... loading ...
(قسط نمبر: 8)
لارنس سمجھ گیا کہ ظالم ترکوں کے خلاف ان چھوٹے چھوٹے قبیلوں سے ایک بہت بڑی فوج تیار ہو سکتی ہے،ان نے بغاوت کاجذبہ ابھارا
اس نے اس خاص معاملہ میں اپنی رپورٹ بھجوائی لیکن نقشوں اور تصویر کشی کے علاوہ بھی اس نے کچھ اور کیا۔
جب وہ کہہ چکا کہ ان کی تمام کارروائی غلط یا کم از کم لاعلاج حد تک بے وقت کی چیز ہے تو اس نے ان عہدیداران کے روبرو ان کے طریق جنگ کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت بھی کی۔
مثلاً کشتیوں کو ساحل پر لانے لے جانے کے جو طریقے فوجی عہدہداروں نے اختیار کر رکھے تھے وہ ناقص تھے۔ کشتیوں پر سے سامان اتارنے کے طریقے بھی ناقص تھے جن میں وقت بہت زیادہ ضائع ہوتا تھا۔ ریلوے کی حد تک بھی کوئی اصول نہ تھا۔ اسباب پڑا پڑا ضائع ہو رہا تھا۔ صرف اس وہ سے کہ وہ جانتے ہی نہ تھے کہ اس کے متعلق کرنا کیا چاہیے۔ طبی عہدیدار اپنے فرائض سے ناواقف تھے وغیرہ وغیرہ۔
واپسی پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسے قبول عام حاصل نہ ہو سکے گا۔ اس نے اپنی رپورٹ پیش کر دی اور اپنی ایک اسکیم کو بروئے کار لانا شروع کر دیا۔ مشرق کے نقشہ جنگ کا وہ گہرا مطالعہ کر چکا تھا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ ترک اتحادیوں کو کہاں روکے ہوئے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ فلسطین کی لڑائیوں میں انگریزی افواج کو کن مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ساتھ ہی اس کو ایک ایسا ملک نظر آیا جس کی آزادی کا خواب وہ برسوں سے دیکھ رہا تھا۔ یعنی عربستان۔
وہ جانتا تھا… نہ معلوم کیونکر… کہ لارڈ کچنر شریف مکہ حسین کو ترکوں کے خلاف آمادہ بغاوت کرنے کے لیے کیا کیا تدبیریں اختیار کر چکے ہیں اور یہ لفظ ’’بغاوت‘‘ ایسا تھا جو بار بار اس کے دل میں خطرہ پیدا کرتا تھا۔
اس کو یاد آ گیا کہ ملک کے اِس سرے سے اُس سرے تک لوگ ترکوں کی قابل نفرت حکومت کو سخت گالیاں دینے لگے ہیں۔ وہ یہ بھی سمجھ گیا کہ ظالم ترکوں کے خلاف ان چھوٹے چھوٹے قبیلوں سے ایک بہت بڑی فوج تیار ہو سکتی ہے۔
یہاں اس کے لیے ایک موقع تھا۔
لارنس کا ایک گہرا دوست تھا جو فوجی اقدامات کے خفیہ امور میں مدد کر رہا تھا۔ مشرق کے مشہور سیاح کمانڈر ڈی۔ ایچ ہوگارٹ کو خود عرب کے مسئلہ میں دلچسپی تھی۔ وہ دوسرں کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر اس امر پر غور کر چکا تھا کہ ترکوں کے خلاف اس لڑائی میں اتحادیوں اور بالخصوص انگلستان کی مدد کس طور پر کی جا سکتی ہے۔
حالات پر جمود طاری تھا۔ وہ فلسطین میں اقدام کرنا چاہتے تھے اور جنگ کے اس محاذ پر مزید کمک کی ضرورت تھی۔ لیکن کمک نہیں پہنچائی جا سکتی تھی۔ مغربی محاذ پر صورت حال اتنی اندیشہ ناک ہو چکی تھی کہ مشرق کی طرف کمک نہ بھیجنے میں کوئی ہرج نہ معلوم ہوتا تھا۔
یہ اطلاعات پا کر اور یہ سمجھ کر کہ جو کچھ کرنا ہو خود ان ہی کو کرنا پڑے گا، افسروں کی یہ چھوٹی سی جماعت حزم و احتیاط اور تندہی سے ترکوں اور برطانوی افواج کی صورت حال کا مطالعہ کرنے لگی۔
لارنس اپنے دوست سے ملا اور اس سے اپنے ’’خواب‘‘ کا کچھ حصہ بیان کیا۔ سن کر یہ مرد مسن بھی چکرا گیا اور نقشہ کے مطالعہ کے لیے اس کے ساتھ ہو لیا۔
اسی اثناء میں انھیں کوئی خبر سنائی پڑی جس نے انھیں چونکا دیا اور تیز کارروائی پر مجبور کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ عربستان کے متعلق ترکوں کے بھی بعض نقاط نظر تھے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ تمام عالم اسلام کی نظریں مذہبی ہدایت اور مدد کے لیے مکہ پر لگی رہتی ہیں ۔ شرع محمدیؐ کے پیروخواہ وہ ہندوستان کے ہوں یا افریقہ کے ’’ویسٹ انڈیز کے ہوں یا ایشیائے کوچک کے ان سب کے دلوں میں ایک خیال چھپا ہوتا ہے اور وہ جہاد یا مقدس لڑائی کا خیال ہے۔ ان کا مذہب انھیں مجبور کرتا ہے کہ بے دینوں کے خلاف جو علم اٹھے اس کی پیروی کریں اور اگر مکہ میں جہاد کا اعلان ہو جاتا تو دنیا کی متمدن اقوام میں لڑائی کا نقشہ ہی بدل جاتا۔
یہ ہلال اور صلیب کا پرانا جھگڑا تھا جس سے ڈر تھا کہ مباد اسلطنت برطانیاکی مسلمان رعایااس مجنونانہ صدائے جہاد کو سن کر حکومت برطانیاکے سپاہیوں ہی پر پل پڑے۔ اس کے معنی یہی ہو سکتے تھے کہ تمام ہندوستان اور افریقہ سفید نسل کے مقابل میں صف آراء ہو جائے گا چونکہ ان میں سے بیشتر ممالک پر خود برطانیہ کا قبضہ تھا اس لیے یہ چیز اتحادیوں کے مقصد کے لیے سخت اندیشہ ناک تھی۔
یہ سجھ کر ترک اور جرمن سر جوڑ کر بیٹھے اور جہاد کے اعلان کا منصوبہ باندھا۔ وہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں گے جو عظیم الشان مسلم ایمپائر ے قیام کے لیے لڑائی میں ان کے ساتھ شریک ہوں۔
لیکن اس کے علاوہ بھی انھوں نے بہت کچھ کیا۔ حجاز ریلوے کے ذریعہ وہ مدینہ کو فوجیں بھجوانے لگے جو اس ریلوے لائن کا آخری اسٹیشن ہے۔ یہ فوجیں جہاں پہنچتیں۔ مقدس لڑئی (جہاد) کا اعلان کر دیتیں اور اسی کے ساتھ جرمنوں نے خفیہ کار گزار ایجنٹوں کی ایک جماعت کے ذریعہ ’’لاسلکی‘‘ پر ملک کے دوسرے حصہ سے اس کی تبلیغ شروع کر دی۔ اس کا اصلی مقصد تو ظاہر نہیں کیا گیا لیکن عام طور پر برطانوی فوجی مرکزوں میں خیال کیا جانے لگا کہ اس کا منشاء اس بات کی تشہیر ہے کہ ترک اور جرمن ان تمام کی مدد ے لیے آمادہ ہیں جو ان کے ساتھ جہاد میں شریک ہوں۔
جنھوں نے صلیبی لڑائیوں کے حال میں پڑھا ہے کہ مسلمانوں نے یکایک کس طرح مغربی دنیا کو روند ڈالا تھا وہ اس کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاد کا یہ منصوبہ مشرق کی کسی دوائے بے ہوشی یا برگ حشیش کے زیر اثر دیکھا ہوا کوئی خواب نہ تھا بلکہ ایک اصلی دہشت ناک خطرہ تھا۔
لارنس یہ سب جانتا تھا اب وہ وقت آیا کہ اس کی خاص قابلیت انگلستان اور اتحادیوں کے لیے انتہا درجہ کار آمد ثابت ہو۔
مکہ کے مقدس شہر جہاں ہر سال مسلمان زائرین سفر کر کے پہنچتے ہیں، شریف مکہ کی محافظت میں تھا۔ شریف کو لارڈ کچنر نے اس بغاوت کے امکانات سمجھائے تھے جو وہ اپنیفوجوں سے اتحادیوں کی امداد میں برپا کر سکتا تھا اور شریف کو یہ بات نہیں بھولی تھی۔ استعارہ کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ باڑ پر بٹھا ہوا بے چینی سے جنگ کے اتار چڑھاؤ کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ وہ اول تو اتحادیوں کی تائید میں تھا پھر جرمنی اور اس کے ہمدردوں کا حلیف ہو گیا۔ دشمن کی بڑھی ہوئی فوجی طاقت کے مقابلہ میں خود اس کی اپنی فوجی طاقت اسے بہت حقیر نظر آنے لگی۔
ترکوں کے نئے اقدام نے اس کو خوف زدہ کر دیا۔ اب اس کو کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ اس کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ ترکوں کو اس عیارانہ خیال سے باز رکھے۔ چاہے اس میں اس کو اپنی سلطنت سے ہاتھ دھونا ہی کیوں نہ پڑے۔ اگرچہ وہ دنیائے اسلام کا امام تھا پھر بھی جانتا تھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں مقدس جنگ کا صرف ایک ہی انجام ہو سکتا ہے۔ انگریزوں کے فوجی مرکز پر اس نے پیغام بھیجے کہ اب وہ بغاوت کرنے والا ہے۔ ابھی یا پھر کبھی بھی نہیں۔
یہاں یہ امر ضروری ہے کہ اس صورت حال کو اس وقت کی روشنی میں دیکھا جائے کہ لارنس نے قاہرہ میں ایک مختصر ماہرین کی جماعت کے سامنے اپنے منصوبے بیان کیے تھے۔ اس خیال کو دل میں لیے کمانڈر ’’ہوگارٹ‘‘ بحر قلزم کی طرف یہ معلوم کرنے کے لیے رواہ ہو گیا کہ آخر شریف مکہ کا منشاء کیا ہے لیکن یہ روانگی بہت بعد از وقت تھی بغاوت شروع ہو چکی تھی۔ اس کا انجام جو کچھ بھی ہو شریف مکہ نے تو اعلانیہ طور پر اتحادیوں کی رفاقت اختیار کر لی تھی۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔