وجود

... loading ...

وجود

پاک افغان تعلقات میں بہتری کا امکان

هفته 28 نومبر 2020 پاک افغان تعلقات میں بہتری کا امکان

عمران خان کاحالیہ دورہ کابل بہت اہمیت کا حامل ہے ہمسایہ ملک کا قصد کرتے ہوئے وفد کے انتخاب میں وزیراعظم نے سنجیدگی دکھائی ہے شاہ محمود قریشی ،صنعت و تجارت کے مشیر رزاق دائوداور ڈی جی آئی ایس آئی کو ساتھ لیجا نے سے واضح ہے کہ دونوں ممالک نے اختلافی امور پر اپنے اپنے نکتہ نظر کی وضاحت کرنے کے ساتھ مشترکہ مفادومقاصدکے حصول میں حائل رکاوٹیں دور کرنے پر تبادلہ خیال کیاہے دورے کا امریکااوریورپی یونین نے خیر مقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار ہونے کے ساتھ افغان شورش پرقابو پانے میں بھی مدد ملے گی لیکن تلخ ماضی کے تناظر میں زیادہ توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں کیونکہ دہائیوں سے دونوں ممالک میں موجودبداعتمادی اور شکوک و شبہات ہیںحالانکہ دونوں ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت میں تبادلہ خیال کا عمل مسلسل جاری ہے باہمی تلخیوں کی وجہ سے دوطرفہ تجارت کا حجم دوارب ڈالر سے کم ہو کرمحض نوے کروڑ رہ گیا ہے مستقبل میں جنگوں سے نہیں ملک معیشت کے ذریعے فتح ہوں گے اور معیشت کے فروغ کے لیے امن ناگزیر ہے دونوں ہمسایہ ممالک باہمی تعاون سے غربت و بے روزگاری کا خاتمہ کر سکتے ہیں مگر اولیں شرط باہمی اعتماد ہے خیر سگالی کے فروغ کے لیے اشرف غنی نے افغانستان میں قید کئی پاکستانیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن جب تک سرحدوں پر بدامنی کا خاتمہ اور امن مخالف عناصر کا یکسوئی سے مقابلہ نہیں کیا جاتا تب تک پاک افغان تعلقات میںزیادہ بہتری کا امکان نہیں ۔

طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کا اخلاص کسی سے پوشیدہ نہیں امریکا بھی معترف ہے دوحہ امن معاہدہ پاکستانی اخلاص کی عمدہ مثال ہے اشرف غنی نے دوحہ مذاکرات میں پُر خلوص کردار پر تشکربھی کیا ہے مگر امن ،ترقی اور خوشحالی کے لیے جب تک دونوں ملک مل کر کام نہیں کریں گے تب تک تلخیوں کازہرکم نہیں ہوسکتا پاکستان کے تعاون کا جواب میں بھارت کو تھپکی، دوستی کے تقاضوں کے منافی ہے انٹر افغان مذاکرات میں بھی پاکستان کا کردار مثبت اور حوصلہ افزا ہے لیکن افغان حکومت کوتجارتی مراعات کے لیے بھارت کے سواکوئی نظر نہیں آتا یہ دوستانہ اطوار نہیں معاندانہ سوچ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کے دورے سے افغان قیادت نرم ہوتی ہے یا روایتی پالیسی پر کاربند رہتی ہے الزام تراشی کا سلسلہ ترک کرنے سے یقین سے کہہ سکیں گے کہ دوطرفہ اختلافات میں اضافے کی بجائے بہتری کا روزن کھل رہا ہے۔

حامد کرزائی سے لیکر اشرف غنی تک کے دورمیں پاک افغان تعلقات کشیدگی اور سردمہری کا شکاررہے بہتری کی ہلکی سی رمق بھی کسی ایک واقعہ سے فضا میں دھوئیں کی طرح تحلیل ہوجاتی ہے بداعتمادی اور شکوک وشبہات بڑھانے کی بھارت نے بھی ہر ممکن کوشش کی ہے سرحدی حدود کے تعین میں افغان قیادت نے خلوص کے جواب میں کبھی گرمجوشی نہیں دکھائی بلکہ سیاسی و عسکری قیادت نے ہمسایہ اسلامی ملک کے خلاف سازشوں میں آلہ کار کا کردار ادا کیا ہے طالبان کے دورِ حکومت میں دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضا بنی لیکن عالمی طاقتوں کے چڑھائی سے اعتماد کی فضا کے خاتمے کے ساتھ خطے کا امن بھی رخصت ہوگیا یہ بات کوئی راز نہیں رہا کہ اعلٰی حکومتی عہدوں پر فائز شخصیات اور ایجنسیاں تک پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں بھارت کی آلہ کار ہیں اسی لیے خلوص کاجواب بے رُخی سے دیکر بھارتی سازشوں میں سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہیں عمران خان کی کابل آمد سے کیا بداعتمادی اور شکوک و شبہات کا خاتمہ ہوجائے گا ؟میرے خیال میں میں سردمہری میں کچھ کمی آسکتی ہے۔

پاکستان کئی بار کابل حکومت کو آگاہ کرچکا کہ بھارت نے پراکسی وار کے لیے افغانستان کو مرکز بنا رکھا ہے مگر حامدکرزئی کی طرح اشرف غنی حکومت نے کبھی تحفظات دور کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ افغانستان میں جاری شورش کاپاکستان کو زمہ دار ٹھہرا کر معصوم بننے کی روش اختیارکی جس کی وجہ سے دونوں برادر اسلامی ممالک میں اعتماد کی فضا نہ بن پائی لیکن اب حالات بدل رہے ہیں امریکا راہ فرار اختیار کررہا ہے اور افغان حکومت کی مالی اعانت میں تخفیف کی روش پر گامزن ہے اِس لیے افغان قیادت کو حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اچھی ہمسائیگی دکھانی چاہیے شائبہ نہیں کہ افغانستان ایک قبائلی معاشرت کا حامل ملک ہے اور اُس کے سیکورٹی اِداروں میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ بیرونی اعانت کے بغیر ملک میں جاری انتشارو افراتفری پر قابو پا سکے اندرونی و بیرونی درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے لیے کسی نہ کسی پر تکیہ کرنا مجبوری ہے لیکن یہ مجبوری کسی ہمسائے کے خلاف سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیے بغیر بھی پوری ہو سکتی ہے بشرطیکہ افغان قیادت سنجیدہ ہو وزیرِ اعظم کا حالیہ دورہ تجارتی رکاوٹوں اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات کے تناظر میں کافی اہم ہے لیکن افغان قیادت کے تعاون کے بغیر مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے ۔

پاک افغان طویل سرحد پر غیر قانونی آمدورفت کا خاتمہ دونوں ممالک کی اولیں خواہش ہے کیونکہ تخریب کاراور منشیات فروش دشوار گزرگاہوں کے ذریعے ہی مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں المیہ یہ ہے کہ دراندازوں کو روکنے کے لیے پاکستان باڑ لگاتا ہے تو افغانستان معترض ہوتاہے اگر سرحدوں پر نظر رکھنے کے لیے دستے تعینات کرتا ہے تب بھی افغانستان اعتراض کرتا ہے حالانکہ دونوں ممالک سرحدوں پر آمدورفت کو قانونی بنا کر نہ صرف شرپسندوںکا خاتمہ اوراندرونی انتشار پر قابو پا سکتے ہیں بلکہ منشیات فروشی کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیںلیکن جب تک افغان قیادت بھارت کو سرزمین کے استعمال سے باز نہیں کرتی تب تک پاکستانی کاوشیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں۔

شاہ محمود قریشی اور میجرجنرل بابرنے مشترکہ پریس کانفرنس میں بھارت کی دہشت گردانہ کاروائیوںکے ثبوتوں پر مبنی ڈوزیئر پیش کیا یو این او کے سیکرٹری جنرل اورسلامتی کونسل کے مستقل ممبران ممالک کے سفیروں کوبھی آگاہ کیا جا چکاجنھیں جھٹلانا آسان نہیں ڈوزیئر کی تفصیلات سے صاف معلوم ہوتاہے کہ پاکستان کے خلاف زیادہ ترکاروائیوں میں ملوث تخریب کاروں کی سرپرستی و معاونت افغانستان میں قائم بھارتی سفارتخانہ اور قونصلیٹ کرتے ہیںقبل ازیں افغانستان کی ہر حکومت ملک میں جاری لڑائی کا زمہ دار پاکستان کو ٹھہراکر بدنام کرتی رہی لیکن جب سے بھارت نے حکومتی سطح پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنے اور سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے پاکستانی اِداروں کے ہاتھ ناقابلِ تردید ثبوت آ گئے ہیں جن کی روشنی میں سفارتی ذرائع سے افغان حکومت سے رابطہ کرکے مسلہ اُٹھایا گیا اب وزیراعظم کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی کا جانا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی پراکسی وار پرافغان قیادت سے دوٹوک بات کی ہوگی اِس لیے پاک افغان تعلقات میں بہتری لانے کے ساتھ وزیراعظم کا دورہ بلوچستان اور کے پی کے میں جاری تخریبی لہر کا زورتوڑنے کا باعث بن سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر