہ کی اپنے اختیارات کے حصول کی کوشش کو بادشاہت اور تھائی عوام کے مابین ہونے والے عمرانی معاہدے کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔