وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں کسان اور مزدوردشمن قوانین

هفته 12 دسمبر 2020 بھارت میں کسان اور مزدوردشمن قوانین

ماہرین کہتے ہیں آئندہ برس کئی ممالک میں بھوک وفلاس سے مرنے والوں کی تعداد کورونا وبا سے تجاوزکرسکتی ہے اسی لیے فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے ایسی تحقیقات جاری ہیں جن سے خراب موسمی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے ساتھ پانی کی کمی یا زیادہ بارش کے باوجود اچھی پیدوارلی جا سکے لیکن بھارت جو سب سے بڑی جمہورت کا دعویدار ہے وہ دنیا سے ہٹ کر کسان اور مزدور دشمن قوانین کے ذریعے ملک کو کارپوریٹ دوست اور کسان و مزدور دشمن بنانے میں مصروف ہے ہندوتوا کے نظریے کی علمبردار مودی سرکار ملک میں بسنے والی اقلیتوں مسلمانوں ،سکھوں ،دلتوں اور عیسائیوں کا خاتمہ کرناچاہتی ہے چاہے لوگ بھوک سے مرجائیں اُسے پرواہ نہیںمودی کی تنگ نظری اور سفاکی سے دنیا نے آنکھیں بندکر رکھی ہیں بھارتی میڈیا مودی کا ہم نواہے جس کی وجہ سے آگاہی کے لیے پاکستانی میڈیا کی طرف دیکھاجاتاہے لیکن یہاں بھی خبریں نہ ہونے کے برابر ہیں جسے بہتر بناکر مودی کابھیانک چہرہ بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔
کسانوں نے سولہ دن سے دہلی کا محاصرہ کر رکھا ہے اور مذاکرات کے حوالے سے عملاََڈیڈ لاک کی کیفیت ہے حکومت کی غلط پالیسیوں کی بنا پر پنجاب اور ہریانہ تک کسانوں کی تحریک محدودنہیں رہی بلکہ آسام ،کیرالہ،کرناٹک تک پھیل چکی ہے اکثر علاقوں میں ریلوے اور بس سروس بڑی حد تک معطل ہے کشمیریوں کو نظربندکرنے والی سرکار اپنے ملک میں نظربندہے کسان تحریک میں پاکستان کے پرچم لہرانے کے ساتھ آزادخالصتان کے نعرے لگ رہے ہیں بنگلور،اترپردیش اورجے پورمیں ہونے والے مظاہروں میں بھی علیحدگی کے نعرے لگ رہے ہیں علیحدگی پسند ریاستوں میں نئے عزم سے تحریکیں شروع ہیںمگر حیران کُن پہلو یہ ہے کہ کینڈاسے لیکر برطانیا اور یورپی یونین تک حکومت اور پارلیمنٹ سے سکھوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہوئیں لیکن حکومت کی طرح پاکستان کا میڈیا دلچسپی نہیں لے رہا کسانوں کی طرف سے بھارتی میڈیاکے بلیک آئوٹ کی سمجھ آتی ہے کہ وہ مودی کی سخت پالیسیوں کا قیدی ہے لیکن پاکستانی حکومت اورمیڈیا کو کیا مجبوری درپیش ہے جو جلتے بھارت سے آنکھیں بندکیے لاتعلق ہیں حالانکہ پاکستان میں کوئی چھوٹا ساواقعہ ہو یاتیسرے درجے کاکوئی سیاستدان فوج یا ملک کے خلاف ہلکی سی بات کردے تو بھارت میں شادیانے بجنے لگتے ہیں تبصرے ہوتے ہیں اور گھٹیا پراپیگنڈا کیا جاتا ہے عجیب بات ہے ہم بھارت میں جاری دہلی کے محاصر ے کو بھی اہمیت نہیں دے رہے ۔

پنجاب اور ہریانہ ایسی ریاستیں ہیں جو گندم اور چاول کا بڑا حصہ پیداکرتی ہیںدونوں فصلیں حکومت خرید لیتی ہے لیکن مودی حکومت نے خریداری کا طریقہ کار بدل دیا ہے اب خریداری کی ذمہ داری نجی کمپنیوں کے سپردکر دی گئی ہے جس پر کسانوںکو خدشہ ہے کہ نجی کمپنیاں کسانوں سے زیادہ اپنے منافع پر دھیان دیں گی جس سے کسان تباہ ہوکر رہ جائیں گے پاک بھارت تجارتی سرگرمیاںپہلے ہی ختم ہیں جس سے ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کے نرخ اتنے گر چکے ہیں کہ لاگت بھی نہیں مل رہی اسی بنا پر بدحال کسان مرنے مارنے تک آگیا ہے ایسے فارم یا کھیت جن کااوسط رقبہ تین ایکڑ تک ہے کی تعدادپندرہ کروڑکے لگ بھگ ہے یہی کم رقبے والے کسان احتجاجی تحریک میں پیش پیش ہیںاور حکومت سے فصلوں کی خریداری کاطریقہ کار بدلنے کے متقاضی ہیں لیکن حکومتی تیوردیکھ کر امیدکی رمق نظر نہیں آتی جس سے چھوٹا کسا ن بُری طرح پریشان ہوکر سڑکوں پر آگیا ہے دہلی چلو تحریک میں ہریانہ ،پنجاب کے علاوہ اترپردیش اورمدھیہ پردیش کی بھی بڑی تعداد شامل ہے اگر پاکستانی زرائع ابلاغ تحریک کاساتھ دیں تو ہندوتواپر یقین رکھنے والی مودی کی عوام دشمنی اُجاگرکی جا سکتی ہے۔

حکومت سکھ کسانوں کوسہولتیں دینے کی بجائے پریشان کیوںکرنے لگی ہے اِس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں اول بھارتی فوج میں سکھوں کی تعداد آبادی سے زیادہ یعنی بیس فیصد ہے حالانکہ وہ کُل آبادی کے پانچ فیصد سے بھی کم ہیں دوم کرتار پورسرحد کُھلنے سے بھارت کی ہندوازم پر یقین رکھنے والی حکومت سکھوں کی حب الوطنی کے بارے میں مشکوک ہے، سوم سکھوں کو سبق سکھانے کی آرزو مند حکومت معاشی حوالے سے تباہ کرنا چاہتی ہے کیونکہ افلاس زدہ لوگوں کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے اسی لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سکھوں کو مالی لحاظ سے بدحال اور ہراساں کیا جارہا ہے لیکن اُسے شاید یہ یاد نہیں کہ سکھ ضدی ہونے کے ساتھ دلیر بھی ہوتے ہیں اسی بنا پرکسانوں کی احتجاجی تحریک نے جنم لیاجواب دیگر طبقات تک وسعت اختیار کرنے لگی ہے اگر پاکستان کی طرف سے حوصلہ افزائی ہو اور زرائع ابلاغ کسان کُش پالیسیوں سے پیداہونے والی محرومیوں پربات کریں توکے پی کے اور بلوچستان کے بارے میں بھارتی پراپیگنڈے کا زہرکم ہو سکتا ہے۔

بھارت میں کسانوں کے ساتھ مزدور مفادات سے متصادم چار ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن کی روسے وہ کئی بنیادی حقوق کھوچکے ہیں کام کے اوقات میں اضافہ لیکن اُجرت میں کمی کرنے کے ساتھ یونین سازی کے علاوہ ہڑتال کے حق سے بھی محروم کردیے گئے ہیںموجودہ قوانین سے تین سو تک ملازمین کھنے والے کارخانہ یا کمپنی مالکان کوحکومت کی پیشگی منظوری لیے بغیر ملازمین کو فارغ کرنے اور کارخانہ یا کمپنی بند کرنے کا اختیار مل گیا ہے ہڑتال سے قبل اِس حوالے سے ساٹھ دن قبل نوٹس کی شرط عائد کردی گئی ہے اور اگر کارخانہ یا کمپنی مالک نوٹس کے حوالے سے لیبر کورٹ میں اپیل کر دیتاہے تو فیصلہ ہونے تک ہڑتال ککا حق نہیں رہے گا حکومت کا خیال ہے کہ اِس طرح کارخانہ دار زیادہ اطمنان سے صنعتی پہیہ چلا سکیں گے اور مزدور کارخانہ کی بندش کا حق کھو کر محض آجر کی مشینیوں کی طرح ہوں گے یہی وجہ ہے کہ کسانوں کی تحریک میں مزدور تنظیمیں بھی سرگرم ہیں اور دہلی بند کرنے کے عمل میں حصہ دار ہیں ۔
بھارت کے الیکٹرانک میڈیا پرنہ کچھ بولا جا رہا اورنہ ہی پرنٹ میڈیا پر کچھ لکھا جارہاہے کیونکہ مودی حکومت نے ملک میںخوف کی فضا بنا رکھی ہے تبھی جلتا بھارت نظروں سے اوجھل ہے کسانوں کی حمایت کی پاداش میں دہلی کے وزیراعلٰی اروندکجروال کو نظربند کر نے پربھی میڈیا نے خاموشی کا قفل نہ کھولا زرائع ابلاغ سے ہڑتال ،مظاہروں ،دارالحکومت کی شاہراہوں کی بندش بارے معلومات نہیں ملتیں بلکہ حکومت کی قصیدہ گوئی جاری ہے وجہ یہ ہے کہ جو حکومت پر تنقید کرتا ہے اُسے سرکاری اشتہار ات کا اجرا نہیںہوتا لیکن سوال یہ ہے پاکستانی زرائع ابلاغ کیوں خاموش ہے اور دشمن ملک کے انتشار کو شامل اشاعت یا گفتگو کا حصہ بنانے سے کیوں گریزاں ہیں؟ یہ بات ذہن نشین کر لیں اگر ایسی صورتحال پاکستان میں کبھی پیداہوئی تو بھارت بدنام کرنے میں رتی بھر تساہل سے کام نہیں لے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر