... loading ...
افسوس، صد افسوس! یہ معاشرہ اپنے کناروں سے چھلکنے لگا! داخلی احتساب کی روایت نہ ہو تو معاشرہ اپنے اعمال وافعال میں ”بے حد“ ہونے لگتا ہے۔ پاکستان ہوگیا۔سردار ایاز صادق کے قضیے (28/ اکتوبر)کو اب ایک ہفتہ بیت رہا ہے، مگر قومی سیاست وصحافت تاحال اس کی قیدی ہے اور کیوں نہ ہو؟حد سے زیادہ اور حد سے باہر الفاظ کے مضمرات و اثرات بھی حد سے سوا ہی ہوں گے۔ آخری کتابِ ہدایت میں بار بار یہ نکتہ تعلیم کیا گیا کہ حد سے گزرنے والے لوگ فلاح نہیں پاتے۔ یہ سورہ یونس کی آیت10 ہے، فرمایا: ہم حدسے گزر جانے والوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں“۔سورہ مومن کی آیات34-35میں یہ نکتہ پھر تعلیم کیا گیا:اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو گمراہی میں ڈال دیتا ہے جو حد سے گزرنے والے اور شکّی ہوتے ہیں“۔رب کائنات نے سورہ مائدہ کی آیات78-79میں بنی اسرائیل پر حضرت داودؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی زبانی کرائی گئی لعنت کی وجوہات بیان کیں تو فرمایا: وہ حد سے آگے بڑھ جاتے تھے“۔ ہول آتا ہے، ہول!! یہ منیر نیازی کیا کہہ گئے:۔
سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
ان امتوں کا ذکر جو رستوں میں مر گئیں
نیتوں کو ٹٹولنے کا حق انسان کو نہیں پہنچتا۔ یہ شہ رگِ انسان سے زیادہ قریب خالق کائنات کو زیبا ہے۔ واقعات پر رائے زنی کی جاسکتی ہے، حالات کے شواہد انسانی ذہن کو ٹٹولنے کے لیے ایک تسلیم شدہ ذریعہ ہوتے ہیں۔ سردار ایاز صادق نے جو الفاظ پارلیمنٹ میں ادا کیے وہ اتفاقی نہیں، ایک منظم ذہن کی واردات ہے۔ سیاسی اختلافات میں ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالتے یہ سیاست دان ریاست کو اب داؤ پر لگانے لگے۔ عمران خان اس سے بری الذمہ نہیں۔ مگر سردار ایاز صادق تو حد سے گزر گئے۔
بھارت پاکستان کو مدتوں سے نفسیاتی اور سیاسی طور پر کنارے سے لگارہا تھا۔ پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سجدہ ریز ہو کر پاکستان کے ساتھ جو کچھ کیا، یہ اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ بھارت بے لگام ہوتا۔ امریکا اُس کا معاون بن جاتا۔ نادانی دیکھیے پاکستان نے امریکا کی اطاعت گزاری کے لیے جو حیلہ تراشا تھا، وہ بھارت کو ہی خطے سے دور رکھنے کا تھا، مگر اس اطاعت گزاری نے ہی بھارت کے لیے وہ سب کچھ ممکن بنایا جو ہم آج کل افغانستان سے بلوچستان تک دیکھتے آرہے ہیں۔ جہاں نہ جانے کتنے کلبھوشن بروئے کار آئے، اور پاک سرزمین پر دہشت کے بیج بوتے رہے۔ اس خزاں رسیدہ ماحول میں پھر 27/فروری 2019ء کا وہ پُر بہارجھونکا آیا جس نے ہمیں سرشاری کا ایک لازوال موقع دیا۔ خود اعتمادی بھرنے والے ایسے شاذ لمحات قومیں محفوظ رکھتی ہیں، اِس سے اپنی تاریخ سنوارتی اور مستقبل اُجالتی ہے۔ مگر پھر یہ ایاز صادق ایسے لوگ!!!شرم ناک، کرب ناک۔سردار ایاز صادق نے تو کہہ دیا کہ 27/فروری 2019 کوپاکستان کی جانب سے دو بھارتی طیاروں کو گرانے کے بعد جس اجلاس میں فوجی سربراہ بھی شریک تھے، وزیرخارجہ آئے،ٹانگین کانپ رہی تھیں اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ سردار ایاز صاد ق کی تقریر کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھا اور پھر میدان میں اُتر کر دوبارہ اپنی زبان طعن دراز کرنے لگا۔
سردار ایاز صادق ہرگز شیخ رشید کی طرح بسیار گو نہیں۔وہ پارلیمنٹ میں بھی بہت کم گفتگو کرتے ہیں۔ خال خال گفتگو کرنے والے سردار ایاز صادق آخری بار کب بولے تھے، شاید کسی کو معلوم بھی نہ ہو۔ پھر وہ بولے تو حد سے کیوں گزر گئے؟ یہی نہیں سردار ایاز صادق کی گفتگو کے پہلے روز نواز لیگ کی صفوں میں قدرے سناٹا رہا، پھر اچانک نوازلیگ کے عقابی رہنما حرکت میں آئے اور ایاز صاد ق کی پشت پر کھڑے ہوگئے۔احسن اقبال اور رانا ثناء اللہ نے ایاز صادق کے دفاع کا مورچہ سنبھالا۔ مگر خرم دستگیر تو حمایت کے ساتھ دھمکیوں پر بھی اُتر آئے۔ نواز لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ”جس اجلاس کا ایاز صادق نے حوالہ دیا، میں بھی اس میں موجود تھا، ان معاملات کو مت کھولیں ورنہ اور بھی بھیانک انکشافات سامنے آئیں گے“۔اس طرزِ سیاست کے بارے میں اب باقی کیا رہ جاتا ہے؟لیگی رہنما کارِ ریاست کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ اقتدار کی راہداریوں میں ہی پلے بڑھے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ سردار ایاز صادق کی گفگو بھارت میں نریندر مودی کے لیے کتنی کارآمد ہوگی؟ بھارتی ذرائع ابلاغ کو تو جو بھنگڑے ڈالنے تھے، ڈالے۔ مگر خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس معاملے میں براہِ راست عوام کے سامنے آئے اور اس پر اپنی ”کامیابی“ کی ایک جھوٹی داستان تخلیق کرنے کی کوشش کی۔ جب مودی اس بیان کو اپنے حق میں استعمال کررہے تھے، تب نواز لیگ کے عقابی رہنما ایاز صادق کا دفاع کرنے میدان میں اُتر گئے تھے۔یہاں تک کہ جے یو آئی کے قائداور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سردار ایاز صادق کو تقویت دینے کے لیے اُن کی قیام گاہ تشریف لے گئے۔
کیا یہ سارے واقعات اتفاقی طور پر رونما ہورہے تھے؟ اطلاعات یہی ہیں کہ نواز شریف نے سردار ایاز صادق کے بیان کے بعد نوازلیگ رہنماؤں کو تھپکی دی۔ اور اُنہیں خاموشی کا قفل توڑ کر ایاز صادق کی حمایت کی تاکید کی۔ نوازشریف کا یہ اقدام اُن کے ماضی کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ پرویز مشرف کی طرف سے 12/ اکتوبر 1999ء کو اقتدار سے بے دخل کیے جانے سے ذرا پہلے ہی نوازشریف اٹل بہاری واجپائی کی پاکستان آمد اور کرگل قضیئے میں سوالات کے دائرے میں آگئے تھے۔ سیاسی تعصبات نے ان سوالات کو توانا نہ ہونے دیا۔ نوازشریف کی سیاسی مقبولیت ایک اضافی عامل تھا۔ پھر وہ جدہ پہنچا دیے گئے۔ پاکستان واپسی کے بعد یہ ایک تلخ سیاسی حقیقت ہے کہ نوازشریف نے کبھی بھارت مخالف کوئی بیانیہ نہیں اپنایا۔ اُن کا مرکز و محور صرف اور صرف فوج رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مضبوط سیاسی رائے رکھنا یا اُن کے خلافِ آئین اقدامات پر گفتگو کرنا کوئی بُری بات نہیں، بلکہ یہ وطنِ عزیز کے مستقبل کے لیے ناگزیر بھی ہے۔ مگر فوج مخالف بیانئے کا تناظر اگر بھارت موافق نظر آئے گا تو یہ نوازلیگ کے لیے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔ بدقسمتی سے نوازشریف نے جدہ سے پاکستان واپسی کے بعد اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی۔
نوازشریف کی جدہ سے واپسی کے بعد اُن کی تمام گفتگو خطے اور علاقائی تناظر میں اسٹیبلیشمنٹ کے کردار کی جانب مڑ گئی تھی۔ اسی لیے اُنہوں نے سیاسی محاذ پر اپنے مخالفین سے تعلقات کو نرم کیا۔ تاکہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اُنہیں بروئے کار آتے ہوئے سیاسی مخالفت کا کم سے کم سامنا کرنا پڑے۔ اس کھیل میں وہ حد سے بڑھ گئے۔ اُنہوں نے نظریہئ پاکستان تک کو اس سوچ کی بھینٹ چڑھانے سے گریز نہیں کیا۔ اس حوالے سے نوازشریف کے 13/ اگست2011ء کو سیفما کے ایک اجلاس میں بھارت سے آئے وفد سے خطاب کو تازہ کرلیجیے:۔
”ہمارا ایک ہی کلچر تھا، ایک ہی ہیرٹیج ہے، ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے، یہ جو بیچ میں ایک بارڈر
آیا ہے، بس وہی بارڈر آیا ہے، ورنہ تو آپ اور ہم لوگ ایک ہی سوسائٹی کے لوگ ہیں“۔
نوازشریف کے اس طرزِ فکر کے بعد خود پاکستان کا جواز بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف5 /جون 2013ء کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بھارت کے حوالے سے اپنے انتہائی نرم رویے پر مشکوک سے مشکوک ہوتے چلے گئے۔ بی جے پی کے پارلیمانی رہنما نریندر مودی نے 26 /مئی 2014ء کو پندرہویں وزیر اعظم بھارت کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو نوازشریف کسی ٹھوس سیاسی وجہ کے بھارتی وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں خود شرکت کرنے پہنچ گئے۔ جہاں اُن کی مختلف ملاقاتیں بھی شکوک کے دائرے میں رہیں۔ کلبھوشن کے معاملے میں نوازشریف کی پراسرار خاموشی اور عالمی عدالت میں اختیار کیے گئے مشکوک طرزِ عمل کو ایک طرف رکھیں۔ یاد کیجیے! 25 /دسمبر 2015 ء کی صبح گیارہ بجے اچانک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا اور وہ اسلام آباد کے بجائے سیدھے لاہور پہنچے جہاں سے اُنہیں جاتی امراء پہنچا دیا گیا۔ وہ چند گھنٹوں کے لیے جاتی امراء میں نوازشریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کرکے رخصت ہوگئے۔یہ ایک انتہائی مختصر اور ہکا بکا کرنے والا دورہ تھا۔ نوازشریف ان واقعات کو سیاست میں اپنی حکومت کی پزیرائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مگر نریندرمودی نے اپنے ایک انٹرویو میں ان دونوں واقعات کی توجیہ اپنے متعصبانہ اور پاکستان مخالف تناظر میں کی ہے۔ مودی نے کہا کہ”اگر میں نواز شریف کو نہ بلاتا تو ہمیں فائدہ نہ ہوتا، ہم پاکستان کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے تھے، ان دونوں واقعات سے ہم نے یہ ثابت کیا کہ ہم تو آگے بڑھنا چاہتے ہیں پاکستان نہیں چاہتا“۔ نوازشریف کا ذہن تو واضح ہے مگر مودی کا ذہن بھی پڑھ لیں۔
نوازشریف اپنی اسی افتادِ طبع کے ساتھ بروئے کار ہیں۔ وہ فوج مخالف بیانئے میں کسی حمایت کے بغیر یہ جوا نہیں کھیل رہے۔ اُنہیں اپنے خلاف اس تاثر کی بھی کوئی پروا نہیں جو فوج مخالفت میں بھارت موافقت کا قائم ہورہا ہے۔ یہ بے پروائی ایک داخلی اور خارجی حمایت کے ساتھ اس یقین کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف مطلوبہ نتائج یا فتح حاصل کرلیں گے۔ ظاہر ہے نوازشریف اپنے مخالفین کے خلاف کامیابی سے مراد عمران خان کے خلاف کامیابی نہیں لیتے،یہ اس سے بڑھ کرہے۔ یوں لگتا ہے کہ نوازشریف کو یہ بھی یقین ہے کہ اس کھیل میں اُنہیں زیادہ نقصان بھی نہیں ہوگا۔ فیصلہ وقت کرے گا۔ مگر یہ تو سامنے کی حقیقت ہے کہ ہمارا نظام اور موجودہ سیاسی بہاؤ اپنے کناروں سے چھلک رہا ہے۔ پاکستان کو ایک نیا آہنگ درکار ہے۔
٭٭٭٭٭