... loading ...
یاسر یاک
۔۔۔۔۔
مہمان کالم
شام میں روسی مداخلت سے ممکن ہے کہ امریکا کے لیے کئی بنیادی تبدیلیا رونما ہوئی ہوں، کچھ عرصہ پہلے واشنگٹن نے کہا تھا کہ ماسکو شام تنازع میں ایک فریق بن رہا ہے۔ شام کے بحران پر واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان ایک بڑا اختلاف یہ رہا ہے کہ اسد حکومت کا تختہ الٹنا امریکی پالیسی تھی جبکہ روس کا ہدف امریکی کوششیں ناکام بنا کر اسد حکومت کو بچانا تھا۔ اس دوران داعش کے ظہور نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی۔ اوباما انتظامیہ اس غور و فکر میں پڑ گئی کہ اسد حکومت کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرے یا پھر داعش، القاعدہ اور اس کے اتحادی گروپ النصرہ فرنٹ کیخلاف لڑائی کو ترجیح دی جائے۔ 2014ء کے موسم خزاں میں پنٹاگون نے داعش کے خاتمے کو اولین ترجیح بنا لیا۔ اس کے بعد امریکا نے داعش کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جبکہ وہ علاقے جو کہ امریکی فورسز کی پہنچ سے دور تھے، وہاں روس نے کارروائیاں شروع کر دیں جن میں تدمر اور دیر الزور شامل ہیں۔ یوں امریکا نے روسی فورسز کو شام کے مغربی علاقوں دور رکھا جسے ’’کارآمد شام‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں اعتدال پسند اپوزیشن گروپ بہت مضبوط تھے، امریکا شامی حکومت کے خلاف لڑائی میں انہیں سپورٹ کر سکتا تھا۔ اس دوران امریکا نے اردن میں جائنٹ آپریشن سنٹر قائم کرنے کی روسی تجویز مسترد کر دی۔ یہ امریکی اقدام ممکنہ طور پر شامی حکومت کو مزید ہراساں اور کمزور کرنے کے لیے تھا، اس کے نتیجے میں مسلح اپوزیشن کو ختم کرنے کا عمل طول پکڑ گیا جو شہری ہلاکتوں میں مزید اضافے کا باعث بنا۔ آج خصوصاً شمالی شام میں امریکا اور روس ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، جس میں امریکی رویے کا ابہام اکثر مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ ابہام امریکی اداروں کے مابین مکمل اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث پیدا ہو رہا ہے، جن میں وائٹ ہائوس اور پنٹاگون سرفہرست ہیں۔
اکتوبر میں جس وقت ترکی نے ’’پیس سپرنگ‘‘ کے نام شمالی شام میں آپریشن شروع کیا، امریکا خطے سے فوج نکال رہا تھا۔ امریکا کے چھوڑے ہوئے فوجی ٹھکانوں میں ایک متراس ملٹری ایئر فیلڈ ہے جو کہ عین العرب سے 30کلو میٹر دور جنوب میں واقع ہے۔ امریکی فوج یکم نومبر کو اس ایئر فیلڈ میں واپس آ گئی، اس دوران امریکی قیادت نے اعلان کیا کہ اس ایئر فیلڈ کو خطے میں نئے فوجی ٹھکانوں کے قیام کے لیے سپلائی سنٹر کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں ایئرپورٹ پر روسی ملٹری فورس کے پہنچنے سے قبل انہوں نے دوبارہ سے اس ایئر فیلڈ کو خالی کر دیا۔ ممکن ہے کہ اس حوالے سے امریکا اور روس کا کوئی خفیہ یا تحریری معاہدہ ہوا ہو۔ شام کے دونوں بڑے فریقین کے خطے میں اپنے اپنے مفادات ہیں تاہم دونوں غیر ضروری ٹکرائو سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ شامی بحران سے متعلق دو امور پر روس امریکا اختلافات بڑے واضح ہیں۔ امریکا شامی بحران کا ایسا حل چاہتے ہیں جس میں شام کے مستقبل میں بشار الاسد کا کوئی کردار نہ ہو مگر روس اسد حکومت کو سپورٹ کرتا ہے۔ دوسرا اختلاف شام میں کردوں کی سیاسی حیثیت سے متعلق ہے۔
اس معاملے پر دونوں کی پالیسیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں مگر ایک جیسی نہیں۔ دونوں کردش کارڈ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ خطرات سے بھرے شورش زدہ خطہ میں اثر و رسوخ بڑھانے کا اہم ذریعہ ہے۔ امریکا کردش شناخت کے سوال کا منطقی انجام چاہتا ہے جس کیلئے شامی حکومت پر اپنی مرضی کے حل کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ جزیرہ، کوبانی اور عفرین کے شہروں میں کردوں کی خود ساختہ خودمختاری قائم رہے، انہیں ایک خودمختار علاقائی اکائی کے طور پر ابھرنے دیا جائے، جیسے شمالی عراق کے کردوں کو اکائی کی حیثیت حاصل ہے۔ طویل المدت تناظر میں امریکا ایک خودمختار کردستان دیکھنا چاہتا ہے جو کہ اسرائیل کی سکیورٹی میں معاون ثابت ہو سکے۔ روس شام کی جغرافیائی حدود میں کرد اکائی کا حامی ہے جسے داخلی خودمختاری حاصل ہو۔ تاہم کردوں کے خطے میں مستقبل کے کردار کے بارے میں روس کا کوئی موقف نہیں۔
کردوں کے مسئلے پر ترکی بھی ایک اہم فریق ہے۔ شام میں ترکی کے مختلف آپریشنز کا ہدف اپنی جنوبی سرحد کے گرد کردش بیلٹ کا قیام روکنا تھا۔ ترکی کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ اگر علاقے کو پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے کرد جنگجوئوں نے خالی نہ کیا تب انقرہ نیا فوجی آپریشن شروع کر سکتا ہے۔ ان کے اس بیان پر اپنے ردعمل میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا کہ انقرہ ماسکو کو یقین دہانی کرا چکا ہے کہ وہ شام میں کوئی نیا فوجی آپریشن نہیں کرے گا۔ یوں، انقرہ نے اپنے وزیر کے بیان کر تردید کر دی۔ ترکی کی شام پالیسی امریکی اور روسی پالیسی کی ضد ہے۔ ہر فریق کے الگ الگ موقف کے تناظر میں شامی بحران کے جلد حل کی توقع کرنا بہت مشکل ہے۔ بیرونی فریقین جب تک ایک قابل عمل مشترکہ موقف پر اتفاق نہیں کرتے اس وقت تک مشکلات شامی عوام کامقدربنی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔