... loading ...
(مہمان کالم)
نکولس کرسٹوف
کچھ باتیں درست ثابت ہوتی ہیں‘ خواہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے منہ سے ہی کیوں نہ نکلی ہوں۔ ٹرمپ کئی مہینوں سے ا سکول دوبارہ کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے اور ان کا یہ مطالبہ درست بھی لگتا ہے۔ ا سکول خاص طور پرایلیمنٹری ا سکول کورونا وائرس پھیلانے کا زیادہ سبب نہیں بنے جبکہ ریموٹ لرننگ کم آمدنی والے بچوں کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ اس کے باوجود امریکی ا سکول بند کیے جا رہے ہیں۔ بدھ کے دن نیویارک سٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ ا سکول بند کر رہا ہے حالانکہ ریستوران اور بارز کو کام کرنے کی اجازت ہے۔ آخر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ بروورڈ کائونٹی فلوریڈا کی ایک انگلش ٹیچر لا شونڈرا ٹیلر کہتی ہیں ’’میں گزشتہ پچیس سال سے ایسے ہی کم آمدنی والے ا سکول میں پڑھا رہی ہوں اور میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ ریموٹ ا سکولنگ ہمارے بچوں کو برباد کر رہی ہے‘۔ کئی بچوں کے پاس کمپیوٹر نہیں ہے یا وائی فائی کنکشن نہیں ہے۔ چھوٹے بچے روزانہ کلاس سے غیر حاضر رہتے ہیں کیونکہ انہیں گھر میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنا پڑتا ہے، چھوٹے موٹے کام کرنا پڑتے ہیں یا کم آمدنی والے خاندان میں پیسے کمانے میں ہاتھ بٹانا پڑتا ہے۔ کلاس سے غیر حاضری کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے‘‘۔ ارلی لٹریسی پروگرام ’’ریڈنگ پارٹنرز‘‘ کی چیف ایگزیکٹو ایڈیلا وٹنی نے مجھے بتایا ’’موسم گرما میں بچے خاص طور پر کم آمدنی والی فیملیوں کے بچے ا سکول چھوڑ دیتے ہیں مگرکووڈ 19 کے دوران ا سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعدا دکہیں زیادہ ہے‘‘۔ چلیں! مان لیا کہ امریکا نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ا سکولوں کو بند کرنا ضروری تھا تو بھی اسے آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے صورتحال کو نارمل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور جولائی میں ا سکول کھولنے کی ضرورت کی شدت میں اضافہ ہوگیا تو ریپبلکنز نے ان کی حمایت کی مگر ڈیموکریٹس فطری طور پر اس کی مخالفت پر اتر آئے۔ اس طرح ڈیموکریٹس نے ا سکول بند کرانے میں اپنا کردار ادا کیا اور یوں لاکھوں فیملیوں اور ان کے بچوں کے مستقبل کو تباہ کر دیا۔ بوسٹن، فلاڈیلفیا، بالٹی مور اور واشنگٹن ڈی سی میں اسکولوں کو تو بند کر دیا گیا مگر ریستوران کھلے رکھے گئے۔ یہ درست ہے کہ ٹرمپ کورونا وائرس کی شدت کو کم خطرناک کر کے پیش کرتے رہے۔ اگر وہ ا سکول کھلے رکھنا چاہتے تھے تو انہیں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اس کے خلاف لڑنا چاہئے تھا اور بجٹ سے رقوم نکال کر ا سکولوں کی عمارتوں کو وائرس سے محفوظ بنانے پر خرچ کرنا چاہئے تھی؛ تاہم آج ہم کلاس روم میں تعلیم چاہتے ہیں تو ایک عملی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں وہ اسکول بھی کھلے رکھنے چاہئیں جن میں وینٹی لیشن اور دیگر حفاظتی امورکا مناسب انتظام نہیں ہے؟ امریکا نے ا س بات کا جواب بہت سے ا سکول بند کرکے اور ریموٹ لرننگ شروع کر کے دیا ہے جبکہ زیادہ تر بزنس کھلے رہے یا انہیں دوبارہ کھول دیا گیا۔ اس کے برعکس یورپ نے متضاد پالیسی اپنائی اور پب اور ریستوران بند کر دیے مگر انہوں نے ا سکول کھلے رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے اور ثبوتوں سے عیاں ہے کہ یورپ نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کیا۔ یورپ اور امریکا میں ا سکول کورونا وائرس کے پھیلائو کا زیادہ سبب نہیں بنے اور نہ ہی والدین اور ٹیچرز کی زندگیاں زیادہ رسک پر تھیں۔امریکن اکیڈمی آف پیڈریاٹکس کے مطابق ’’بچے جب کلاس روم میں ہوتے ہیں تو ان کی بہترین لرننگ ہوتی ہے مگر بچے ا سکول میں تعلیم سے زیادہ دیگر چیزیں بھی سیکھتے ہیں۔ وہ ا سکول میں سماجی اور جذباتی مہارتیں سیکھتے ہیں، انہیں اچھا کھانا ملتا ہے، ذہنی صحت کو اچھی سپورٹ ملتی ہے، ایکسر سائز کا موقع ملتا ہے جبکہ آن لائن تعلیم میں یہ سب کچھ نہیں مل سکتا۔ امریکا میں ہر آٹھ میں سے ایک بچہ ایسے والدین کے ساتھ رہتا ہے جو منشیات کے عادی ہیں‘ جو کورونا سے کہیں مہلک وبا قرار دی جا سکتی ہے۔ میں نے بچوں کو انتہائی خستہ اور گھٹیا گھروں میں رہتے ہوئے دیکھا ہے جن کے لیے ا سکول کی عمارت ایک جنت اور لائف لائن سے بڑھ کر ہوتی ہے‘‘۔ امریکا کا نظام تعلیم پہلے ہی ایسا ہے جس کے فوائد اور نقصانات ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتے ہیں۔ امیر بچے امیر ا سکولوں میں پڑھتے ہیں جو انہیں مزید آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ غریب بچے غیر معیاری ا سکولوں میں پڑھتے ہیں جو انہیں پسماندہ رکھتے ہیں۔ ا سکول بند کرنے سے اس عدم مساوات کو مزید فروغ ملا کیونکہ نجی ا سکول کھلے رہے اور متمول والدین اپنے بچوں کی آن لائن تعلیم کے لیے بھی بہتر انتظامات کرنے کے قابل تھے۔ اس طرح کم آمدنی والے بچے مزید پیچھے رہ گئے۔
لاس اینجلز کی آسٹن بٹنر کے مطابق ان کے ہاں زیر تعلیم طلبہ میں سے 80فیصد بچے انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ارجنٹینا اور بلجیم میں ا سکولوں میں ہڑتالوں پر ہونے والی ا سٹڈی کے مطابق اسکول سے غیر حاضری سے بچوں کو بہت زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے خاص طور پر ڈراپ آئوٹ ہونے والے بچے زندگی میں بہت کم کماتے ہیں۔ میکنزی اینڈ کمپنی کے مطابق کورونا کی اس عالمی وبا کے دوران ا سکول بند ہونے کی وجہ سے ایک ملین سے زائد مزید بچے ڈراپ آئوٹ ہو جائیں گے۔ ڈراپ آئوٹ ہونے والے بچوں کی عمر بھی کم ہوتی ہے اس لیے جس طرح کورونا وائرس بچوں کی موت کا باعث ہے‘ اسی طرح ا سکولوں کی بندش بھی ان کی موت کا سبب بنتی ہے۔ رواں مہینے ہونے والی ایک نئی ا سٹڈی کے مطابق امریکا میں پرائمری ا سکولوں کی بندش کی وجہ سے انسانی زندگی کئی سال کم ہو جائے گی کیونکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ا سکول چھوڑ جائے گی جن کی زندگی وائرس پھیلنے کے باوجود بچائی جا سکتی تھی۔ لارین برگ اوریگن ریاست میں ایک ا سکول پرنسپل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض بچے آن لائن تعلیم میں بہتر سیکھ سکتے ہیں مگر ہر کلاس میں بمشکل تین یا چار بچے باقاعدگی سے کلاس اٹینڈ کرتے ہیں۔ ا سکول اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ وہ بچوں کو کروم بکس اور ہیڈ فون دیتے ہیں۔ الارم والے ٹائمر دیتے ہیں۔ لارین برگ کے مطابق ہر طرح کا جتن کرنے کے باوجود کئی بچے غیر حاضر رہتے ہیں۔ بہت مناسب ہوگا کہ ہم یورپ کی پیروی کریں۔ ریستوران اور بارز بندکریں اور ا سکول کھولنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔