... loading ...
عموماً سائنس دانوں کے بارے میں ہم تب ہی واقف ہوپاتے ہیں جب یا تو انہیں کوئی بڑا انعام مثلاً نوبل پرائز وغیرہ ملتا ہے یا پھر جب کسی سائنس دان کی طبعی موت واقع ہوتی ہے تو ہمیں ذرائع ابلاغ کی جانب سے خبر دی جاتی ہے کہ ’’آج جس سائنس دان کا انتقال ہوا ہے ،فلاں فلاں ایجاد اُس کے ذہن رَسا کی ہی مرہونِ منت ہے‘‘۔واضح رہے کہ سائنس دان اکثر وبیشتر طویل عمر گزارنے کے بعد اپنی طبعی موت ہی مرتے ہیں ،کیونکہ ایک تو ہر سائنس دان شہرت سے کوسوں دور ہوتاہے ،دوسرا اُن کے اخلاص نیت کے لوگ اتنے معترف ہوتے ہیں کہ کوئی بھی انہیں اپنا دشمن نہیں تصور کرتا۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اگر یہ کوئی مہلک ایجاد بھی کرلیں تو ،لوگ اُس ایجاد کی ہلاکت خیزی کے باعث اُس ایجاد کو ہدفِ تنقید ضرور بناتے ہیں لیکن صاحبِ ایجاد کو اُس کی اچھی نیت کے باعث ہمیشہ تعریف و توصیف کا ہی مستحق گردانتے ہیں ۔
مثال کے طور پر ایٹم بم کی ایجاد میں آئن سٹائن کے دریافت کردہ سائنسی نظریات کا کلیدی کردار تھا۔ لیکن اس کے باوجود ایٹم بم کے باعث جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگاساکی میں ہونے والے انسانی جانوں کے نقصان کا ذمہ دار آئن ا سٹائن کو کبھی بھی ٹہرایا نہیں گیا کیونکہ ہم سب سمجھتے ہیں آئن اسٹائن نے ایٹم کی دریافت ’’ایٹم بم ‘‘ کے بجائے ’’ایٹمی توانائی ‘‘جیسے دیگر نفع بخش مقاصد پورا کرنے کے لیئے کی تھی ۔ اَب اگر حضرت انسان ایٹم کو’’ایٹم بم ‘‘ کے مہلک ہتھیار میں تبدیل کرکے اُسے انسانیت کے قتل عام میں استعمال کرنا شروع کردے تو بھلااس میں آئن سٹائن کا کیا قصور ہے ۔ بالکل ایسے ہی اوّلین ایٹم بم کی ایجاد کے بعد پاکستان جیسے جن ممالک کے سائنس دانوں نے بھی اپنے ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیئے ’’ایٹم بم ‘‘ایجاد کیے ۔ کیونکہ انہوں نے یہ اقدام جارح اقوام کی جارحیت سے بچنے کے لیئے بہ امر مجبوری اُٹھایا تھا، لہٰذا ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے یہ سائنسدان اپنی قوم کے عظیم محسن کہلائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کا احترام صرف اُن کی اپنی قوم ہی نہیں بلکہ حریف اقوام بھی تہہ دل سے کرتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایران کے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قاتلانہ حملے میں ہلاکت کی خبر دنیا بھر کے لیئے انتہائی غیر متوقع اور افسوسناک تھی۔
اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ ایک سائنس دان کی قاتلانہ حملے میں ہونے والی ہلاکت کو،چاہے اُس کا تعلق کسی بھی ملک سے کیوں نہ ہو، دنیا کے مستقبل کے لیے بہر صورت نیک شگون قرار نہیں دیا جاسکتا۔ خاص طور پر ایران کے جوہری سائنس دان محسن فخری ، جن کی شہرت ماضی میں بھلے ہی ایک مایہ ناز جوہری سائنسدان کی رہی ہے لیکن حالیہ چند ہفتوں سے وہ ایران میں کووڈ 19 ٹیسٹنگ کٹس اور کورونا وائرس کے خلاف ویکسین بنانے کے لیے تحقیق میں مصروف تھے ۔اس لیے محسن فخری زادہ کی ہلاکت کی خبر نے جہاں ایران کے جاری ایٹمی پروگرام کو شدید دھچکہ پہنچایا ہے، وہیں ایران میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے کی جانے والی طبی کوششوں کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے۔نیز محسن فخری کا اچانک ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوجانا ،اس لیے بھی زیادہ تشویش ناک بات ہے کہ ایران کی دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ گزشتہ چند دہائیوں سے سخت سفارتی و سیاسی چپقلس جاری ہے ۔جیسے امریکا اور سعودی عرب کے ساتھ حالیہ دنوں میں ایران کے تعلقات زبردست ابتری کا شکار ہوئے ہیں او ر عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی جانب سے ایران پر بڑی فضائی کارروائی کرنے کی خبریں بھی تواتر کے ساتھ گردش کررہی ہیں۔ ایسے مخدوش حالات میں ایران کے جوہری سائنس دان محسن فخری زادہ کا قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوجانے کے واقعے نے براعظم ایشیا پر چھائے جنگ کو بادلوں کو کچھ مزید گھیرا کردیا ہے۔
جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کے بارے میں ایران کے قومی سلامتی کے اُمور کے سربراہ علی شامخانی کا کہنا ہے کہ ’’ محسن فخری زادہ کی حفاظت کے لیے انتظامات بہتر ین تھے لیکن دشمن نے انھیں ہلاک کرنے کے لیے ایک بالکل نیا، پیشہ ورانہ اور خاص طریقہ استعمال کیا گیا اور بدقسمتی سے وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔قوی امکان ہے کہ نہیں اسرائیل اور ایک جلاوطن ایرانی گروہ ’’مجاہدین خلق ‘‘نے مل کر ریموٹ کنٹرول ہتھیار کے ذریعے ہلاک کیا ہے۔کیونکہ ہمیںتفتیش کے بعد ایسے ناقابل تردید شواہد ملے ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور جائے وقوع پر موجود نہیں تھے اور انھوں نے محسن فخری کو نشانہ بنانے کے لیے’ ’الیکٹرانک آلات‘‘ استعمال کیے اور ان ہتھیاروں کو مصنوعی سیاروں کے ذریعے کنٹرول کیا جارہاتھا۔یعنی اِن کے قتل میں استعمال ہونے ولاے یہ جدید آلات ایسے تھے ،جن کا استعمال فقط کسی طاقت ور ملک کی خفیہ ایجنسی ہی کرسکتی ہے ۔چونکہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اس طرح کا اسلحہ پہلے بھی دہشت گردی کی مختلف وارداتوں میں استعمال کرچکی ہے ۔اس لیئے ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہمارے جوہری سائنسدان کے قتل میں اسرائیل کسی نہ صورت میں براہ راست ملوث ہوسکتا ہے‘‘۔
یاد رہے کہ ایران کے قومی سلامتی کے اُمور کے سربراہ علی شامخانی کے خدشات کچھ اس لیئے بھی عین قرین قیاس معلوم ہوتے ہیں کہ اسرائیل ایک مدت سے محسن فخری زادہ کے خلاف عالمی ذرائع ابلاغ پر منفی پروپیگنڈ ا مہم چلاتے ہوئے ،انہیں اسرائیل کا صف اول کا دشمن ثابت کرنے میں مصروف تھا۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2000 کے عشرے میں محسن فخری زادہ نے ایران کے جوہری پروگرام میں کلیدی کردار ادا کیا تھا ۔ لیکن ایرانی حکام کے مطابق پچھلے چند برسوں سے وہ ایران کے جوہری پروگرام سے خود کو مکمل طور پر الگ کرچکے تھے اور اَب وہ اپنے ملک میں طبی میدان میں دیگرسائنسی تحقیقات میں مصروف عمل تھے۔جبکہ اسرائیل نے ایران کے اس دعوی کو ہمیشہ ہی رد کیا ہے اور اسرائیلی حکام پورے شد و مد کے ساتھ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ’’حالیہ عرصے میں بھی محسن فخری زادہ خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے میں ایران کی مدد کر رہے تھے‘‘۔لیکن اسرائیل کے اس الزام کو نہ تو کبھی ایران نے تسلیم کیا ہے اور نہ ہی اسرائیل آج تک دنیا بھر کے سامنے ایسے شواہد پیش کرسکا ہے کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ محسن فخری ابھی بھی ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ منسلک ہیں ۔لیکن اگر تھوڑی دیر کے لیے اسرائیل کے موقف کو من و عن درست بھی تسلیم جائے تو اس کا مطلب یہ تو ہرگز نہیںلیا جاسکتاہے کہ ایک سائنسدان کو فقط اس لیے قتل کردیا جائے کیونکہ وہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے اپنی خدمات فراہم کررہا ہے۔ اگر یہ اُصول عالمی سیاسیات میں فروغ پاگیا تو پھر شاید ہی دنیا کا کوئی سائنسدان طبعی موت مرسکے ۔
سوچنے والی بات تو یہ بھی ہے کہ آخر جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو ہلاک کرنے والوں نے فوری طور پر کون سے مقاصد حاصل کیے ہیں ۔کیا وہ ایران کو اَب جوہری پروگرام جاری کرنے سے روک سکیں گے؟۔ تواس بابت اکثر عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ’’بالکل بھی نہیں ‘‘۔ کیونکہ ایران کا جوہری پروگرام ابتدائی مرحلے سے بحفاظت گزر کر جس آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔یہاں اَب وہ کسی ایک فرد پر منحصر نہیں ہے۔لہٰذا محسن فخری زادہ کی موت سے ایران کا جوہری پروگرام کچھ دیر کے لیے سست تو ہوسکتا ہے لیکن بہرحال وہ ویسے ہی جاری رہے گا جیسے کہ وہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری ہے۔ یعنی ایک جوہری سائنس دان کی موت سے کم ازکم ایران کو جوہری پروگرام جاری رکھنے سے تو کسی بھی صورت نہیں روکا جاسکتا۔ پھر دوسرا امکان یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں اسرائیل محسن فخری زادہ کو ہلاک کرکے ایران کو طیش دلا کر امریکا یا سعودی عرب کے خلاف عالمی جنگ میں اُتارنے کا ارادہ تو نہیں رکھتا؟ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے اسرائیل ایران کو زبردستی کسی جنگ میں دھکیلنا چاہتاہے اور یقینا اُس کام کے لیئے محسن فخری زادہ کی ہلاکت ایک بہت بڑا جواز بن سکتی ہے ۔ مثلاًایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے فخری زادہ کی ہلاکت کے ذمہ دار افراد کے لیے ’’یقینی سزا‘‘ کا عزم ظاہر کیا ہے۔
واضح رہے کہ ایران کی جانب سے اعلان کردہ ’’یقینی سزا‘‘ ذرا سی بے احتیاطی اور عجلت پسند ی کے پاس باعث خطے میں ایک نئی جنگ کا نقطہ آغاز بھی بن سکتی ہے۔اَب دیکھنا یہ ہوگا ایرانی حکام اپنی اعلان کردہ ’’یقینی سزا‘‘ امریکا ، سعودی عرب اور اسرائیل میں سے کس ملک کو فور ی طور پر دینا چاہیں گے۔ اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو ایران کے لیے ’’یقینی سزا‘‘ کا اصل ہدف اسرائیل کو ہی ہونا چاہیے کیونکہ فی الحال یہ ہی وہ واحد ملک ہے جو ایرانی حکام کے نزدیک جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی قتل میں براہ راست ملوث ہوسکتاہے۔ لیکن اگر ایران اسرائیل کو ’’یقینی سزا ‘‘ دینے کے بجائے سعودی عرب یا پھر عراق کو ’’یقینی سزا‘‘ دیتا ہے تو پھر اس کا سادہ سا مطلب یہ ہی لیا جائے گا کہ ایران نے جس طرح پچھلی بار جنرل قاسم سلیمانی کا بدلہ لینے کے لیے عراق پر ایک ’’کاسمیٹکس حملہ‘‘ کیا تھا ۔بعینہ اس بار بھی محسن فخری زادہ کے ہلاکت کے اصل ذمہ داروں کو چھوڑ کر فقط سہولت کاروں کے خلاف ’’کاسمیٹک سزا‘‘دینے کی ایک بے ضرور سی کوشش کی ہے۔بہر کیف فیصلہ ایران حکام اور ایرانی عوام ہی نے کرنا ہے کہ آخر اصل میں اُن کا دشمن کون سا ملک ہے ؟ہم تو بس یہ سمجھانے کی کوشش کررہے جب ایران کا دشمن واضح ہے تو پھر اپنے دشمن کے بجائے اُس کی بغل میں کھڑے کسی اسلامی ملک پر اپنی ’’یقینی سزا‘‘ کا غصہ نکالنا شاید ایران کی عالمی ساکھ کے لیے کسی بھی طور مناسب نہ ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭