... loading ...
یہ ایک بڑی کامیابی ہے مگر صرف پانچ مہینوں میں امریکا کی نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جان ریٹ کلف کا شمار ان لوگوں میں ہونے لگا ہے جو امریکی تاریخ میں تباہ کن انٹیلی جنس عہدیدار سمجھے جاتے ہیں۔ مئی میں ان کی کنفرمیشن کے لیے ہونے والی سماعت کے دورا ن جان ریٹ کلف نے یہ حلف دیا کہ وہ بیرونی اثر و رسوخ کو اپنے فرائض منصبی پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے اور دعویٰ کیا کہ وہ اپنے عہدے پر تقرر کے بعد مکمل طور پر غیر سیاسی رہیں گے مگر اس کے برعکس وہ سیاسی تنازعات میں ملوث ہو چکے ہیں۔
پیر کے روز جان ریٹ کلف نے نیویارک پوسٹ کی ایک غیر مصدقہ خبرکی تائید کی کہ جو بائیڈن کے بیٹے یوکرائن کے ساتھ ایک بزنس ڈیلنگ میں ملوث رہے ہیں۔ فاکس بزنس پروگرام کے دوران ریٹ کلف نے کہا کہ اوباما‘ بائیڈن حکومت نے اپنے اختیارات کا مجرمانہ استعمال کیا تھا اور ووٹرز کو چاہئے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ان کے ان اقداما ت کا محاسبہ کریں۔ ایک حاضر سروس انٹیلی جنس عہدیدار کی طرف سے اس طرح کے سیاسی تبصرے کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر مائیکل ہیڈن نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ریٹ کلف کے اقدامات قابل مواخذہ اور آمریت کے مترادف ہیں۔ ریٹ کلف پہلے ہی سرکاری مواد کو ڈی کلاسیفائیڈ کر کے اقدار کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں جن کی بدولت ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہو نے امکانا ت بڑھ گئے ہیں۔ اب یہ بات ان کے کنٹرول میں ہے کہ کانگرس کے ڈیمو کریٹ ارکان کو انفرمیشن کس طرح شیئر کرنی ہے جبکہ چند منتخب ریپبلکن ارکان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر مواد کس طرح فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں ایسے تھوڑے بہت ثبوت ہی مل جائیں جو ڈیپ اسٹیٹ سازشی تھیوری کے لیے موزوں ہوں جس کے بعد صدرٹرمپ کے کریملن کے ساتھ روابط کی تحقیقات ہو سکے۔
ایک غدار یا امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کے اندرونی چھچھوندر بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں جبکہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کا کوئی جانبدار عہدیدار ہمارے اعتماد اور بھروسے کے اس نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، جس پر ہمارے ملک کی انٹیلی جنس اسٹیبلشمنٹ کی بنیادیں استوار ہیں۔ جنگ عظیم دوم اور کورین جنگ کے دوران جنرل میکارتھر کے انٹیلی جنس چیف میجر جنرل چارلس ولوبائی نے رپورٹوں کو محدود اور کنٹرولڈ ذرائع کو جھوٹا قرار دیا، اتحادیوں، سی آئی اے اور امریکی کوڈ بریکرز کی رپورٹنگ کو مسترد کر دیا اور ہر اس چیز کو دبانے کی کوشش کی جو جنرل میکارتھر کے ذاتی نظریات کو چیلنج کر سکتی تھی۔ ڈیوڈ ہالبرسٹم نے کورین جنگ پر اپنی ایک کتاب The Coldest Winter میں لکھا ہے کہ جنرل میکارتھر کے خیال میں یہ بات اہم تھی کہ انٹیلی جنس رپورٹس میں وہی کچھ بتایا گیا تھا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔ جس کا مطلب یہی تھا کہ ولوبائی جو انٹیلی جنس رپورٹس جنرل میکررتھر کو بھیج رہا تھا‘ دانستہ طور پر پہلے سے گھڑی گئی تھیں۔ چونکہ جنرل میکارتھر دوسروں کی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے اس لیے جب شمالی کوریا کی فوج نے جون 1950ء میں جنوبی کوریا پر حملہ کیا اور پھر جب چین نے کوریا کو روند ڈالا تو امریکا اور اس کے اتحادی ہر بات سے بے خبر تھے۔ امریکی تاریخ میں یہ ہماری فوج کی بدترین شکست اور فوجی پسپائی تھی۔ جنرل میکارتھر تو اس پسپائی کو روکنے کے لیے ایٹم بم گرانے کے لیے بھی تیار ہو گئے تھے۔ یہ انٹیلی جنس رپورٹس جمع کرنے یا ان کا تجزیہ کرنے کی ناکامی نہیں تھی‘ جس کے نتیجے میں یہ تباہی پھیلی تھی بلکہ یہ لیڈرشپ کی ناکامی تھی۔ جنرل ولو بائی نے انٹیلی جنس انفارمیشن کو شکل ہی ایسی دی تھی کہ اس میں وہی باتیں تھیں جو جنرل میکارتھر سننا چاہتے تھے۔ لگتا ہے کہ جنرل ریٹ کلف بھی جنرل ولو بائی کی طرح یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض اپنے باس کی خدمت ہے‘ جو وہ چاہتا ہے کہ ہر کوئی ہر وقت ان کی بات سے اتفاق کرے۔
جنرل میکارتھر کے حوالے سے اکثر یہ با ت کی جاتی ہے کہ ’’اگر ا?پ انٹیلی جنس کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں تو ساری فیصلہ سازی کا اختیار آپ کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘‘۔ انٹیلی جنس حکام اسے اداروں کو سیاست میں ملوث کرنا کہتے ہیں اور اسے ایسا زہر قاتل کہتے ہیں جو قومی سلامتی سے متعلق فیصلہ سازی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آج ہم ریٹ کلف کے ذریعے وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں کہ اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے سے ہمارے ہاں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ ایک بڑی انٹیلی جنس کمیونٹی کو دیانت داری سے چلانے کے بجائے ریٹ کلف قومی رازوں کو ایک سیاسی ہتھیا رکے طو رپر استعمال کرنے کے حامی ہیں۔ انہوں نے جو میٹریل بھی اس وقت ڈی کلاسیفائیڈ کیا ہے اگر وہ زیادہ حساس نوعیت کا نہیں ہے تو بھی لوگوں کو اس کا جواز اور سورسنگ یا اس کا پس منظر بتانے میں ناکامی سے عوام میں کنفیوڑن پیدا ہوتی ہے اور عام ووٹر گمرا ہ ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہو سکتا ہے۔ سیاسی مقاصد یا تصوراتی بیانیے کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ اس پورے سسٹم کوکرپٹ بنا دیا جائے جو تجزیے کے لیے گہرائی تک اس پر انحصار کرتا ہو لیکن اگر آپ اپنے تحادیوں کو یا اپنے ہی انٹیلی جنس افسروں کو ایسے نقصان دہ سگنل بھیج رہے ہیں تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے قبضے میں موجود لاکھوں صفحات میں سے کچھ میٹریل کو منتخب کر کے اس میں سے اپنے باس کی مرضی کے مطابق کوئی ا سٹوری گھڑنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ لیکن انٹیلی جنس کمیونٹی کو اس طرح بیوقوف بنانے سے بنیادی طور پر اس کی تحقیر ہوتی ہے اور امریکی عوام ا س بات کو ہمیشہ اس طرح نہیں دیکھتے۔
اگر ہم جلد بازی میں بغیر سوچے سمجھے ڈی کلاسیفائیڈ کرتے ہیں اس کے ذرائع منظر عام پر آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس سے بیرونی دشمنوں کی مدد ہوتی ہے اور امریکی اتحادیوں کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارے اتحادی یا اہم ذرائع ہمارے انٹیلی جنس حکام کے ساتھ اہم انفارمیشن کیوں شیئر کریں گے جو ان کی اس انفارمیشن کو کسی معمولی فائدے کے خاطر عوام کو بتانے سے گریز نہیں کریں گے۔ بالآخر اس سے ہمارا دفاع ہی کمزور ہو تا ہے۔ انٹیلی جنس کی دنیا میں آپ کی ساکھ ہی آپ کا سب کچھ ہوتی ہے۔ امریکہ کے اتحادیوں اور ہمارے ذرائع کو ہم پر اعتبار رہنا چاہئے۔ اور پالیسی سازوں کو یہ اعتماد رہنا چاہئے کہ ہمارے انٹیلی جنس پروفیشنلز ہمیں بہترین اور غیر جانبدارانہ تجزیہ بھیج رہے ہیں۔ اگر باہمی اعتبار کو ٹھیس پہنچ گئی اور محرکات اور دیانت داری پر سوال اٹھنے لگ گئے تو انٹیلی جنس اپنی وقعت کھو بیٹھتی ہے۔ مسٹر ریٹ کلف اور ان کے سہولت کاروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ساکھ مجروح ہو گئی تو اسے بحال کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔