... loading ...
لوگوں کی نقل اتارنے میں ماہریہ نوجوان ایک زبردست نشانہ باز تھا،مجمع لگاکر ایسی ایسی کہانیاں بھی سنانا کہ لوگ دنگ رہ جاتے
قسط نمبر:4
لارنس کا ایک بھائی بھی اس سے ملنے کے لیے آ گیا تھا اور اس صحبت میں شریک تھا۔ گفتگو جرمنوں کے متعلق ہو رہی تھی۔
اس وقت میجر کو لارنس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ یا ہنسی کھیلتی نظر آئی۔ میجر نے پوچھا۔ ’’ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘۔
صرف اس لیے کہ میں نے کچھ ہی دیر پہلے جرمنوں کو کافی بے وقوف بنایا ہے۔‘‘
’’بے وقوف بنایا ہے۔‘‘
پوری طرح ہنستے ہوئے لارنس نے جواب دیا۔ ’’جی ہاں۔ بے وقوف بنایا ہے۔ دیسی باشندوں کے ساتھ ان کا برتاؤ دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی تھی۔ اس لیے میں نے ان کی سرزنش کرنی چاہی۔
میجر کا رخ دوسری سمت پھیر کر اس نے ایک ٹیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اس کو تو دیکھتے ہو نا۔‘‘
میجر نے سر ہلایا۔
کل شام کو لوہے کے پائپ گھسٹیتے ہوئے ٹیلہ پر لے گیا اور اوپر سے ان کو اس طرح دھکیل دیا کہ ان کے سرے جرمنوں کی زیر تعمیر سڑک اور پل کی طرف نشانہ کیے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔
’’پھر کیا ہوا۔‘‘
لارنس پھر ہنسا اور کہنے لگا۔
میں قسم تو نہیں کھا سکتا کہ اس کا لفظ لفظ صحیح ہے۔ البتہ میں نے سنا ہے کہ جب انھوں نے ان دھندلکے میں ان پائیپوں کو وہاں جما ہوا پایا تو فوراً انھیںمیرا خیال آ گیا۔ تم جانتے ہو کہ میں ان کی نظر میں جاسوس ہوں۔
انھوں نے ان پائیپوں کو بندوق سمجھ لیا اور دہشت اورغصہ سے بد حواس ہو کر لگے برلن کو تاریں دوڑانے۔
خوشی کی مسکراہٹ سے لارنس کے چہرہ پر شکن پڑ گئے۔
میجر نے مشکل سے یقین کرتے ہوئے لارنس کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’میں نہیں سمجھا۔‘‘
جی ہاں انھوں نے یہی کیا۔ انھوں نے تار بھجوائے کہ اس دیوانہ انگریز… یہاں لارنس ہنسی کو ضبط نہ کر سکا… نے ہماری زیر تعمیر سڑک پر بندوقیں چڑھا رکھی ہیں جس سے سڑک اور ندی کا پل دونوں خطرہ میں ہیں۔
میجر یونک کو اس نوجوان انگریز کے سمجھنے کا یہاں خوب موقع ملا۔ وہ اول ہی سے انھیں اپنا گرویدہ بنا چکا تھا۔ انھیں وہ عجیب ’’مجموعہ اضداد‘‘ نظر آتا تھا۔
وہ سارا وقت ہٹبی کے قدیم کتبوں کی عبارتیں سلجھانے میں صرف کرتا، تفصیلات کو نقل کرنے کا بڑا اہتمام کرتا اور بڑی احتیاط برتتا۔
فرصت کے اوقات میں وہ کیمپ سے بہت دور نکل جاتا۔ کوئی پرانا بوتل یا ٹن نصب کر کے مامسرکے بڑے پستول سے چاند ماری کرتا۔ میجر یونگ سے بھی دو ایک دفعہ نشانہ بازی کا مقابلہ ہوا۔ مگر لارنس نے اس پیشہ ور سپاہی کو ہر دفعہ شکست دی۔
میجر یونگ نے لکھا ہے کہ ’’لارنس بہترین نشانہ باز تھا۔‘‘
جب وہ ہر کام سے فارغ ہوتا اور نشانہ بازی کی مشق بھی نہ کرتا ہوتا تو عموماً پڑھتا رہتا اور اگر وہ پڑھتا ہوا بھی نہ ملے تو اس کا کہیں بھی ملنا ممکن نہیں۔ وہ صحرا میں اپنے کسی پراسرار سفر پر روانہ ہو گیا ہوتا جس کے متعلق وہ کہتا تو بہت کم، لیکن سوچتا بہت زیادہ۔
امریکی یونیورسٹیوں کے طالب علم تعطیلات میں ان کھنڈروںکو دیکھنے آتے۔ لیکن Carchermish پہنچتے ہی اچھنبے میں رہ جاتے، ان طالب علموں میں سے ایک نے تو بڑی راست گوئی سے کام لیا۔ اس نے اپنے گھر کو لکھا کہ ’مجھے توقع تھی کہ یہاں سفید بالوں والے خمیدہ قامت بڈھے عالم نظر آئیں گے۔‘‘ لیکن اسے یہاں بالکل نو عمر دو جوان نظر آئے۔
لارنس ہمیشہ ٹینس کی قمیض نکر اور آکسفورڈ کا رنگین کوٹ پہنا رہتا جس کی جیب پر Magdelen کا تمغہ آویزاں ہوتا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زندگی بھر دھوپ کی تمازت کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا وہ ہمیشہ مطمئن اور پر سکون ہی نظر آیا۔
چھوٹے چھوٹے بستر جن پر ملاقاتی طالب علم سویا کرتے تھے۔ ان نایاب کمبلوں سے ڈھکے ہوئے تھے جنھیں لارنس بعض دور افتادہ دیہاتوں سے لے آیا تھا وہ عجیب طور پر بعض کونوں میں لٹکا دئیے گئے تھے۔ لارنس خوب جانتا تھا کہ یہ صدیوں کی رنگین تاریخ کے خاموش گواہ ہیں۔
وہ شام کے وقت اپنے کیمپ سے نکل جاتا۔ دوسرے دن یا دو تین دن کی آوارہ گردی کے بعد بعض قدیم یاد گار چیزیں لے کر واپس آ جاتا۔
ان دور افتادہ پہاڑوں اور وادیوں کے دیہاتی اس خاموش نیلی آنکھوں والے ’’بے دین‘‘ کے متعلق حیرت سے سرگوشیاں کرنے لگتے جو بلا خوف و خطر ان کے درمیان گھوما کرتا تھا۔ جو اپنے دور دراز ملک کے قصے بیان کرتا اور اس کے معاوضہ میں ان کی گپ شپ سنتا۔
ان لوگوں کے پاس نہ تو اخبار تھے اور نہ ہی کتابیں۔ ان میں سے معدودے چند ہی لکھ پڑھ سکتے تھے۔ لیکن مشرق کا قصہ گو زندہ اخبار کا کام دیتا تھا۔ وہ گاؤں گاؤں اور قصبہ قصبہ خبریں پھیلاتا پھرتا تھا۔ قصہ گو آتا اور گاؤں کی چادڑی یا کسی جھاڑی کے ٹھنڈے سایہ میں بیٹھ جاتا اور جب چھوٹے بڑے سب اس کے گرد جمع ہو جاتے تو اپنے ہموار لہجہ میں اس عظیم الشان دنیا کے حالات سنتا جہاں سے وہ چلا آ رہا ہے۔ بعض قصے صحیح ہوتے بعض وہ ہوتے جنھیں وہ راستہ چلتے وقت گھڑ لیتا۔
اور اگر وہ کہانیاں سننا چاہتے تو اس میں بھی وہ طاق تھا۔
دوپہر کی دھوپ میں جب مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز میں، یہ اور اسی سے ملتے جلتے قصے بیان ہوتے جن میں ماضی، حال اور مستقبل کے حالات پر گفتگو ہوتی تو لارنس انھیں سنا کرتا اور بعض اوقات جب کہ آگ کا الاؤ لگا ہوتا وہ تاروں بھرے آسمان کے نیچے بیٹھا اپنے نئے دوستوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتا کہ انگلستان کیسا ملک ہے۔
وہ ان جہازوں کا حال بتاتا جو سمندر میں سفر کرتے ہیں۔ اس مقام کی بابت بھی کہتا جس کا نام ’’لنڈرا‘‘ ہے۔ وہ اس عظیم الشان شہر کا حال سننے سے کبھی نہ اکتاتے جہاں کے باشندوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ انھوں نے نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ حتیٰ کہ عظیم الشان عرب بادشاہوں کے عہد میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔
وہ کہتے کہ لارنس کو سچ مانیں تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ’’لنڈرا‘‘ میں لوگ زمین سے بہت اوپر رہتے ہیں ’’سطح زمین پر رہتے ہیں اور زمین کے نیچے رہتے ہیں۔‘‘
وہ جانتے تھے کہ مغرب کی سمت میں، بہت دور ایک لوہے کی سڑک ہے جس پر لوہے کے بھوت لکڑی کے ڈبوں کو کھینچتے ہوئے بھاگتے رہتے ہیں لیکن یہ ’’انگلسی‘‘ تو کہتا ہے کہ یہ لوہے کی سڑکیں زمین کے پیٹ میں بھی جا پہنچی ہیں جہاں سے لوگوں کو سورج کے دیکھنے کے لیے کئی قدم آگے بڑھ آنا پڑتا ہے… اللہ ! اللہ… وہ حیرت زدہ ہو کر سرگوشی کرنے لگتے۔
لارنس کہتا۔ ’’اور وہاں کی گلیاں اتنی لمبی لمبی ہیں کہ تم ایک سرے سے دوسرا سرا نہیں دیکھ سکتے۔ اس پر سننے والوں کا حلقہ حیرت زدہ ہو کر بھنبھنا اٹھتا۔ابتدائی ایام میں لارنس کی زندگی کا یہ نقشہ تھا۔ وہ اگر کھدائیوں میں نہ مصروف ہوتا تو عموماً دیہاتی علاقوں کی گشت لگایا کرتا۔ ہر دفعہ اس سر زمین کے متعلق اس کی معلومات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا جس کا وجود خود ایک معمہ تھا۔
وہ کبھی کبھی چٹانوں والی وادی کے اندر یا باہر کے تنگ اور ٹیڑھے میڑھے راستہ پر چل پڑتا۔ کبھی اس راستہ پر جا نکلتا جس پر پہاڑی دامن میں بنے ہوئے رومیوں کے قلعہ یا کسی زمانہ میں مسیحی مجاہدوں کے بڑے قلعے کی دیواروں کی تلاش میں برسوں آمدورفت رہی ہو گی۔
صحرامیں طویل طویل سفر دہ سار بانوں کے ساتھ طے کرتا۔ یا خود اس کے دماغ میں ایک متحرک کاروان پیدا ہو جاتا جب وہ عالم تخئیل میں بخود اور لوبان والے قدیم زمانوں کو دیکھنے لگتا۔ وہ دن جب کہ دمشق اور حلب کے بازاروں میں خوشبودار لباس اور قیمتی جواہرات کے کاروان کے کاروان کیتھے (Cathay) کے دور دراز ملک اور ہندوستان کے مندروں اور محلات سے آ ٓآکر بکا کرتے ہوں گے۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔