وجود

... loading ...

وجود

بستہ بے۔۔

اتوار 13 دسمبر 2020 بستہ بے۔۔

دوستو، ایک خبر کے مطابق خیبر پختونخوا اسمبلی نے بچوں کے اسکول بیگز کے وزن کی حد مقرر کردی، خلاف ورزی کرنے والے اسکول پرنسپلز کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔کے پی اسمبلی نے اسکول بیگز لیمی ٹیشن آف ویٹ بل2020 کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت بچوں کے اسکول بیگز کا وزن ان کی جماعت کے مطابق ہوگا۔اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکٹ کے تحت ہر کلاس کے لیے الگ الگ بیگ کے وزن کا تعین کیا گیا ہے، پہلی جماعت کے بچوں کے لیے بیگ کا وزن 2.4 کلوگرام ہوگا، اور جماعت دوئم کے لیے2.6 کلوگرام وزن مقرر کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ منظور شدہ بل کے مطابق تیسری جماعت کے لیے3 کلو گرام وزن مقرر جبکہ ہائی سیکنڈری کے طلبہ کے لیے بیگ کا وزن 7کلو گرام تک ہوگا۔بل میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکول بیگ میں زائد وزن پر صوبے بھر کے سرکاری اسکولوں کے پرنسپلز کیخلاف سخت تادیبی کارروائی ہوگی اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں پر2لاکھ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

ہمارے خیال میں تو پہلی اور دوسری کلاس تک بچوں کا بستہ ہونا ہی نہیں چاہیئے۔۔ سلیٹ یا تختی ٹائپ کوئی چیز ہو جس پر لکھنے کی پریکٹس کرائی جائے باقی اسکول میں ٹیچرز بچوں کے اخلاق، ادب آداب، رکھ رکھاؤ پر زیادہ توجہ دیا کریں۔۔یعنی انہیں ’’مینرز‘‘ سکھائیں۔۔ گنتی، اے بی سی، پہاڑے یاد کرائیں۔۔ ہوم ورک کا ٹنٹا معصوم بچوں پر واقعی کسی بوجھ سے کم نہیں۔۔جتنے بھاری بھرکم بستے طلبا کے ہوتے ہیں،یقین کریں بستہ بے یا بستہ الف کا بدمعاش بھی اتنا وزن نہیں اٹھا سکتا۔۔ اتنے بھاری بستے ہونے کے باوجود ہوتا کیا ہے؟ نتیجے کے اعلان کے بعد۔۔پہلی لڑکی (روتے ہوئے): آں! پھر سے اکیانوے فیصد۔۔ دوسری لڑکی(روتے ہوئے): تین بار دہرانے کے بعد بھی ترانوے فیصد۔۔تیسری لڑکی (بہت زیادہ روتے ہوئے): میں ترانوے فیصد نمبرز کے ساتھ مما کو کیا منہ دکھائوں گی؟چوتھی لڑکی (سب سے زیادہ روتے ہوئے): صرف چھیانوے فیصد۔۔کہاں کمی رہ گئی تھی۔۔۔رزلٹ آنے کے بعد لڑکوں کا ردعمل کچھ یوں ہوتا ہے۔۔پہلا لڑکا:تیرے بھائی نے اس بار فیل ہونے کا سلسلہ ختم کر دیا۔۔۔اس بار پورے چوالیس فیصد۔۔دے تالی۔۔دوسرا لڑکا: پاپا تو ناچ اٹھیں گے جب انھیں پتا چلے گا ان کا بیٹا پاس ہو گیا۔۔تیسرا لڑکا: وہ تو سر نے نقل کرنے دے دی تو بیالیس فیصد آ گئے ورنہ بینڈ بج گیا تھا جانی۔۔۔چوتھا لڑکا: تیرا بھائی باڈر کو ہاتھ لگا آیا ہے۔۔پورے تینتیس فیصد۔۔۔نا ایک کم نا ایک زیادہ۔۔جی او شیرا۔۔

بچے قدرتی طور پر ذہین ہوتے ہیں،ایسا ہمارا دعویٰ ہے، بچے کندذہن یا ’’غبی‘‘ ماحول کے حساب سے بن جاتے ہیں۔۔ ورنہ پیدائشی طور پر ہر انسان وہی چالیس گرام کا دماغ لے کر پیدا ہوتا ہے، اب یہ انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس دماغ کاکتنا استعمال کرتا ہے؟؟ ہم بچپن سے ہی ضرورت سے زیادہ ذہین تھے، حاضرجوابی میں کسی فیصل آبادی سے کم نہیں تھے۔۔ایک بار ٹیچر نے پوچھا، اکبر کی وفات کے بعد کیا ہوا تھا؟؟ ہم نے برجستہ کہا۔۔ جناب ہونا کیا تھا، لوگوں نے نہلادھلا کر دفنا دیا۔۔ہمارے دوست نے پوچھا،پیپرز کب سے ہورہے ہیں، ہم نے کہا ،یکم مارچ سے۔۔پوچھنے لگا، کوئی تیاری بھی کی ہے۔ہم نے برجستہ کہا۔۔ہاں، ایک نیا قلم خریدا ہے، نئے کپڑے سلوائے ہیں، نیا جوتا اور نئی گھڑی خریدی ہے۔۔۔ٹیچر کو شاید کسی بات پر غصہ آگیا،کہنے لگا۔۔ میں نے تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے کہ سبق یاد کیا کرو۔۔ہم نے بڑی معصومیت سے کہا۔۔سرجی صرف چار مرتبہ۔۔ایک بار ایک ٹیچر نے پوری کلاس سے سوال کیا۔۔ بچو،ایسی جگہ کا نام بتاؤ،جسے آدمی بنانے کے باوجود وہاں نہیں جاسکتا؟؟پوری کلاس سٹپٹا کر رہ گئی، ہم نے فوری ہاتھ کھڑا کردیا، ٹیچر کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، چلو کسی ایک کوتو جواب آتا ہے۔۔ہمیں کھڑا کیا اور کہا، ہاں بیٹا،بتاؤ وہ کون سی جگہ ہے؟؟ ہم نے برجستہ کہا۔۔لیڈیز ٹوائلٹ۔۔

اچھا،معصومیت اور برجستگی کا امتزاج بچپن سے ہی تھا، ہم اپنے اساتذہ تک کو باتوں میں الجھانے کا فن خوب جانتے تھے۔۔ایک بار انہوں نے پوچھا۔۔ ذرا بتاؤ تو سہی ہاتھی کہاں پائے جاتے ہیں؟۔۔ہم نے جلدی سے کہا۔۔ جناب! ہاتھی اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کے کھو جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ٹیچرنے ہنس کرپھرپوچھا۔۔ بیٹا میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ ہاتھی کہاں ملتے ہیں؟۔۔معصومیت کے ساتھ ہم نے دوبارہ جوب دیا۔۔جہاں اور ہاتھی ہوں وہاں۔۔ٹیچر کو غصہ آنا اسٹارٹ ہوگیا۔۔دانت پیستے ہوئے بولے۔۔ اچھا۔۔ یہ تو تمہیں معلوم ہونا ہی چاہیے کہ ان کا حافظہ بہت اچھا ہوتا ہے۔۔ کیوں؟ ہم نے ٹیچر کے غصے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔۔ جناب ہاتھیوں کے پاس باتیں ہی کون سی ہوتی ہوں گی جو وہ بھول جائیں تو پریشانی ہو۔۔پھر نجانے کیا ہوا،ٹیچر فوری کلاس سے باہر چلے گئے۔۔ ایک روزسائنس کے ٹیچر ہمیں پڑھارہے تھے، موضوع شاید ’’دوران خون‘‘ تھا۔۔اختتام پر سوال کردیا۔۔ اگر میں سر کے بل کھڑا ہو جاؤں تو سارا خون میرے سر میں جمع ہو جائے گا اور میرا چہرہ لال ہو جائے گا۔ لیکن جب میں سیدھا کھڑا ہوتا ہوں تو میرے پاؤں لال نہیں ہوتے،بتاؤ کیوں؟؟۔ہم نے فٹ سے کہا۔۔ سر، آپ کے پاؤں خالی نہیں ہیں ناں۔۔ہماری ذہانت کا کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔۔ایک بار استاد نے ململ کو جملے کو میں استعمال کرنے کا کہا۔۔ہم نے کہا۔۔ہمیں خوب مل مل کر نہانا چاہیئے۔۔استاد نے برف کی مونث پوچھی۔۔ہم نے جھٹ سے’’برفی‘‘ کہہ دیا۔۔

کبھی کبھی استاد اتنے فضول قسم کے سوال کرتے تھے کہ ہمارا انہیں چپ کرانا ہی بنتا تھا، اب ہم اتنے بدتمیز توتھے نہیں کہ اپنے ٹیچر کو ڈانٹ کر چپ کراتے، ہمارا طریق واردات ایسا ہوتاتھا کہ ٹیچر کے فضول سوال کا اوٹ پٹانگ جواب دیا کرتے تھے۔۔ جیسا ایک ایک ٹیچر نے پوچھا۔۔تمہارے ابو کتنے سال کے ہیں؟؟ہم نے کہا۔۔سر جتنے سال کا میں ہوں۔۔ ٹیچر نے حیرت سے پوچھا ، وہ کیسے؟؟ ہم نے ٹیچر کو اپنے جواب کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ۔۔ سر جس دن میں پیدا ہوا اسی دن تو وہ ابو بنے تھے۔۔ہماری ذہانت سے ٹیچر ہی نہیں ابا بھی پریشان رہتے تھے۔۔ ایک بار ہم اپنے ابا کے ساتھ ہالی وڈ کی کوئی جنگی مووی دیکھ رہے تھے۔ ۔جنگ کا سین تھا۔۔کچھ کمانڈوز حملے کے لیے جارہے تھے۔۔ہم نے حیرت سے انہیں دیکھا اور ابا سے سوال کیا۔۔ابا،ان لوگوں نے اپنے چہرے پر رنگ کیوں لگایاہواہے؟؟ ابا نے ہمیں سمجھاتے ہوئے بتایا کہ۔۔ بیٹا! یہ کمانڈوز ہیں اور حملہ کرنے کی تیاری میں ہیں۔۔تھوڑی دیر بعد اماں جب میک اپ کرکے کمرے میں داخل ہوئی توہم نے چیختے ہوئے کہا۔۔ ابووووووو! بچ کے۔۔ امی حملہ کرنے آرہی ہیں۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہفتے میں دو اتوار ہونے لازمی ہیں،ایک ہفتے بھرکے کام نمٹانے کے لیے اور دوسرا مکمل آرام کے لیے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر