... loading ...
چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا، چین لداخ میں ایک ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہندوستانی علاقے پر قابض ہے ۔ پیپلز لبریشن آرمی کے جوانوں نے جون میں ایک جھڑپ کے دوران نا صرف 20 ہندوستانی فوجیوں کو ہلاک اور ایک سو کے قریب زخمی کر دیے تھے ، بلکہ وہ لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم مقامات پر بھی بیٹھے رہے ہیں۔ چین اس علاقے کے قریب اپنی 55,000 سے زیادہ فوج اکٹھی کر چکا، پاکستان نے بھی 20,000 اضافی فوجی شمالی لداخ منتقل کر دیئے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے کسی بھی علاقے پر چینی قبضے کی تردید کی ہے لیکن اس سال بھارت کی اراضی کے ایک بڑے حصے پر چین کے قبضے کے بارے میں کسی بھارتی شہری کو کوئی شبہ نہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور خارجہ کے مابین ہونے والی ملاقات میں ایل اے سی تناؤ کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ فرنٹ لائن سے فوجوں کے انخلا کے لیے دونوں ممالک کے فوجی عہدیداروں کے مابین مذاکرات کے ساتوں دور ناکام ہی رہے ہیں۔ اس ہفتے مذاکرات کا آٹھواں دور طے ہوا لیکن جلد کسی حل کی امید انتہائی معدوم ہے ۔ چین نا صرف اپنے فوجیوں کی تعیناتی میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ اس نے لڑاکا طیارے ، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، ڈرون ہیلی کاپٹر، ٹینک اور آرٹلری گنز بھی لائن آف ایکچول کنٹرول تک پہنچا دی ہیں۔ ہمالیہ میں سردیوں کی آمد ہو چکی اور چین پوری طرح تیار ہے ، اس نے خوفناک سردی سے بچنے کے لیے اپنی فوج کو پہلے ہی نئی اور آرام دہ تھرمل پناہ گاہیں فراہم کر دی ہیں۔ چین کو نا صرف وسائل، وقت اور منصوبہ بندی کی فوقیت حاصل ہے بلکہ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہترین ہے ۔پیپلز لبریشن آرمی کے برعکس، بھارتی فوجیوں کو سیاچن جیسے بلند ترین میدان جنگ رہنے اور لڑنے کا طویل تجربہ ہے ۔ اگرچہ ہندوستانی فوج 1984 کے بعد سے سیاچن میں صرف 5 ہزار فوجی تعینات کر رہی ہے ، جیسا کہ حالیہ کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے ، لیکن وہ انہیں بھی مناسب راشن، لباس اور رہائش فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ اب صرف چند ہفتوں میں اسی فوج کا مقابلہ اسی طرح کے سخت موسم میں 35,000 سے زائد چینی فوجیوں سے ہو گا کہ بھارتی حکومت ابھی تک اپنی فوج کیلئے یورپ اور امریکہ سے سرمائی لباس خریدنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
چین کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کو کوئی فیس سیونگ دینے سے انکار نے ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر رکھا ہے ۔ مودی پچھلے چھ سال میں چین کے صدر ژی جن پنگ سے 18 ملاقاتیں اور کسی بھی دوسرے بھارتی وزیر اعظم سے زیادہ پانچ بار چین کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسے پختہ یقین تھا کہ ژی کے ساتھ ان کی ملاقاتیں رنگ لائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مودی ابھی تک ہندوستانی فرنٹ لائن سے چینی فوج کے انخلا کی امید کر رہے ہیں جبکہ چین نے کھلے عام اپنی فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے اور وہ لداخ میں بھارتی وجود تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔ ہندوستانی فوج اگرچہ لداخ میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن بھارت سفارتی محاذ پر چین کا مقابلہ کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے ۔
چینی ایپس پر پابندی اور چینی سامان کا بائیکاٹ کرنے کا بیجنگ پر کوئی اثر نہیں جبکہ خود بھارت کو زیادہ نقصان پہنچا ہے ۔ مودی دل میں تبت یا تائیوان کارڈ کھیلنے کی خواہش لیے بیٹھے ہیں مگر اس سے چین کے ہندوستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی آنکھیں کھولنے کے لیے تنا ہی کافی ہے کہ چین پہلے ہی خطے میں پاکستان سے مضبوط اتحاد ہی نہیں بلکہ نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے دوستی گانٹھ چکا ہے ۔ چھوٹے پڑوسیوں پر جبر کی مودی پالیسی بُری طرح ناکام ہو چکی، اس کی اصلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی کہ اب مقابلہ ان سے نہیں بلکہ چین سے ہے ۔ چین نے ممالک کو فنڈز دے کر اپنا ہم نوا بنا لیا ہے ۔ مایوس مودی امریکاکو سری لنکا اور مالدیپ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی ترغیب دے رہے ہیں، یہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ ہندوستان اس سفارتی ناکامی کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی اتحاد کواڈ (امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے مابین غیر رسمی اسٹریٹجک فورم) کو بھارت چین کے خلاف محاذ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
چین ہندوستان کے خلاف کسی بڑی جنگ کا متمنی نہیں۔ وہ صرف متنازع سرحدی علاقوں پر حکمت عملی سے غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ روایتی اور جوہری دونوں میدانوں میں چین کی برتری کے باعث، ہندوستان بھی پوری کوشش کرے گا کہ وہ فوجی تنازع کی وسعت اور نوعیت کو نہ بڑھائے ۔ کواڈ اس تنازع میں اسی صورت اپنا کردار ادا کر سکتا ہے جب عالمی جنگ کا خطرہ ہو۔ کواڈ نیٹو جیسا فوجی اتحاد نہیں، جاپان اور آسٹریلیا کے امریکا کے ساتھ طویل عرصہ سے باہمی سلامتی کے معاہدے ہیں اور انہیں چین کے خلاف کواڈ کی ضرورت نہیں۔ وہ عسکری اور تذویراتی میدان میں کئی دہائیوں سے تعاون کر رہے ہیں۔ بھارت اب بھی اپنا بیشتر اسلحہ روس اور فرانس سے خریدتا ہے ۔ اس لئے کواڈ بھارت کیلئے بے بسی کے صحرا میں محض ایک سراب ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے مراسم ہندوستان کی علاقائی سا لمیت، خاص طور پر متنازع خطہ کشمیر، کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ مودی سرکار کو نا صرف عسکری طور پر تیاری میں ناکام بلکہ درست سفارتی حکمت عملی اپنانے سے عاری ہے ۔ بھارت اپنی سلامتی کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنے تنازعات کا خاتمہ اور ہمسایوں سے تعلقات میں مثبت رویہ اپنانا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔