وجود

... loading ...

وجود

پی ڈی ایم میثاق درست ،پر حقائق مسخ نہ کیجیے

جمعه 27 نومبر 2020 پی ڈی ایم میثاق درست ،پر حقائق مسخ نہ کیجیے

مقتدرہ درپیش سیاسی صورتحال کی سنگینی میں کوتابیں دکھائی دیتی ہے۔آبرومندانہ زباں و بیاںا و رطرز عمل حکمران حلقوں کا بھی نہیں۔یقینا حزب اختلاف کی جماعتیں جن کا اب پاکستان ڈٰیمو کریٹک موومنٹ میں اکٹھ کے بعض اظہارات سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔چناں چہ پی ڈی ایم 17 نومبر کو منظور کی گئی اپنی بارہ نکاتی میثاق پر قائم رہے۔عداوت میں ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں تو لا محالہ ان کی تحریک منتشر ہو گی۔۔ جیسے مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کے اشاروں اور کنایوں سے مترشح ہے کہ بھارت، افغانستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے اندر ہمارے پائوں کے نشانات جاتے ہیں۔ مولانا کا یہ اظہار کشمیر کے مؤقف پر کاری وار ہے۔ جس کے لیے ان کی اپنی جماعت کی سالوں جدوجہد رہی ہے۔ افغانستان کے اندر روسی فوجی حملے،سیاسی مداخلت، بھارت کی ہم رکابی ۔ پھر اصحاب شمال کی کفالت ،ان کی عسکری و سیاسی نشونما جس کے لیے بھارت کے ساتھ ایران بھی ، افرادی، عسکری سازو سامان اور مالی طور پر ان کے سروں پرموجود رہا۔ نائن الیون کے نا خوشگوار سانحات کے بعد افغانستان پر امریکا کی قیادت میں نیٹو کے تحت دنیا کے 40ممالک کا افغانستان پر قبضہ ، طالبان کی حکومت کو تاراج کرنا، کھیت،کلیان، باغات، شہری و دیہی آبادیوں، اسکولوں، مدارس ، ہسپتالوں اور نظام زندگی کی تباہی اور افغان عوام کے قتل عام میں ہمسایہ ملک بھارت اور بالخصوص ایران پوری طرح شریک تھے۔

چناں چہ اس پورے منظر نامے میں جمعیت علماء اسلام منطقی رائے کی حامل ہے کہ ان ہمسائیوں نے انتہائی گھنائونی اور انسان کش پالیسیا ں اپنا رکھی ہیں۔ تسلیم کہ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں ،جنرل پرویز مشرف رژیم ان استعماری ممالک کے کندھے سے کندھا ملا کر افغانوں کی بربادی میں شامل ر ہی۔ جس کے خلاف جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتوں نے پاک افغان دفاع کونسل،بعد ازاں متحدہ مجلس عمل کے تحت زبردست تحریک چلائی اور یقینا جنرل مشرف رژیم کی اس تابع اور برادر کُش پالیسی نے ملک پاکستان کو بھی طرح طرح کی آزمائشوں اور مصائب سے دو چار کیے رکھا ۔ گویا پرویز مشرف رژیم کی افغان پالیسی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ثابت ہوئی ۔ کابل کے اسٹیج پر سجائی گئی نئی سامراجی بازی میں پاکستان کے لیے کوئی جگہ نہ رہنے دی گئی ۔ امریکا نے بھارت کو پہلو میں بٹھایا ۔نتیجتاً افغانستان کی اس نئی صورتحال کے باعث پاکستان عسکری گروہوں کی آماجگاہ میں تبدیل ہوا۔ جس کا

خمیازہ ستر ہزار سے زائد جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس ناسور سے اب بھی چھٹکارا نہ پایا جاسکا ہے ۔
چناں چہ جب اس نوع کا مؤقف سامنے آئے گا تو بادی النظر میں اس کا مضر اثر کشمیری عوام کی طویل جدوجہد،افغان عوام ،افغان طالبان اور حزب اسلامی کی بے پناہ قربانیوں پر مشتمل آزادی کی طویل تحریک پر پڑے گا۔ علی الخصوص افغان طالبان نے افغان عوام کی حمایت سے امریکا کو نکلنے اور مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ لہٰذا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی جنگ کے لمحہ اپنے اصولی مؤقف سے انحراف نہیں کرنا چاہئے ۔ کشمیری عوام پر نریندر مودی کی فاشسٹ حکومت نے ظلم کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں ۔ یہی وطیرہ بھارت کی بزعم خیش سیکولر کانگریسی حکومتوں میں بھی رہا ہے۔ اور حیرت انگیز طور پر نئی دہلی پر حکمران ان دو جماعتوں کا نقطہ نظر کشمیر اورپاکستان بارے یکساں ہے۔ افغانستا ن کے اندر استعماری قبضہ گر ممالک کی معاونت میں بھارت کی مداخلت اور معاونت یکسانیت اور واضح لائن رکھتی ہیں ۔ حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر بعض سیاسی حلقے کانگریس کی طرح بی جے پی کی حکومت ،ان کی پالیسیوں سے سے بھی قطعی ہم آہنگی اورموافقت رکھتے ہیں ۔ امریکی نمائندہ خصوصی زلمئی خلیل زاد نے اپنے دورہ بھار ت کے دوران بھارت کو افغان طالبان سے تعلقات بہتر بنانے ،ان سے مذاکرات کر نے کی تجویز دی تو افغان طالبان کی جانب سے مثبت رائے سامنے آئی۔ البتہ یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ بھارت نے ہمیشہ افغان دشمنوں کا ساتھ دیا ہے۔افغان طالبان ہو یا حزب اسلامی دونوں جماعتیں سمجھتی ہیں کہ بھارت اور پاکستان اپنے تنازعات باہمی طور پر حل کریں ۔خصوصاً کشمیر ی عوام کی تحریک کی اخلاقی حمایت کرتے ہوئے

دونوں ممالک کو قضیہ بات چیت کے ذریعے حل کے مئوقف کی حامل ہیں ۔
جے یو آئی کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کا پچھلے دنوں، اتوار25اکتوبر کو کوئٹہ کے نواح ’’ہزار گنجی ‘‘ میں دھماکا پی ڈی ایم جلسہ ناکام بنانے کی غرض سے کرایا جانے کا الزام درست نہیں ہے ۔ یعنی مولانایہ کہتے ہیں کہ یہ دھماکا پاکستان کے اداروں کا کیا کرایا تھا۔یا 27 اکتوبر کو پشاور کے اندر مدرسہ میںدھماکا ملک کے اداروں پر تھوپنا کسی صورت تسلیم کرنے لائق نہیں ۔ معروضی حقائق یہ ہیں کہ ہزار گنجی دھماکا ،کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے کے گروہی جنگ کا شاخسانہ تھا ۔ جس میںاپنے منحرف و مخالف افراد کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا تھا۔ مزید برآں پشاور مدرسہ دھماکا کرنے والے بھی شناخت کے لحاظ سے مخفی عنوان نہیں ہے۔جنہیں بدیہی طوربھارت اور کابل کے خفیہ اداروں نے پاکستان کے خلاف محفوظ کر رکھا ہے۔یہ گروہ ہی عوامی نیشنل پارٹی پر حملہ آور تھے ۔ان ہی نے مولانا عبدالغفور حیدری مولانا فضل الرحمان ، مولانا محمد خان شیرانی پر خودکش حملے کر ائے تھے۔اورجدا ان سے داعش بھی نہیں ہے ۔جس نے کابل یونیورسٹی کو طلباء و طالبات کے خون سے سرخ کردیا ۔کابل شہر پر راکٹ باری کی۔گویا اس حقیقت کو جھٹلانا نہیں چاہیے۔ قدموں کے نشان کابل ہو یا بھارت یہاں تک ایران کے بھی پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ بہر کیف ملک میں سول و جمہوری معاملات میں مداخلت بلاشبہ ہو رہی ہے ۔ آئین کے وقار،پارلیمنٹ کی با لا دستی اور حاکمیت کا سوال درپیش ہے۔ لہٰذا اس باب میں سیاسی و جمہوری احتجاج و تحریک بہر طور جاری رکھنی چاہیے۔ البتہ سیاسی جنگ میں حقائق مسخ کرنے کی سعی جائز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر