... loading ...
جان مارک ہانسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم
الیکشن ڈے سے پہلے ہی صدر ٹرمپ نے پنسلویینا میں میل کے ذریعے پڑنے والے ووٹوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں‘ جس میں غیر موجود ووٹوں کو الیکشن کے کئی دن بعد بھی قبول کرنے کا حکم دیا گیا تھا‘ صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ یہ ایک خطرناک فیصلہ ہے‘ اس سے الیکشن میں دھوکا دہی کا موقع مل جائے گا۔ جونہی الیکشن کا عمل ختم ہوا‘ انہوں نے میڈیا کو بتایا ’’ہم اپنے وکلاء سے مشورہ کر رہے ہیں‘‘۔ ریپبلکنز پہلے ہی عدالت میں ہیں‘ جہاں انہوں نے پنسلوینیا میں میل کے ذریعے پڑنے والے ووٹوں کی گنتی کو چیلنج کیا ہوا ہے۔پنسلوینیا کے الیکشن میں گڑبڑ کرنے کے لیے پہلے آپ کو ہزاروں ووٹوں کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ 2016ء کے الیکشن میں 62لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالا تھا اور صدر ٹرمپ 44ہزار 292 ووٹوں سے جیتے تھے۔ فرض کریں کہ سازشی عناصر کو اس سال یہ علم تھا کہ پینسلوینیا کے الیکشن میں مقابلہ برابر رہے گا، فرض کر لیتے ہیں کہ انہوں نے 62ہزار فراڈ ووٹوں کا بندوبست کر لیا ہے‘ جو پڑنے والے کل ووٹوں کا قریب ایک فیصد بنتے ہیں تو ان 62ہزار غیر قانونی ووٹوں کو الیکشن نتائج میں کیسے شامل کیا جائے گا؟ اس بات کا چانس تو زیرو ہے کہ جوبائیڈن کے پینسلوینیا میں 62ہزار حامی دوسری مرتبہ غیر قانونی طور پر ذاتی حیثیت میں یا میل کے ذریعے ووٹ ڈالیں۔ ایسا تصور بھی ناممکن ہے کہ کوئی ووٹر ایسا کر کے خود کو عدالتی مقدمے، جرمانے یا قیدکے لیے پیش کر دے جبکہ اسے یہ بھی علم نہیں کہ کوئی دوسرا شخص بھی اس وقت یہی کچھ کر رہا ہے‘ تاکہ ڈیموکریٹس پینسلوینیا میں فتح کے قریب تر پہنچ جائیں۔ اس کے لئے ایک خاص سطح کے فراڈ کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ یہ سارا کچھ کیسے ہوگا؟ ممکن ہے کہ فراڈ کا ماسٹر مائنڈ ایک ہزار شریک ساتھیوں کا انتظام کر لیتا ہے جن میں سے ہر ایک 62 غیر قانونی ووٹ ڈالنے کا انتظام کر تا ہے۔ ان تمام یعنی ایک ہزار لوگوں کو پینسلوینیا میں ٹرمپ کو ہرانے کے لیے اپنی شہرت، وسائل اور آزادی کو خطرے میں ڈالنا پڑے گا۔ انہیں اپنی یہ ساری کارروائی اس وقت بھی اور ہمیشہ کے لئے ایک راز رکھنا پڑے گی اور اس کام کے لیے انہیں اپنے ایک ہزار شریک مجرموں پر بھی اعتبار کرنا پڑے گا کہ وہ بھی اسے ہمیشہ راز ہی رکھیں گے۔
ان ایک ہزار فراڈیوں کی ا س کارروائی کے لیے بھی ایک خاص قسم کی ہوشیاری اور خوش قسمتی کی ضرورت ہو گی۔ ان میں سے ہر کوئی 62 لوگوں کو دوسری مرتبہ اپنا ووٹ غیر قانونی طور پر ڈالنے کے لیے آمادہ کرے گا مگر یہ ایک نہایت مشکل کام ہو گا۔ ریکروٹ کیے گئے یہ افراد کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ ذاتی طور پر اور میل کے ذریعے بھی اپنا وو ٹ ڈالیں کیونکہ اس طرح الیکشن آفس کے لیے ان کا کھوج لگانا اتنا مشکل نہیں ہو گا۔ اور جب تک وہ دو الگ الگ حلقوں میںرجسٹرڈ نہ ہوں‘ ان کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالنا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انہیں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فرا ڈکرنے والوں کو اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا پڑے گا کہ ان 62 لوگوں میں سے کوئی ایک بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا حامی نہ ہو اور وہ ایک زندہ ضمیر انسان بھی نہ ہو۔ ایک اور ممکنہ طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ سازشی عناصر ان 62 قانونی ووٹرز کی جگہ خود ووٹ ڈالنے کا بندوبست کریں‘ وہ اس طرح کہ ان سے کہیں کہ وہ واپس چلے جائیں اور میل کے ذریعے ووٹ ڈالیں۔ یہ بھی کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے۔ کسی قسم کے فراڈ سے بچنے کے لیے پینسلوینیا میں قانون ہے کہ میل ووٹ کے لیے اپلائی کرنے والے لوگوں سے اپنی شناخت فراہم کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جو ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ یا سوشل سکیورٹی کے آخری چار ہندسے ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ فراڈ کرنے والوں کے ضروری ہو گا کہ ان کے پاس ان تمام 62 ووٹرز کے درست شناختی کارڈ نمبر موجود ہوں۔
اگر ایک بھی اصلی ووٹر نے میل کے ذریعے وو ٹ ڈالنے کی درخواست کر دی تو سارا کھیل ختم ہو جائے گا اور وہ غیر قانونی کارروائی کرتے ہوئے پکڑے جائیں گے۔ اب ہر ایک ووٹر کی ان مشکلات کو ہزار کے ساتھ ضرب دے کر دیکھیں کیونکہ ان ایک ہزار لوگوں میں سے ہر ایک ایسی ہی مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہو گا۔ آخر میں ایک اور ممکنہ صور ت بھی ہو سکتی ہے کہ اگر کائونٹی الیکشن افسر خود ہی یہ فرا ڈکر رہا ہو تو کیا ہوگا؟ الیکشن حکام بھی کسی نہ کسی سیاسی نظریے سے وابستہ ہوتے ہیں اور انہیں ہی ووٹوں کی گنتی کی نگرانی کرنا ہوتی ہے مگر زیادہ تر ریاستوں میں سیاسی طور پر جانبدار مبصرین کو ہی ووٹو ں کی گنتی کو مانیٹر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ بات کچھ مشکوک سی ہو جائے گی کہ اگر کسی ایک کائونٹی میں نارمل ووٹوں کی تعداد میں اچانک 62ہزار ووٹوں کی کمی یا زیادتی ہو جائے۔ووٹوں کی گنتی کے مرحلے پر صدارتی الیکشن میں مداخلت کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ بڑی تعداد میں لوگ الگ الگ، منظم انداز میں اور بہت ہی پیشگی مرحلے پر یہ ساری کارروائی کر رہے ہوں۔ صدارتی الیکشن کے نتائج میں رد و بدل کرنے کے لیے ووٹ کا فراڈ کرنے کے لیے بڑے سنگین چیلنجز درپیش ہوتے ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ 2016ء کے الیکشن میں ووٹوں کی گنتی میں صدر کے ساتھ فراڈ ہوا تھا تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ ایک صدارتی الیکشن کو چرانے کے لیے آپ کو ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ووٹرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے جیسے فراڈ ووٹوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے تو اس فراڈ کی قیمت بھی بڑھتی جاتی ہے اور اسی طرح پکڑے جانے، عدالتی مقدمے اور سزا کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس سال ایک بڑی تعداد میں پینسلوینیا کے لوگوں نے پہلی مرتبہ یا ایک بڑے عرصے کے بعد ووٹ ڈالا ہے اور ممکن ہے کہ ان میں بہت سوں نے صدرٹرمپ کی دشمنی میں ووٹ ڈالا ہو مگر ہم اسے فراڈ نہیں کہہ سکتے۔ یہی تو جمہوریت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔