وجود

... loading ...

وجود

زندہ قوموں کافلسفہ

منگل 08 دسمبر 2020 زندہ قوموں کافلسفہ

ایک وقت تھا میاںنوازشریف نے پیپلزپارٹی کے موجودہ چیئرمین کو مسٹرٹین پرسنٹ قراردے کر ان کا ناقطہ بندکردیا تھا پھر مفاہمی سیاست کا دور آیا تو ایک دوسرے کو سیکیورٹی رسک گرداننے والے نوازشریف اور بے نظیر بھٹو بہن بھائی بن گئے ،چندسال پہلے جب پانامہ لیکس نے دنیا بھرکی اڑھائی سو سے زائد شخصیات کا بھانڈہ عین چوراہے میںپھوڑدیا جس سے ان کی نیک نامی اڑن چھو ہو گئی کبھی جھوٹے لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے رہے اور کبھی وکٹری کا نشان بناکر یوں اتراتے رہے جیسے کشمیر فتح کرلیا ہو، پاکستان میں میاں نوازشریف کی فیملی کی آف شور کمپنیاں انہیں لے ڈوبیں ،حسن نواز اور حسین نواز کو عدالت نے اشتہاری ڈکلیئر کردیا،یہی کہرام کیا کم تھا کہ میاں نوازشریف کو اسی کرپشن کے الزام میں نااہل قراردیدیا گیا۔

اس عاشقی میں عزت ِ سادات بھی گئی

مریم نواز جو کہتیں تھیں میری بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں اب اربوں کھربوںکی سینکڑوں کنال اراضی منظر ِ عام پر آئی تو انہیں اپنے کہے پر آج بھی کوئی شرمندگی نہیں ،پھر چھوٹے میاں صاحب کے آمدن سے ڈھیروں زیادہ اثاثے، منی لانڈرنگ کی ہوشربا کہانیاں، ان کے دونوں بیٹوں ،دامادکی کرپشن کے غضب ناک قصے ،تادم ِ تحریر پوری فیملی کے بیشتر افراد کے خلاف نیب عدالتوںمیں مقدمات چل رہے ہیں اور زیادہ تر لوگ اشتہاری ہیں ،اسے کہتے ہیں مرے کو مارے شاہ مدار
پانامہ لیکس کے قیامت خیز انکشافات کے بعد کئی عالمی لیڈر مشکل میں آئے، آئس لینڈ کے وزیر ِ اعظم عوامی دبائو کے پیش ِ نظرمستعفی ہوکر گھر چلے گئے ہیں والد کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں جھوٹ بولنے اور مالی فوائد حاصل کرنے کے اعتراف پر برطانوی وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے خلاف ہزاروں افراد مظاہروں کے بعد استعفیٰ دے کر گھرچلے گئے ،وطن عزیز میں عوام گم صم ہیں شاید وہ کرپشن کو کوئی برائی سمجھتے ہی نہی ہیں حالانکہ ہم جس مذہب کے پیروکارہیں اس میں کرپشن بہت بڑا گناہ ہے لیکن پاکستان میں حکمرانوںکی کرپشن پر کوئی خاص رد ِعمل دیکھنے میں نہیں آیا ،میاں نوازشریف ، مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر نااہل ہوچکے ہیں لیکن ان کے چاہتے والے عدالتوں میں پیشی کے موقع پر آج بھی میاںنوازشریف کے حق میں نعرے لگاتے ہیں کچھ تو اہلکاروںسے الجھ بھی پڑتے ہیں تاکہ وفاداری کے ثبوت ریکارڈپرآجائے کیونکہ اس معاشرہ میں یہی تیزبہدف نسخہ ٔ کیمیاہے ،سوال یہ ہے کہ میاںنوازشریف فیملی کی آف شورکمپنیاں غیرقانونی ہیں یا قانونی ۔ میاںشہبازشریف خاندان کے آمدن سے زائد اثاثے کیونکرہیں؟ اس بارے میں حقیقت کتنی ہے افسانہ کتنا یہ جاننا عوام کا حق ہے، ویسے تو مشہور یہی ہے کہ غیرقانونی سرمائے سے بنائی جانے والی کمپنیوں کی اصطلاح آف شور کمپنیاں کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہی حال سابق صدر کی فیملی کاہے ، دونوں سابقہ حکمرانوںکی کرپشن،منی لانڈرنگ اور مال بنانے کا طریقہ ٔ کار ایک جیسا ہے ،بے نامی اکائونٹ اور ملازمین کے نام پر بینک اکائونٹس میں کروڑوں اربوں کی ٹرانزیکشن دی گئی ہے مطلب پاکستان کو بڑے سائینٹفک طریقے سے لوٹاگیاہے۔ ایک شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن کی تعریف کیا ہے؟ ۔اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔۔۔ اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری بیوروکریسی اور سارے کے سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں۔

ہمارا مذہب تو ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنمائوں اور اداروںکو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے ،جرأت مندی سے اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے ،علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کے لیے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں ،یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے ۔ حکمرانوں کو اس سلسلہ میں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے سابقہ وزیر ِ اعلیٰ پنجاب کی ایک اہلیہ تہمینہ درانی نے سچ کہا تھا آف شور کمپنیاں غیر اخلاقی ہیں ملکی سرمائے کی غیر قانونی ذرائع سے غیرممالک میں منتقلی انتہائی خوفناک بات ہے ،دنیا کے کئی ممالک میں منی لانڈرنگ بہت بڑا جرم تصورکیا جاتاہے کیونکہ اس سے بہت سی معاشرتی برائیاں اور جرائم جنم لے سکتے ہیں ،اسلام نے ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا ہے اس کے لیے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے جس مذہب میں اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن تصورکیا جاتاہو اس کے حکمران کے لیے کیسا معیار ہونا چاہیے اس کا خود تصورکیا جا سکتاہے ،یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو تی جارہی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔انہی خواہشات نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر مجبور کررکھاہے ،میاں نوازشریف کی فیملی کی آف شور کمپنیوں ،لندن کے فلیٹ ان کے سمدھی اسحق ڈار کے دبئی میں عالیشان پلازے اورمیاںشہبازشریف خاندان کے آمدن سے زائد اثاثے ،منی لانڈنگ کا انکشاف ہونے سے عوام کو بہت بڑا دھچکا لگاہے کیونکہ میاں نوازشریف میاںشہبازشریف کروڑوں عوام کے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں ،ماضی میں آصف علی زرداری کی کرپشن کے قصے مشہور تھے دونوں جماعتوںکا اپنا ووٹ بینک بھی ہے ،پھر سادہ دل عوام کس پر اب یقین کریںکس پر اعتماد کریں، شاید اب رہبرکے روپ میں راہزن ہی لوگوں کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ سچ میں بڑی طاقت ہوتی ہے جھوٹ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا ،ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے ہزار جھوٹ بولنا پڑتے ہیں حکمرانوںکو اس حقیقت کو ادراک کرنا ہوگا قوم کو ادھورے سچ قبول نہیں ہیں زندہ قومیں ہی فتحیاب ہوتی ہیںزندہ قوموںکو سچائی سے پیارہوتاہے ہمیں بھی ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر