... loading ...
دوستو، ایک خبر کے مطابق برطانیا میں 2 دسمبر کی آدھی رات کو قومی لاک ڈاؤن ختم ہونے کے ساتھ ملک بھر میں تھری ٹیئرسسٹم نافذ کردیا گیا۔ یہ تین مختلف پابندیوں کے درجوں پر مشتمل ہے، اس کے مطابق بیڈفورڈ، لیوٹن، سنٹرل بیڈس اور ملٹن کینس نئے نافذ نظام کے درجے 2 کے اصولوں کی پابندیوں میں شامل ہیں۔ دوسرے درجے کی پابندیوں میں،’’ پب اور بارز‘‘ رات گیارہ بجے تک کھلے رہیں گے،لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ ایک ریستوراں کے طور پر کام کریں گے، شراب صرف کھانے کے ساتھ پیش کی جاسکتی ہے اور مختلف گھرانوں کے چھ افراد تک پب اور باغ وغیرہ میں باہر ایک ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔وزیراعظم برطانیا بورس جانسن نے اس ہفتے کے پی ایم کیوز میں ممبران پارلیمنٹ کے سوالات کا سامنا کیا ،ارکان پارلیمنٹ نے انگلینڈ کے لیے نئی سخت کورونا وائرس پابندیوں کی منظوری دے دی لیکن ٹوری کے 55 اراکین پارلیمنٹ نے حکومتی منصوبے کے خلاف ووٹ دیا ہے اور یہ بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ میں سب سے بڑی سرکشی ہے۔دوسری جانب برطانیا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے وسیع پیمانے پر استعمال کے لیے فائزر اور بائیو ٹیک کورونا وائرس ویکسین کی منظوری دی ہے۔
ایک طرف کورونا وائرس اور مہنگائی نے پاکستانی عوام کو چاروں طرف سے گھیرا ڈال رکھاہے اور ایسی صورتحال میں’’ پلس کنسلٹنٹ ‘‘نے حکومتی کارکردگی پر عوامی رائے جانچنے کے لیے سروے کروایا جس کے نتائج سامنے آ گئے ہیں جو کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے پریشان کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ پلس کنسلٹنٹ کی جانب سے کروائے گئے سروے میں دو ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا، ادارے نے لوگوں سے سوال کیا کہ موجود ہ معاشی بحران کا اصل ذمہ دار کون سی حکومت ہے؟ تو 46 فیصد نے ملک کے خراب معاشی حالات کا ذمہ دار موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو قرار دیا اور عمران خان کے معیشت کو بحران سے نکالنے کے دعوے پر بھی اعتبار نہیں کیا جبکہ 37 فیصد نے معاشی بحران کا ذمہ دار گزشتہ حکومتوں کو ٹھہرایا۔سروے کے نتائج میں بتایا گیاہے کہ 63 فیصد پاکستانیوں نے معیشت کی سمت کو ہی غلط قرار دیاہے جبکہ 96 فیصد پاکستانی مہنگائی سے شدید پریشان نظر آئے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا موقف ہے کہ معاشی بحران کی ذمہ داری گزشتہ حکومت ہے جس نے ملکی قرضوں میں شدید اضافہ کیا اور ملک کو بھاری تجارتی خسارے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
آپ نے پیسوں کے فراڈ کے بارے میں تو سنا ہو گا لیکن 22 سالہ نوجوان کی تو شادی کی تمام خوشیاں ہی اس وقت لٹ گئیں جب اس نے اپنی دلہن کا گھونگٹ اٹھایا،رشتہ کروانے والوں نے نوجوان لڑکی دکھا کر 70 سالہ بیوہ ملازمہ بیاہ دی۔ بیٹے کی شادی کے ارمان پورے کرنے والا خاندا ن لٹ گیا، شادی کی پہلی رات ہی نوجوان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے،موضع امین پور کے رہائشی اللہ دتہ کے مطابق اس نے اپنے 22 سالہ بیٹے کا رشتہ 20 سالہ لڑکی کے ساتھ طے کیا تھا، رشتہ کروانے والوں کی دس ہزار روپے فیس بھی ادا کی اور جہیز کی مد میں 60 ہزار روپے بھی ادا کیئے لیکن شادی کر کے جب دلہن کو گھر لائے تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہواہے اور نوجوان لڑکی کی جگہ انہیں 70 سالہ مائی دلہن بنا کر دے دی۔دولہے شاہد کا کہناتھا کہ ہمارے ساتھ فراڈ ہواہے اور لڑکی دکھا کر 70 سالہ عورت کی رخصتی کر دی۔ 70 سالہ نصرت بی بی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ میں ان کے گھر میں کام کرتی تھی اور انہیں رشتہ طے کرتے وقت بیس سالہ لڑکی دکھائی گئی تھی لیکن جب رشتہ طے ہوا تو لڑکی بھاگ گئی اور پھر بارات والے دن مجھے ڈرا اور دھمکا کر ان کے ساتھ دلہن بنا کر بھجوا دیا۔نوجوان لڑکے نے فراڈ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کروانے کی درخواست دیدی ہے اور رقم کی واپسی کا بھی مطالبہ کر دیاہے۔
پیسہ نصیب سے ملتا ہے، کوئی دھوکا دہی اور فراڈ کرکے پیسہ کمانے کی کوشش کرتا ہے تو کسی کو چھپر مار مل جاتا ہے۔۔تھائی لینڈ کے غریب مچھیرے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔۔کہتے ہیں کہ وہیل مچھلی ایک ایسا جانور ہے جس کی قے اتنی مہنگی فروخت ہوتی ہے کہ سن کر آدمی دنگ رہ جائے۔میل آن لائن کے مطابق وہیل کی قے کو ’امبر گریس‘ کہتے ہیں۔ اس میں ’امبرین‘ پایا جاتا ہے جو پرفیومز بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ پرفیومز کی خوشبو اسی امبرین کی وجہ سے دیر تک برقرار رہتی ہے۔۔۔ گزشتہ دنوں تھائی لینڈ میں ایک غریب ماہی گیر کو وہیل مچھلی کی قے ملی اور وہ بیٹھے بٹھائے کروڑ پتی بن گیا۔اس ماہی گیر کا نام ناریس سواناسینگ بتایا گیا ہے جسے دنیا میں وہیل کی قے کا سب سے بڑا لوتھڑا ملا، جس کا وزن 100کلوگرام تھا اور اس کی مالیت 24لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 51کروڑ روپے)بنتی ہے۔نوریس کو جب امبرگریس ملا تو اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس نے اپنے ہمسائے کو یہ دکھایا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ اس کا ہمسایہ ماہی گیر امبرگریس کے بارے میں جانتا تھا چنانچہ اس نے نوریس کو بتایا کہ یہ انتہائی مہنگی چیز ہے۔ اس نے نوریس سے کہا کہ وہ مقامی حکام کو مطلع کرے۔ مقامی افسران نوریس کے گھر آئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ یہ امبرگریس ہی ہے۔ نوریس کا کہنا تھا کہ ’’اب تک میری زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزر رہی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح اچانک میرے ہاتھ خزانہ لگ جائے گا۔
سردیاں چل رہی ہیں۔۔ گاؤں،دیہات میں ساگ کا دور دورہ ہے۔۔ باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔ساگ اصل میں گھاس ہی تھا۔۔ہندوستانیوں نے جب یہ گھاس پکا کر چکھی تو بہت اچھی لگی۔۔لیکن کوئی پوچھتا کہ کیا کھایا ہے؟ تو بتاتے ہوئے شرم آتی کہ ہم نے گھاس کھائی ہے۔۔چنانچہ ایک دن ایک دانا بابا جی نے کچھ دیر غوروفکر کے بعد لفظ گھاس کو الٹ دیا۔۔اب اس کا نام ساگھ پڑ گیا۔۔پھر زمانے کے گزرنے کے ساتھ نام میں تخفیف ہوئی تو ساگھ سے ساگ ہو گیا۔۔اب دیہی علاقوں میں یہ ایک معزز سبزی کے طور پر کھایا جاتا ہے۔۔جبکہ اسکی اصل وہی ہے جونام کے الٹ پھیر کے بعد سامنے آئی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔معروف دانشوراور مفکر واصف علی واصف کے پاس ایک دوست ملنے آیا،انہوں نے اس کے لیے چائے منگوالی۔۔وہ بولا، میں بڑا پریشان ہوں، ملک کے حالات بڑے خراب ہیں۔۔واصف صاحب نے پوچھا، تم نے خراب کیے ہیں؟؟وہ بولا نہیں، واصف صاحب نے پھر پوچھا،کیا تم حالات ٹھیک کرسکتے ہو؟ دوست نے پھر نفی میں گردن ہلادی۔۔واصف صاحب مسکرا کر بولے۔۔ تے فیر چاپی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔