... loading ...
کچھ عرصہ پہلے تک امریکی صدر ٹرمپ جو کسی طور پر بھی عام انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اچانک کیسے اپنی شکست تسلیم کربیٹھے؟ ڈیموکریٹک جو بائیڈن جو 20جنوری 2021میں وائٹ ہائوس میں برجمان ہوں گے امریکی اسٹیبلشمنٹ ان سے کیا کام لینے جارہی ہے؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کے جواب میں دنیا کے لیے آنے والے اگلے چار برسوں کی کہانی پوشیدہ ہے ۔ الیکشن کے نتائج کے حوالے سے دنیا میں اس قسم کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ صدر ٹرمپ اور امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات ہیں، امریکی ڈیپ اسٹیٹ کسی طور بھی نئی صدارتی مدت کے لیے ٹرمپ کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جہاں تک اول الذکر بات ہے تو یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ امریکا میں کوئی بھی وائٹ ہائوس میں صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیربطور صدر امریکا داخل ہی نہیں ہوسکتااس لیے ٹرمپ کا امریکی صدر بن جانا امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہی تھا لیکن یہ انتخاب صرف ایک صدارتی مدت کے لیے تھا ان گزرے چار برسوں میں اس صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ نے ٹرمپ سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا مثلا ٹرمپ کی متلون مزاجی کو استعمال کرتے ہوئے خلیجی عرب ریاستوں خصوصا سعودی عرب کو خوب چونا لگاکر اس کے وسائل نچوڑے گئے، اسی اچھل کود کے دوران امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کروا دیا گیا ، ٹرمپ کے یہودی داماد جیرڈ کوشنر کو استعمال کرکے عرب خلیجی ریاستوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بیج بویا گیا وغیرہ وغیرہ یہ ٹاسک چار برسوںپر محیط تھا جو مکمل کرلیا گیااب نیا آنے والا صدر بھی ٹرمپ کے اس اقدام کو واپس نہیں کرسکے گا۔ اس کے بعد امریکا کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اتحادیوں کی نئی صف بندی ہے جو بڑی حد تک افغانستان اور عراق کی جنگ میں منتشر ہوچکے تھے اور یورپی اتحادی امریکہ کا ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑتے گئے تھے یوں نیٹو بظاہر ایک یتیم ادارے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ اس لیے نئی صف بندی کا آغاز ڈیموکرٹیک جو بائیدن جیسے عمر رسیدہ اور دنیا کے حساس خطوں پر پوری نظر رکھنے والے زیرک سیاستدان سے لینا مقصود ہے اس لیے ٹرمپ کوواضح انداز میںیہ پیغام پہنچا دیا گیا تھاکہ وہ شرافت سے انتخابی نتائج تسلیم کرلے بصورت دیگر جان ایف کینیڈی ، صدر نکسن اور جمی کارٹر کے انجام کو یاد کرلے۔اس حوالے سے ملنے والے پیغام کے بعد ٹرمپ سمندری جھاگ کی طرح بیٹھنا شروع ہوگیا۔
جو بائیڈن کا صدارتی دور بھی ممکنہ طور پر چار برس کا ہی ہوگااور اگلے صدارتی الیکشن میں وہ نہیں بلکہ ایک مرتبہ پھر ری پبلکن صدر لایا جائے گا کیونکہ جو بائیڈن کے دور میں روس کے خلاف جو زمین تیار کی جائے گی اسے عملی شکل دینے کے لیے ری پبلکن صدر آگے آئیگا۔ لیکن چار برسوں کا عرصہ خاصہ طویل ہے خاص طور پر موجودہ دنیا میں تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے سیاسی اور عسکری حالات میں کچھ بھی ہوسکتاہے مگر یہاں ہم صرف امریکا اور یورپ پر حکمران صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے بیان کررہے ہیں جبکہ اصل منصوبہ ساز تو اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ جوبائیڈن ’’صلح کے سفید جھنڈے‘‘ کے ساتھ وائٹ ہائوس میں داخل ہوں گے۔ وہ ماضی میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدہ کو دوبارہ بحال کرنے کا پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے دور میں مشرقی یورپ میں روس کے خلاف نیٹو کی نئی صف بندی کی جائے گی مغربی یورپ کے کے وہ ملک جیسے اٹلی، اسپین اور جرمنی وغیرہ پر دوبارہ نیٹو کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے لیے دبائو بڑھایا جائے گا۔ ترکی کا بحیرہ روم میں راستہ روکنے کے لیے یونان اور قبرص کو مزید فعال کیا جائے گا ، ترکی پر اقتصادی دبائو بڑھا کر دوبارہ کسی فوجی بغاوت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔عسکری انخلا اور مشروط مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں مکمل طور پر امن اور سکون نہیں آنے دیا جائے گا ۔
یہ تمام صف بندی ایک بڑے ہدف کے لیے ہے جی ہاں یہ ہدف روس ہے۔کیونکہ روس کا معاشی اور عسکری طاقت کے طور پر برقرار رہنا اسرائیل کی عالمی دجالی حکمرانی کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہے۔ اسرائیل کے گرد واقع عرب ملک پہلے ہی اسرائیل کی جیب میں جاچکے ہیں اس لیے ان عرب حکمرانوں سے کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس لیے سوویت یونین کو افغانستان کی جنگ کے ذریعے تحلیل کرنا بڑے منصوبے کا صرف ایک مرحلہ تھا جس میں اس کا جغرافیہ، معاشیات اور عسکری قوت کومحدودکرنا مقصود تھاجو نوئے کی دہائی میں کامیابی سے پورا کیا گیا۔ اس کے بعد کا مرحلہ نائن الیون کے دجالی ڈرامے کے بعد ہی شروع کردیا جاتالیکن افغانستان اور اس کے بعد عراق کے مجاہدین نے اس منصوبے کو بہت پیچھے دھکیل دیا۔یہی وجہ ہے کہ اس دوران روس اور چین کو خاصا وقت مل گیا جس نے انہیں امریکااور اسرائیل کے دجالی منصوبوں کے سامنے معاشی اور عسکری عفریت میں تبدیل کردیا ۔اسی قوت سے فائدہ اٹھاکر چین اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی سرحدوں سے باہر نکل کرافریقہ تک میں اپنے پیر مضبوط کرچکا ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبے کی مخالفت صرف پاکستان کی معاشی ترقی روکنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا ہدف چین کی معاشی زمینی پیش قدمی کو روکنا ہے اسی مقصد کے لیے انتہا پسند اور قوم پرست مسلح جھتے تشکیل دے کر بلوچستان سے لیکرخیبر پختون تک دہشت گردی کی آگ بچھا دی گئی تھی جس میں بھارت ان صہیونی دجالی قوتوں کے ہراول دستے کا کام کررہا تھااس کی ناکامی کے بعد اب یہ کام پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں سے لینے کی کوشش کی جارہی ہے جو پاکستان کے دفاعی اداروں کو کھلی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیںماضی میں یہ سیاسی جماعتیں دفاعی اداروں کے خلاف زبان ہلانے کا سوچ بھی نہیںسکتی تھیں لیکن ایسا کیا ہوا کہ اب یہ ملک دشمن عناصر جمہوریت کے نام پر دفاعی اداروں کے خلاف لمبی لمبی زبانیں نکال کر کھل کر تنقید کررہے ہیں، آخر یہ سب کچھ کس کی شہہ پر ہے؟ یقینی بات ہے کہ عالمی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی پر یہ سب کچھ ہورہا ہے جو خطے میںاپنے بڑے دجالی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ملک اور قوم کی دولت لوٹنے والے ان سیاسی عناصر اور ان کے ہم نوا نام نہاد صحافیوں اورمیڈیا اینکروں کو استعمال کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی قوم اور اس کے دفاع کے ضامن اداروں کو مکمل طور پر خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب اس حوالے سے بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ جوبائیڈن کے وائٹ ہائوس میں داخلے سے پہلے امریکاکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ مشرق وسطی میں بڑی جنگ کے شعلے بھڑکا کر اس کا دائرہ پاکستان تک وسیع کرسکتی ہے۔اطلاعات کے مطابق امریکا کے بڑے بمبار طیارے اسرائیل میں ری فیولنگ کے بعد ایران سے قریب عرب ملکوں کے اڈوں پر پہنچ رہے ہیں، دوسری جانب امریکی جنگی بحری اور طیارہ بردار جہاز بھی بحیرہ عرب اور بحیرہ ھند میں پہنچ چکے ہیں، اسرائیل میں فوج کو کسی بھی بڑی جنگی صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے الرٹ کر دیا گیا ہے۔ایران کی جانب سے یہ اعلان کیا جانا کہ اگر ایران پر امریکی حملہ ہوا تو اس کا جواب عرب امارت میں دبئی کو نشانہ بناکر دیا جائے گا پورے خطے میں اس وقت ریڈ الرٹ ہے ۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارتی فوج کے سربراہ نے سعودی عرب اور عرب امارات کا دورہ کیا ہے یہ پاکستان کے لیے ایک دھمکی آمیز قدم ہے کہ ماضی میں پاکستان کے دوست ملک اب بھارت کے حلیف بننے جارہے ہیں۔ جہاں تک خطے کی اس نئی صورتحال کا تعلق ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران کا بہانہ بنا کر پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاسکتی ہے کیونکہ جب تک پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار ہیں مشرق وسطی میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں بھارت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے اسی کانٹے کو نکالنے کے لیے عالمی صہیونی دجالیت امریکا کے کاندھے پر رکھ کر یہ آخری بندوق چلانا چاہتی ہے اس کے نزدیک اس دجالی منصوبے کی کامیابی کے بعد اسرائیل کی عالمی دجالی ریاست کے قیام کا راستہ مکمل طور پر صاف ہوسکے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔