... loading ...
جیساکہ آج کل فرانس کے صدر کیمرون نے آزادی رائے کے تحفظ کے نام پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اس نے نہ صرف یورپ کے مسلمانوں بلکہ دنیا بھر میں موجود کلمہ گو مسلمانوں کے دل چھلنی کردیئے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ اس کے جواب میں دنیائے اسلام میں اس وقت فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک بڑی مہم شروع ہوچکی ہے۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ مغرب میں توہین رسالت کی تاریخ خاصی پرانی ہے جب علم اور دلیل کی حد ختم ہوتی ہے تو وہاں سے جھالت اپنا راستہ بناتی ہے علم کے دعوایدار مغرب نے اس شعبے میں سب سے زیادہ جھالت کو ہی اختیار کیا ہے۔ توہین رسالت میں صرف فرانس کا ہی کردار نمایاں نہیں ہے بلکہ تمام یورپ اس میں شامل ہے اب یہ اسے آزادی رائے کا نام دے کر استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اچانک فرانس کے صدر ماکرون کو آزادی رائے کا خیال آیا ہے یا یہ کوئی ٹائمنگ کے لحاظ سے یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے؟
جیساکہ ہم جانتے ہیں اس وقت یورپ اور امریکا اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر پسپائی سے دوچار ہیں، افغانستان میں امریکااور اس کے یورپی دجالی صہیونی حواریوں کا کیا حال ہوچکا ہے وہ سب جانتے ہیں، دوسری جانب مغرب کی اس پسپائی کے دوران ہی ترکی کی پیش قدمیاں بھی شروع ہوچکی ہیں ایک طرح بحیرہ روم اور دوسری جانب بحیرہ اسود پر ترکی کی سرگرمیاں زور پکڑتی جارہی ہیں، روس اور چین اور ترکی کے درمیان ایک عسکری، معاشی اور سیاسی اتحاد وجود میں آچکا ہے افریقہ میں چین کی معاشی پیش قدمی اور ترکی کی جانب سے افریقہ میں پیر جمانے کے عمل نے پورے یورپ کو فکرمند کردیا ہے کہ اب یہاں ان کی غیر انسانی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے وقت محدود ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ اب مذہب کے نام پر یورپ کو ایک مرتبہ پھر اکھٹا کرنے کی تیاری ہے جس کے لیے آزادی رائے کے نام پر رسول پاکﷺ کی توہین کا پہلو نکال کر پوری مسلم دنیا کو اشتعال دلایا گیا ہے تاکہ اس کے ردعمل کے غبار میں یورپ میں اسلام دشمن قوتوں کی نئی صف بندی کی جاسکے۔ یہ معاملہ صرف فرانس تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر پورا یورپ اور امریکا کھڑا ہے چونکہ جغرافیائی طور پر فرانس شمالی افریقہ کے قریب واقع ہے اور الجزائر جیسے بڑے ملک میں اسے استعماریت کا خونی تجربہ بھی ہے اس لیے ابتدا یہاں سے کی گئی ہے۔
اسلام دشمنی میں جہاں تک فرانس کا تعلق ہے تو اس کی سیاہ تاریخ اس قسم کے اقدامات سے بھری پڑی ہے، شمالی افریقہ سے لیکر وسطی ایشیا تک کی جدید تاریخ دیکھ لی جائے وہاں فرانس نے افریقہ میں مسلمانوں کی دولت لوٹنے کے لیے بے پناہ ظلم وستم ڈھائے ہیں الجزائر کی جنگ آزادی کسے یاد نہیں جہاں ستر لاکھ نہتے مسلمانوں فرانسیسی استعمار کے خلاف جنگ آزادی لڑتے ہوئے شہید ہوئے اسی لیے عرب صحافت میں الجزائر کو ‘‘ بلد ملاین الشھدا’’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ الجزائر میں ہی فرانس نے سب سے پہلے اپنے ایٹمی دھماکے کرکے یہاں کی آبادی کی زندگیوں کو دائو پر لگایا تھا۔ مالی اور چاڈ کا ٹنوں سونا فرانس میں منتقل کیا گیا اوراس علاقے کے مسلمانوں کو فاقوں مرنے پر مجبور کردیا گیا۔ خود یورپین تاریخ دان اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ فرانس کی تمام ثروت کا انحصار افریقہ سے لوٹی ہوئی دولت پر ہے افریقی ملک مالی کے شمالی شہر اکیدال کو سونے کا شہر کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ فرانس نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پریہاں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے یہاں سے اب تک فرانس ٹنوں سونا بغیر کسی قانونی جواز کے اپنے ہاں منتقل کرچکا ہے جبکہ یہاں کے عوام بھوک اور بدحالی کا بری طرح شکار ہیں۔ خود فرانسیسی اور دیگر مغربی مورخین کا کہنا ہے کہ بیسویں صدی میں فرانس کی کوئی وقعت نہیں تھی سوائے تین چیزوں کے ایک وہ جوہری قوت بن گیا دوسرے جوہری قوت کی وجہ سے اسے سلامتی کونسل میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا اور تیسرا سب سے بڑا عامل افریقہ ہے جہاں کی دولت لوٹ کر فرانس نے اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ الجزائر، چاڈ، مالی اور دیگر افریقی ملکوں میں فرانس نے انتہائی منصوبہ بندی سے مسلمان علما دین اور ان کے ہزاروں طالب علموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ اسلام کے حوالے سے اس خطے میں زیادہ سے زیادہ جہالت یا لاعلمی پھیل سکے ایسا تقریبا تمام یورپی ملکوں نے اپنے اپنے مسلم مقبوضات میں کیا ہے۔
توہین رسالت تو ایک پہلو ہے یورپ میں قائم سینکٹروں قدیم یونیورسٹیاں اور اس سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مغربی مستشرقین اسلام کے ایک ایک پہلو پر ناقدانہ کام کرتے رہے ہیں انہی ہزاروں مستشرقین میں سے سینکڑوں مغربی سکالرز یا مستشرقین ایسے بھی تھے جو خود اسلام کی حقانیت کے قائل ہوکر مسلمان پوچکے ہیں اور اس کے بعد کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں علم استشراق کے حوالے سے بندہ خود یورپ کی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کرچکا ہے اور عنقریب ‘‘تاریخ استشراق’’ History of Orientalism کے نام سے کتاب مدون کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ اس لیے مسلمانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ یہ مغرب کی روش نئی نہیں ہے بلکہ بہت پرانی روش ہے ماضی میں چونکہ معلومات کے وسائل وافر نہیں تھے اس لئے چیدہ چیدہ افراد ہی اس سے باخبر رہتے تھے اب چونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے فورا بات ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ یہی انفارمیشن ٹیکنالوجی اسلام اور صہیونی دجالیت کے درمیان جنگ کا نیا اور موثر ہتھیار ہے اس لیے اس محاذ پر مسلمانوں خصوصا مسلمان نوجوانوں کو پوری طرح مسلح ہونا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔