... loading ...
دوستو،اکثر آپ نے بھی کہا ہوگا ، آپ نے اپنے بڑوں سے بھی سنا ہوگا، آپ کے احباب میں بھی اکثر کو یہ کہتے پایا ہوگا کہ۔۔زمانہ بہت خراب ہے۔۔ ہمارا فلسفہ بالکل الٹ ہے، زمانہ کبھی خراب نہیں ہوتا۔۔ ہم اور آپ خراب ہوسکتے ہیں۔۔ زمانہ بالکل ٹھیک ہے۔۔اب آپ لوگ پوچھیں گے وہ کیسے؟؟ اس کا بڑاصاف اور شفاف جواب یہ ہے کہ ۔۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید میں ۔۔زمانے کی قسم کھائی ہے۔۔ اور اللہ پاک جس کی قسم کھاتا ہے وہ کبھی خراب نہیں ہوسکتا۔۔ اللہ نے سورۃ العصر میں۔۔زمانے کی قسم کھاتے ہوئے کہاہے کہ۔۔انسان خسارے میں ہے۔۔ اس کے بعد آپ لوگوں کا مزید کچھ پوچھناویسے بنتا تو نہیں۔۔لیکن ایک اور مثال سن لیں۔۔ ہر شخص کو اپنا بچپن بہت پیارا لگتا ہے۔۔ اگر آپ سو لوگوں سے سوال کریں گے کہ تو پچانوے لوگ آپ سے کہیں گے کہ کاش بچپن کا زمانہ پھر لوٹ آئے۔ اب سوچیں جب آپ کا بچپن تھا ،وہ زمانہ آپ کو اچھا لگ رہا تھا، اس وقت باقی لوگ تو بڑے ہوں گے؟؟ ان کو وہ وقت کیسا لگ رہا ہوگا؟؟ جیسے ابھی موجودہ حالات ہمیں بہت برے لگ رہے ہیں، بڑی مہنگائی ہے، گزارا نہیں ہوتا۔۔تنخواہیں کم ہیں۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ لیکن آج کے دور کے بچے جب کل بڑے ہوں گے تو وہ اس وقت کو سہانا بولیں گے اور اس کی واپسی کی تمنا کریں گے۔۔
عربی سے ترجمہ ایک تحریرہمارے پیارے دوست نے ہمیں واٹس ایپ کی ہے۔۔ وہ لکھتے ہیں کہ۔۔فہد نے 1 گھنٹے میں 10 کلو میٹر فاصلہ طے کیا ۔۔حارث نے ڈیڑھ گھنٹے میں یہی فاصلہ طے کیا ۔۔دونوں میں سے کون تیز رفتار اور صحت مند ہوا؟یقینا ہمارا جواب ہوگا۔۔فہد ۔۔اگر ہم کہیں کہ فہد نے یہ فاصلہ ایک تیار ٹریک پر طے کیا جب کہ حارث نے ریتیلے راستے پر چل کر طے کیا تب؟ تب ہمارا جواب ہوگا ۔۔حارث۔۔لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ فہد کی عمر 50 سال ہے جب کہ حارث کی عمر 25 سال تب؟ہم دوبارہ کہیں گے کہ۔۔فہد ۔۔مگر ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حارث کا وزن 140 کلو ہے جب کہ فہد کا وزن 65 کلو تب؟تب ہم کہیں گے۔۔حارث۔۔جوں جوں ہم فہد اور حارث سے متعلق زیادہ جان لیں گے ان میں سے کون بہتر ہے ؟ان سے متعلق ہماری رائے اور فیصلہ بھی بدل جائے گا۔۔ہم بہت سطحی چیزیں اور بہت جلدی میں رائے قائم کرتے ہیں جس سے ہم خود اور دوسروں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے ہیں۔۔اسی طرح خود کو دوسروں کے ساتھ تقابل کرتے ہوئے بھی ہم میں سے بہت سارے اسی سطحیت کا شکار ہو کر مایوس ہو جاتے ہیں حالانکہ ۔۔ہر ایک کا ماحول مختلف ہوتا ہے ۔۔مواقع مختلف ہوتے ہیں ۔۔زندگی مختلف ہوتی ہے ۔۔وسائل مختلف ہوتے ہیں ۔۔مسائل مختلف ہوتے ہیں ۔۔آپ اپنے کسی ہم عمر سے کسی کام میں پیچھے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کامیاب اور آپ ناکام ہیں،وہ افضل اور آپ کمتر ہیں،ممکن ہے آپ کو میسر مواقع،ظروف اور درپیش حالات کو دیکھا جائے تو آپ ان سے بہت بہتر ہوں۔۔ زندگی کی دوڑ میں خود کو کبھی کمتر نہ سمجھو،احساس کمتری شکست کی پہلی سیڑھی ہے۔۔
بات شروع کی تھی، بیتے دنوں کی۔۔ باباجی فرماتے ہیں کہ ۔۔۔آج کل کے برگر بچے یہ کبھی نہیں جان پائیں گے کہ پرانے زمانے میں ہمیں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر مار پڑتی تھی۔۔پٹنے کے بعد رونے کی آواز پر۔۔پٹنے کے بعد نہ رونے کی آواز پر۔۔بغیر پٹے رونے کی آواز پر۔۔دوستوں کے ساتھ کھیلنے کودنے پر۔۔دوستوں کے ساتھ نہ کھیلنے کودنے پر۔۔جہاں بڑے بیٹھے ہوں، وہاں سے گزرنے پر۔۔ بڑوں کو جواب دینے پر ۔۔ بڑوں کو جواب نہ دینے پر ۔۔کافی عرصہ تک بغیر پٹے رہنے پر ۔۔گانے کے انداز میں نعت پڑھنے پر ۔۔مہمانوں کو سلام نہ کرنے پر ۔۔مہمانوں کے لیے بنائے گئے ناشتے پر ہاتھ صاف کرنے پر ۔۔مہمانوں کے جاتے وقت ساتھ جانے کی ضد پر ۔۔کھانے سے انکار پر۔۔غروب آفتاب کے بعد گھر آنے پر ۔۔پڑوسیوں کے ہاں کھانا کھا لینے پر ۔۔۔ضد کرنے پر ۔۔بہت شوخا ہونے پر ۔۔ہم عمر بچوں کے ساتھ لڑائی میں ہار جانے پر ۔۔ہم عمر بچوں کے ساتھ لڑائی میں جیت جانے پر۔۔آہستہ آہستہ کھانے پر ۔۔ جلدی جلدی کھانے پر ۔۔جب بڑے جاگ جائیں تو سوتے رہنے پر۔۔جب بڑے سو رہے ہوں تو شور کرنے پر۔۔کھانے کے دوران مہمانوں کو دیکھنے پر ۔۔ چلتے وقت جان کر گر جانے پر ۔۔بڑوں کے ساتھ نظریں ملانے پر ۔۔بڑوں کے ساتھ نظریں نہ ملانے پر۔۔بڑوں کے ساتھ بات کرتے وقت پلکیں جھپکانے پر۔۔بڑوں کے ساتھ بات کرتے وقت پلکیں نہ جھپکانے پر۔۔روتے ہوئے بچے کو دیکھ کر ہنسنے پر۔۔کسی کے گھر مہمان جا کر تمام بسکٹ کھانے پر۔۔
کہتے ہیں کہ فی زمانہ شریف صرف وہ ہوتا ہے جو کسی کام سے انکار نہ کرے مگراس کا کام کرنے سے ہر آدمی انکار کرے۔۔۔دانت نکلوانے کے لیے “ڈینٹسٹ” کی بجائے مکے باز سے رجوع مفید ہوتا ہے،بغیر خرچے کے دانت نکل جاتے ہیں، ہمارے ایک دوست ڈینتسٹ کے پاس گئے پوچھا، دانت کتنے میں نکالو گے، جواب ملا ، چار ہزار روپے میں، ہمارے دوست نے کہا ، میں تو فری میں نکال سکتا ہوں، ڈینٹسٹ نے پوچھا کیسے؟؟۔۔دوست نے جواب میں کھلکھلاکے دانت نکال دیئے۔۔ویسے فیشن تو ہمیں ٹینشن ہی لگتا ہے لیکن ہر نئے فیشن کی ابتدادرزی سے کپڑے کا غلط کٹ جانے سے ہوتی ہے۔۔ ایک مرتبہ گاؤں میں سیلاب آگیا ،ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لیے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا گیا ۔۔ایک سو پچاس کی آبادی والے گاؤں سے پانچ سو آدمیوں کو گِن کر نکالا گیا۔۔پھر ہیلی کاپٹر والے سرپنچ کے پاس گئے اور پوچھا ۔۔آپ کے گاؤں کی کل آبادی ایک سو پچاس ہے اور میں اب تک پانچ سو نکال چکا ہوں ایسا کیوں ؟؟تو سرپنچ نے کہا، سر گاؤں والوں نے ہیلی کاپٹر پہلی مرتبہ دیکھا ہے، آپ ایک طرف سے نکالتے ہو یہ دوسری طرف سے پھر آ جاتے ہیں۔۔میں خود تیسری بار آیا ہوں۔۔بیگم صاحبہ نے جب بڑے لاڈ سے اپنے شوہر سے فرمائش کی کہ۔۔سنیئے! آج میری سالگرہ ہے، آج مجھے کوئی مہنگی چیز لے کر دیں۔ شوہر نے برجستہ کہا۔۔چلو پھر تم تیار ہو جاؤ، آج ہم چینی لینے چلتے ہیں۔۔ بیگم صاحبہ یہ جواب سن کر سٹپٹا گئیں، فوری وضاحت کرنے لگیں۔۔میرامطلب تھا ، سونے کی کوئی چیز دلادیں۔۔ شوہر نے بیگم صاحبہ کو بازار لے جاکر ’’تکیہ‘‘ دلا دیا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لیجنڈ مزاح نگارمشتاق یوسفی صاحب فرماتے ہیں۔۔ پاکستان میں افواہوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ سچ نکلتی ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔