... loading ...
کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخ کر وزیراعظم عمران خان کو بتائے کہ نظام کے دوغلے پن، احتساب کے ننگے پن کے ساتھ خود اُن کا اپنا کھوکھلا پن بھی نمایاں ہوگیا۔ وہ خود اپنے خلاف کھڑے ہیں۔ اُن کے احتساب و انصاف کے دعوے اب اپنی آبرو کھو چکے۔
عمران خان کا نظمِ حکمرانی ہرروز اپنی بہیمت کے ساتھ بے نقاب ہوتا جارہا ہے۔ ارسطو نے کہا تھا:قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں، بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ہمارے”پیارے“ وزیراعظم عمران خان مگر مدینہ کی ریاست کا ذکر باربار کرتے ہیں، اور یہ بھی کہ جہاں چھوٹے بڑے کے لیے ایک قانون ہوتا ہے۔ مگر عمران خان کے پاکستان میں قانون کے نام پر مکڑی کے وہی جالے ہیں جس میں چھوٹے پھنستے ہیں اور بڑے اطمینان سے اس جال کو پھاڑتے ہیں۔ کچھ واقعات سے سمجھتے ہیں۔ پانچ روز ہوتے ہیں، ڈی ایم سی کورنگی کو ڈیزل پیٹرول فراہم کرنے والے ٹھیکیدار طارق خواجہ نے خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ یہ شخص ایک نور پیٹرولیم کمپنی کا فرنٹ مین تھا، جو بدعنوانی کے ایک منظم کھیل میں ایک کارندے سے زیادہ کچھ بھی نہ تھا۔ مگر نیب نے اس بدعنوانی کے منظم سلسلے کے حقیقی کرداروں یا ارسطو کی زبان میں بڑے جانوروں کو نہیں چھیڑا۔ مکڑی کاجال حشرات کے لیے حرکت میں آیا۔ نیب نے طارق خواجہ کو اسلام آباد طلب کیا۔بدعنوانی کی دلدل میں مجبورِ محض کے طور پر حرکت کرنے والے معمولی کارندے (حشرات) کیا کرتے ہیں، تذبذب میں گرفتار رہتے ہیں: حفیظ جالندھری نے مضمون کسی اور پس منظرمیں باندھا تھا، مگر ہمارے کس کام آرہا ہے:۔
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
طارق خواجہ بھی کچھ ایسی کیفیت میں مبتلا تھا۔ نیب کے بلاوے پر طارق خواجہ نے ٹکٹ لیا،وہ کراچی میں اپنے دفتر سے اسلام آباد کے لیے نکلے، پھر راستے میں تذبذب کی اُسی لہر نے آلیا، ایک معمولی کارندے پر خوف، نیب نے جو ”جانوروں“ کے بجائے”حشرات“ پر طاری کررکھا ہے۔وہ ہوائی میدان کو جاتے راستے سے واپس دفتر پلٹ آیا۔ ”جانوروں“ کے پاس راستے ہوتے ہیں، مگر”حشرات“ کے پاس نہیں۔ طارق خواجہ کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ دفتر واپس آتے ہوئے کتنی بار کپکپایا ہوگا، اس کا حساب نہیں۔ نیب افسران نے اُسے یہاں تک لاتے لاتے کتنا خوف زدہ کیا ہوگا، اس کا بھی شمار نہیں۔ طارق خواجہ نے دفتر پہنچ کر اپنے گھر فون کیا، اور کہا کہ وہ اُن سے آخری بار رابطہ کررہا ہے۔ پھر بندوق لی اور کنپٹی پر رکھ لی۔ آواز کس نے سنی ہوگی، اب طارق خواجہ نہ تھا،وہاں ایک لاش تھی اور مسلسل بہتا خون۔
فراق گورکھپوری نے نہ جانے کس وقت کے لیے یہ کہاہوگا:۔
تارا ٹوٹتے سب نے دیکھا یہ نہیں دیکھا ایک نے بھی
کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا کس کا سہارا ٹوٹ گیا
”حشرات“ کی کہانی سنی! چلیں اُسی دن کے”جانور“ کی کہانی سنتے ہیں۔یہ جاز کے سی ای او عامر ابراہیم ہیں۔ اُن کی ایک تصویر سماجی رابطوں کے متوازی ذرائع ابلاغ پر زیرگردش ہے، جس میں وہ وزیراعظم عمران خان کو کورونا ریلیف فنڈ میں پانچ کروڑ روپے کا عطیہ پیش کرتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک ٹیلی کام کمپنی کی سماجی ذمہ داری اور فیاضی کی منہ بولتی تصویر ہے مگر سفاک تجاری اداروں کے مربوط دھوکوں اور چکموں کی منظم وارداتوں کا ایک طریقہ کار بھی عریاں کرتی ہے۔ ضمناً عرض ہے کہ کورونا ریلیف فنڈ کہاں اور کیسے استعمال کیا گیا، اس کی کوئی درست معلومات ابھی تک عمران خان کی”شفاف“ حکومت مہیا نہیں کرسکی۔ البتہ جاز کے کیا کہنے۔ جاز نے کورونا ریلیف فنڈ میں پانچ کروڑ روپے دیے، مگر ایف بی آر نے واضح کیا کہ جاز پچیس ارب روپے کی ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔ چنانچہ اسلام آباد میں واقع جاز کے دفتر کو ابھی مہر بند (سیل) کرنے کی کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ فوری طور پر مدینہ کی ریاست کو آئیڈئیل رکھنے والے عمران خان نے ہدایت جاری کی اور کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس بلالیا گیا جس میں ٹیلی کام سیکٹر کو ٹیکس میں باون ارب روپے کی چھوٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد ش بخیر! نوازشریف اور زرداری ادوار میں ایسے فیصلوں پر عمران خان جلسوں میں تقاریر کرتے ہوئے گلاپھاڑ کر یہ کہتے تھے کہ ”یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے“۔ مافیا اور کیسے پلتا ہے؟ مکڑی کے جالے(قانون) ”حشرات“ کے لیے ہیں ”جانوروں“کے لیے نہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کچھ کروڑ شوکت خانم اسپتال کو بھی سالانہ دے دیتے ہیں، اور اربوں روپے قومی خزانے کے ہڑپ کرجاتے ہیں۔ منظم ڈکیٹیوں کا یہ کارپوریٹ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اور نیب کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اربوں کی ٹیکس چوری تو دھوکادہی کی وارداتوں میں سے محض ایک ہے۔ پاکستان میں ٹیلی کام کمپنیوں پر نگرانی کاکوئی بھی نظام نہیں۔وہ رابطوں کے لیے منٹوں ا ور لحظوں کاکلیہ کس قانون سے اخذکرتے ہیں؟ اُن کے مختلف رابطہ کاری کے بنڈل (پیکیجز) کس اُصول کے تحت ترتیب پاتے ہیں، وہ پاکستانیوں سے کتنے روپے ناجائز اینٹھ لیتے ہیں؟ اس پر کوئی نگرانی ہی نہیں۔ نیچے سے اوپر تک عطیات، رشوت، تحائف اور دباؤ کا ایک مربوط نظام ہے جو یہ ادارے استعمال کرتے ہیں۔ طارق خواجہ اور جاز کے عامر ابراہیم میں فرق ”حشرات“ اور ”جانور“کا فرق ہے۔ طارق خواجہ خوف سے تھر تھر کانپتے ہوئے اپنی قبر میں سوتا ہے اور عامر ابراہیم وزیراعظم سے ہنستے ہوئے ملتا ہے۔
عمران خان کی مدینہ کی ریاست کا ایک اور واقعہ سن لیجیے!دارالحکومت میں اشرافیہ کا اسلام آباد کلب کم وبیش 352 ایکڑ(2816 کینال) پر محیط ہے۔ اشرافیہ کی ایک”کاک ٹیل“یہاں وطنِ عزیز میں جاری کھیل کو آسودگی سے دیکھتی ہے۔ اس ہزاروں اربوں کی زمین کو اس کلب کے لیے تین روپے فی ایکڑ کرایے پر دیا گیا ہے۔ یعنی اس 352 ایکڑ کا کرایہ صرف 1056 روپے ہیں۔عمران خان کی مدینہ کی ریاست میں مہنگائی بڑھ رہی ہے، عوام کا کوئی پرسان حال نہیں مگرمافیا اُسی شان وشوکت سے پل بڑھ رہے ہیں۔ اُنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔شوکت خانم کو چندہ دیجیے، وزیراعظم فنڈ میں خیرا ت ڈالیے اور اربوں روپے قومی خزانے کا لوٹ لیں، طریقہ بُرا تو نہیں۔ یہ سب کب تک چلے گا؟
کیا وزیراعظم کے کان میں کوئی سرگوشی کرسکتا ہے کہ طارق خواجہ جہاں دفن ہوا وہ نیب کی قبر تھی۔ اُسے نیب نے طلبی کا جو نوٹس دیا تھا اُس پر پتہ عامر ابراہیم کے دفتر جاز کا لکھا ہونا چاہئے تھا۔اورروز ویلٹ ہوٹل کے بجائے اسلام آباد کلب کی زمین نیلام کی جانے چاہئے۔ اس نظام کے دوغلے پن، احتساب کے ننگے پن کے ساتھ وزیراعظم عمران خان کی شخصیت کا کھوکھلا پن بھی ہرروز عیاں ہوتا جارہا ہے۔ اُن سے درخواست ہے کہ وہ اور کچھ نہ کریں تو کم از کم مدینہ کی ریاست کو تو بدنام نہ کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭