... loading ...
یہ نوجوان فوجی لباس پہن کربھی فوجی نہ معلوم ہوسکا،اس کاگلاہمیشہ کھلاہی رہتا،افسران ہی کیاعام سپاہی بھی جان چکے تھے کہ یہ فوجی نہیں عام شہری ہے
قسط نمبر :6
1913-14ء کے جاڑوں میں حکومت مصر، سینا کا فوجی نقشہ حاصل کرنے کے لیے بے چین تھی۔ کرنل نیو کامب اس کام پر مامور ہوئے۔ حکومت ترکیہ سے درخواست کی گئی کہ ملک کی پیمائش کی اجازت دے لیکن حکومت ترکیہ اپنے انکار پر جمی رہی۔
متعلقہ عہدہ دار سر جوڑ کر بیٹھے۔ انھوں نے ترکوں سے دوبارہ درخواست کی کہ کیا وہ ملک کے آثار قدیمہ کی حد تک پیمائش کی اجازت دے سکتے ہیں؟
یہ اور بات ہے۔ ترک راضی ہو گئے اور تھوڑے ہی عرصہ میں دولی اور لارنس نے سینا کے تقریباً چپہ چپہ زمین کی پیمائش کر ڈالی۔ وہ ساتھ ہی قدیم کار وانوں کی گزر گاہوں اور کھنڈروں کو بھی دیکھتے جاتے تھے۔ کرنل نیوکامب ان کے ہمراہ تھے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں تینوں نے اپنا کام ختم کر دیا اور ایک اثری نقشہ Archaeological Map لیے واپس لوٹے جو ماہرین کے نزدیک باضابطہ پیمائشی نقشہ کے عین مطابق تھا۔
ایک دفعہ تو عیار ترک دھوکہ کھا ہی گئے اور کرنل بنوکامب کو نقشہ تیار کرنے کے لیے وہ تمام مسالہ مل گیا جس کی حکومت مصر کو شدید ضرورت تھی۔
1914ء کی گرمیوں میں لارنس آکسفورڈ واپس آ گیا وہ شہر ہی میں تھا کہ جنگ کا اعلان ہو گیا۔ کچھ عرصہ کے لیے دفتر جنگ کے شعبہ نقشہ کشی میں اس کی خدمات مستقل طور پر حاصل کی جاتی رہیں۔ کرنل نیوکامب کا نقشہ مصری فوج کے استعمال کے لیے تیار ہو رہا تھا لیکن کرنل فرانس میں خدمت پر مامور تھے۔ اس لیے دفتر جنگ میں تفصیلات کی وضاحت کے لیے لارنس کی طلبی ہر وقت ہوتی رہتی تھی۔
لارنس غیر فوجی لباس پہنا رہتا۔ کچھ ہی عرصہ بعد بعض عہدہ دار تعجب کرنے لگے کہ جب ہر ایک اپنی وردی میں ملبوس رہتا ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ نوجوان دفتر جنگ میں کام کرنے کے باوجود شہریوں کے لباس میں ملبوس رہے۔ اس پوچھ گچھ کی بھنک شعبہ نقشہ کشی کے افسروں تک بھی جا پہنچی۔ انھوں نے خوش سلیقگی سے لارنس کو سمجھا دیا کہ وہ کم از کم کسی مانگے تانگے کے یونیفارم میں نقشہ خانہ آیا جایا کرے تاکہ یہ پوچھ چھ بڑی حد تک ختم ہو جائے۔ لارنس نے یہی کیا اور آئندہ سیکنڈ لیفٹیٹ کی حیثیت سے نظر آنے لگا۔
فوجی خدمت کے لیے اس کی موزونیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان ہی ایام میں اس نے اپنے کسی بھائی کو لکھا ہے کہ اس کی جسمانی حالت کبھی اتنی اچھی نہیں رہی کہ وہ فوجی خدمات انجام دے سکے۔ بہر حال یہ امر مشتبہ ہی رہا جاتا ہے کہ اس نے کبھی اپنی رضا کارانہ خدمات پیش کی ہوں گی ’’ٹاپسی Topsy کی طرح وہ محض ’’اگ آیا تھا‘‘۔
فوجی عہدہ داروں نے بہت جلد بھانپ لیا کہ کوئی عجوبہ روزگار ان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ وہ ان سپاہیوں سے بھی واقف تھے جو دفتروں میں کام کرتے ہیں لیکن یہ! یہ طالب علم تو سپاہی سے کوئی مشابہت ہی نہیں رکھتا۔ حد ہو گئی کہ وردی پہن کر بھی وہ سپاہی نہ معلوم ہو سکا۔ اگر وہ فوجی کوٹ پہنتا تو گلا ہمیشہ کھلا رہتا، جیکٹ کی کسی نہ کسی جیب کی بندھن ڈھیلی رہتی۔ وہ سیکنڈ لیفٹنٹ ہونے کی حیثیت سے مجاز تھا کہ ہر شانہ پر اکہرا تمغہ لگائے رہے۔ لیکن اس کو کبھی خیال بھی نہ آیا کہ وہ دونوں اپنی جگہ پر ہیں یا نہیں۔
بسا اوقات وہ سیم برآون کا بلٹ نہ لگاتا جس کا لگانا ہر افسر کے لیے ضروری ہے۔ کئی چیزیں تھیں جو عہدہ داروں کو کرنی پڑتی تھیں لیکن لارنس کسی نہ کسی طرح ان کو ٹال جاتا تھا۔
اس کے بالا دست عہدہ دار اس سے بحث کرتے۔ حکم دیتے کہ یہ کرو اور وہ کرو۔ حتیٰ کہ افسروں کو اس کی غفلت کی خبر تک دیتے لیکن ان کا کوئی فعل اس کو بدل نہ سکا۔ اپنے شعبہ میں اس کو اپنا کام کرنا ہوتا اور وہ اس کو پورا کرتا رہتا اور جہاں تک فوجی وردی کے پہننے کا تعلق تھا۔ وہ اس کو ایک دفعہ پہن ہی تو چکا تھا۔ اب اس سے کیا بحث کہ وہ اس کے جسم پر ہے یا نہیں۔
پیشہ ور فوجیوں کی نظر میں وہ یقینا ان کے پیشہ کے لیے باعث توہین تھا۔ یہ بات بلاتا مل وہ اس سے کہہ دیتے لیکن وہ بھی بلاتامل کہہ دیتا کہ ’’میں فوج کو ناپسند کرتا ہوں۔‘‘
دسمبر تک یوں ہی کام چلتا رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا لارنس سے ناپسندیدگی بڑھتی گی۔ وہ خود بھی فوج کی روح رواں یعنی ڈسپلن سے نفرت کرنے لگا۔ لیکن اس کے لیے صورت حال بدلتی رہی تھی۔ دفتر جنگ کی طرف سے کرنل نیوکامب فرانس سے انگلستان واپس بلائے گئے۔ مصر میں کمک درکار تھی ان عہدہ داروں کی بھی ضرورت تھی جو اس سے واقف ہوں اور وہاں کی زبان بول سکیں۔
کرنل کامب سے پوچھا گیا کہ وہ کن لوگوں کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کرنل نے نام سوچ رکھے تھے جن میں قبل جنگ کے دو دوست یعنی دولی اور لارنس بھی شامل تھے۔
سال کے شروع ہوتے ہی لارنس قاہرہ پہنچ کر Intelligence Service کے شعبہ فوجی نقشہ کشی میں شریک ہو گیا۔ اب بھی جب کہ باضابطہ طور پر وہ کام پر مامور تھا، اس نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے۔ ان لوگوں کے ماسوا جواس کو اچھی طرح جانتے تھے، محکمہ کے دوسرے عہدہ دار اس کو شبہ اور ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگے اور ایک حیثیت سے تو اسے اپنی برادری سے خارج کر چکے تھے۔
لیکن لارنس بہت خوش تھا، وہ نہ صرف اپنے جانے بوجھے ملک میں تھا بلکہ ان نقشوں پر کام کر رہا تھا جن کے خاکے خود اس نے ملک میں سفر کر کے تیارکیے تھے۔
آپ کو ان لوگوں سے کتنی ہمدردی ہی کیوں نہ ہو جو فوج کے کڑے طریقوں اور احکام کو ناپسند کرتے ہیں پھر بھی یہ ماننا ہی پڑے گا کہ فوجی کل صرف اسی وقت چل سکتی ہے۔ جب تک کہ ڈسپلن قائم ہو اور جب تک ہر کام باضبطگی سے انجام پاتا رہے۔ اکثر مواقع ایسے آتے ہیں کہ اس فوجی ضابطہ پرستی Red Tape سے انحراف کیا جا سکتا ہے۔ (سخت اور جکڑے ہوئے آئین و قواعد کو ریڈٹیپ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ تمام احکام، بات اور اطلاعات لال رنگ کی ڈوری سے باندھ کر طبلق میں رکھے جاتے ہیں۔)
لیکن فوجی دستور العمل سے انحراف کی صورت میں کام میں تھوڑی بہت سہولت ممکن ہے پیدا ہو جائے لیکن اس سے سارا فوجی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
لارنس یہ تو سمجھ گیا۔ لیکن پھر بھی کسی ایسے کام میں وہ تاخیر نہیں کرنا چاہتا تھا جس کے متعلق اسے یقین ہو کہ وہ صحیح راستہ پر ہے۔ مشکل یہ تھی کہ اس کی قابلیت اور اس کی نو عمری فوج کے دیرینہ نظام کے قلب ماہیت کے لیے ناکافی تھی۔
اگر نقشہ میں کوئی غلطی ہوتی تو اس کی رپورٹ لکھنی پڑتی اور غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے رپورٹ جانچ کے لیے بھجوا دی جاتی۔
تحریر جب زینہ بزینہ عہدہ داروں کے پاس سے گزرتی تو اس میں ان کی لکھی ہوئی تحریریں بھی شامل ہو جاتیں تاآنکہ وہ افسر مجاز تک جا پہنچتی اور اسی راستہ سے پھر واپس ہوتی۔ ممکن ہے یہ عمل کسی نام میں ایک آدھ حرف کی کمی یا زیادتی کے لیے ہی ہو لیکن یہ طریق عمل فوجی آئین کا ایک اصول تھا جس سے انحراف ناممکن تھا۔ برسوں سے یہی عمل درآمد چلا آ رہا تھا اور اب اس کو بدلنے کی کوئی وجہ نہ تھی ضابطہ آخر ضابطہ ہے۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔