... loading ...
بی جے پی کے اقتداروالی ریاست اترپردیش میں ایک مسلمان داروغہ کو سنّت نبویﷺ کی پیروی کی قیمت اپنی نوکری گنواکر ادا کرنی پڑی ہے۔الزام ہے کہ انھوں نے داڑھی رکھ کر پولیس سروس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کی تھی اور بار بار کی وارننگ کے باوجود اپنی داڑھی صاف نہیں کروائی تھی، لہٰذا انھیں پولیس کی ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ یہ واقعہ مغربی اترپردیش کے باغپت ضلع کا ہے جہاں سب انسپکٹر انتصار علی کوبلا اجازت داڑھی رکھنے کی پاداش میں لائن حاضرکر دیا گیا ہے۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق انتصار علی کو داڑھی کٹوانے کے لیے تین بار وارننگ دی گئی تھی ، لیکن انھوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ان سے اس معاملے میں باضابطہ اجازت لینے کی بات کہی گئی تھی لیکن انھوں نے بغیر اجازت داڑھی بڑھانا جاری رکھا۔ حالانکہ سب انسپکٹر کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک سال قبل اپنے افسران سے داڑھی رکھنے کی اجازت مانگی تھی ، لیکن انھیں کوئی جواب نہیں ملا۔
یہ خبر بھارت کی ایک ایسی ریاست سے آئی ہے جہاں ان دنوں لاقانونیت اپنے عروج پر ہے اور ہر روز آبروریزی کی دلدوز خبریں موصول ہوتی ہیں، لیکن انتظامیہ اور پولیس مشنری نظم ونسق کو درست کرنے کی بجائے ایک مسلمان سب انسپکٹر کی داڑھی میں الجھی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کسی مسلمان کے چہرے پر داڑھی جہاں اس کی مذہبی عقیدت کی ترجمان ہوتی ہے ، وہیں کچھ لوگ خود کو وبائوسے محفوظ رکھنے کے لیے بھی داڑھی رکھتے ہیں۔اس کی ایک مثال ہمارے لائق وفائق وزیراعظم ہیں ، جنھوں نے کورونا دور میں اپنی داڑھی بڑھانے کا مضبوط ارادہ کیا اور اب ان کی داڑھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کچھ لوگوں کو ان کے ’ مسلمان ‘ ہونے کا گمان ہونے لگا ہے۔ حالانکہ وہ ایک پختہ کار ہندو ہیں اور مندروں کے درشن کرنا ان کی سب سے محبوب عادت ہے۔انھوں نے جب سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے تب سے ہندوئوں کی اتنی خدمت کی ہے کہ شاید ہی کسی اور وزیراعظم نے کی ہو۔ ان کی داڑھی پر نہ توکسی کو اعتراض ہے اور نہ ہی کسی نے اس پر سوال کھڑا کیا ہے۔ ظاہر ہے یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے جس کے لیے وہ پوری طرح آزاد ہیں۔ اگر وہ پولیس میں ہوتے تو یقینا انھیں اپنے اس عمل کے لیے جواب دہ ہونا پڑتا، لیکن چونکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں اس لیے ان سے سوال کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔
اس ملک میں ایک مسلمان پولیس انسپکٹر کو یہ آزادی حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب کی پیروی کرتے ہوئے داڑھی رکھنے کی جرات کرسکے۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ انتصار علی کے داڑھی رکھنے سے پولیس کے کام کاج پر کیا اثر پڑے گا اور کیا وہ داڑھی رکھ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہیں رہ سکیں گے؟ اس ملک میں سکھ فرقہ کے لوگوں کو نہ صرف داڑھی رکھنے بلکہ اپنے مذہبی احکامات کے تحت انھیں کرپان رکھنے کی بھی چھوٹ دی گئی ہے۔دراصل یہی وہ سوال ہے جس نے انتصار علی کی برطرفی کے خلاف سوشل میڈیا کے صارفین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اوروہاں اس مسئلہ پر زور دار بحث ہورہی ہے کہ جب سکھوں کو داڑھی رکھ کر پولیس اور فوج میں ملازمت کی اجازت ہے تو مسلمانوں کو کس بنیاد پر اس سے روکا جارہا ہے۔ یہاں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ سب مسلمان چونکہ داڑھی نہیں رکھتے ہیں اس لیے اس ضابطے کو کلیہ کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ پولیس مینول سکھوں کے علاوہ کسی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دیتا اور ہرپولیس مین کے لیے صبح شیو کرنا ضروری ہوتا ہے۔
سب انسپکٹر انتصار علی کا معاملہ باغپت کے رمالا تھانے کا ہے، جہاں ایس پی باغپت نے انھیں محکمہ کی اجازت کے بغیر داڑھی رکھنے کی پاداش میں معطل کیاہے۔ ایس پی ابھیشیک سنگھ نے بتایا کہ داروغہ انتصار علی محکمے کی اجازت کے بغیر داڑھی رکھ رہے تھے۔ کئی بار انھیں داڑھی کٹوانے کی ہدایت دی گئی ، اس کے باوجود داروغہ ان کے احکامات کی تعمیل نہیں کررہے تھے، اس لیے ان کے خلاف معطلی کی کارروائی کی گئی ہے۔ایس پی نے یہ بھی بتایا کہ پولیس مینول کے مطابق صرف سکھوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت ہے جبکہ دیگر پولیس والوں کے لیے چہرہ صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی پولیس والا داڑھی رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کی اجازت لینی ہوگی۔ انتصارعلی سے بار بار اجازت لینے کے لے کہا گیا، لیکن انھوں نے بلااجازت داڑھی رکھ لی۔ واضح رہے کہ انتصار علی پچھلے پچیس برس سے پولیس کی ملازمت میں ہیںاورپچھلے تین سال سے باغپت میں سب انسپکٹر کے طور پر تعینات تھے۔ انھوں نے گزشتہ نومبر میں داڑھی رکھنے کی اجازت مانگی تھی لیکن انھیں کوئی ردعمل نہیں ملا۔ایک سینئر پولیس آفیسر کا کہنا ہے کہ صوبائی پولیس کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے سلسلہ میں انتصارعلی کے خلاف تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔جبکہ انتصار علی نے اس بات کو دوہرایا کہ میری داڑھی رکھنے کی درخواست ایس پی اور آئی جی(میرٹھ زون)کے پاس گزشتہ ایک سال سے التواء میں ہے اور اس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔باغپت کے ایس پی ابھیشیک سنگھ کا کہنا ہے کہ انتصار علی کو اس سے پہلے بھی صوبائی پولیس یونیفارم کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے سلسلے میں وجہ بتائونوٹس جاری ہوئے ہیں لیکن انھوں نے ا س پر توجہ نہیں دی۔ ان کا یہ عمل ڈسپلن شکنی کے دائرے میں آتا ہے جسے فورسز میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب انتصارعلی نے ایک سال قبل داڑھی رکھنے کی اجازت طلب کی تھی تو ایس پی اور آئی جی ان کی درخواست کو دباکر بیٹھے رہے ؟اور جب مجبور ہوکر انھوں نے داڑھی رکھ لی تو انھیں ملازمت سے معطل کردیا گیا۔
پولیس مینول کی تابعداری کرنے والے افسران سے ہماری ایک عاجزانہ گزارش ہے کہ اگر وہ اس معاملے میں غیر جانبدار ہیں تو انھیں پولیس کے سیکولر کردار پر بھی کچھ توجہ دینی چاہئے جس کی ضمانت ملک کے دستور میں دی گئی ہے۔ظاہر ہے پولیس کا مینول اس معاملے میں دویم درجے کی چیزہے۔یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اترپردیش کے تمام تھانوں میں مندر تعمیر کئے گئے ہیں۔ شاید ہی کوئی پولیس اسٹیشن ایسا ہو جہاں مندر موجود نہ ہو۔ کیا یوپی پولیس کا مینول اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک سیکولر جمہوری ملک کے تھانوں میں کسی اجازت کے بغیر مندر تعمیر کیے جائیں؟جب تھانوں میں مندر تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے تو پھر یہ سب کن بنیادوں پر ہورہا ہے؟یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انتصار علی کو مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔انڈین امریکن مسلم کونسل نے بھی اس معاملے میں ٹوئٹ کیا ہے۔بھیم آرمی سے وابستہ ہمانشو بالمیکی نے اپنے ٹوئٹ کہا ہے کہ ’’ اترپردیش کے ہر پولیس تھانے میںمندر تو بنے ہیں ، لیکن مسجد، چرچ، گرودوارے کیوں نہیں۔ ہندوستان دستور سے چلتا ہے منوسمرتی سے نہیں۔‘‘خاتون صحافی روہنی سنگھ نے ایک تصویر ٹوئٹ کی ہے جس میں ایک پولیس افسریوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سامنے ہاتھ جوڑکر گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اگر ملازمت کے ضابطے داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تو کسی سیاسی آدمی کے آگے جھکنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ حقیقت میں یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ اس پولیس افسر کو بھی معطل کیا جائے۔‘‘ اس معاملے میں اداکارہ سوارا بھاسکر نے اپنے ٹوئٹ میں ایس پی باغپت کے اقدام کا دفاع کیا ہے۔
پولیس اور فوج میں مسلمانوں کے داڑھی رکھنے کا معاملہ برسوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے اور اس سلسلے کے کئی مقدمات مختلف صوبائی عدالتوں سے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ تک بھی پہنچے ہیں ، لیکن اس معاملے میں اب تک کوئی واضح فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ضرورت اس بات کی اس سلسلہ میں کوئی واضح پالیسی وضع کی جانی چاہئے اور مسلمانوں کی عقیدت اور مذہبی احکامات کو ملحوظ رکھتے ہوئے سکھوں کی طرح انہیں بھی شرعی داڑھی رکھنے کی اجازت ملنی چاہئے۔ ایسا کرنا دستور کی بنیادی روح اور ان دفعات کے عین مطابق ہوگاجن میں ہر شہری کو بے خوف ہو کر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔