... loading ...
سیاست میں فیصلہ کن عامل تاثر ہوتا ہے۔ کیپٹن (ر) صفدر کے قضیے سے اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ سازشیں حشرات الارض کی طرح رینگ رہی ہیں۔ کوئی ہے جو تاک میں ہے، کوئی ضرور ہے جو تاک میں ہے۔
مزار قائد کی بے حرمتی ضرور ہوئی۔ مگر یہ معاملہ جس طرح برتا گیا، اُس میں صرف مزار نہیں قائد اعظم کا پورا ملک بے حرمت ہورہا ہے۔ کوئی آدمی،کوئی ادارہ نہیں جو سیاست سے اوپر اُٹھ کر سوچ سکے! سیاست، یہی مکروہ سیاست!جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔سیاست کے منفور چلن نے پاکستان کے معاشی وجود، سماجی تارپود اور نفسیاتی واخلاقی بود کو داؤ پر لگادیا۔ بظاہر کچھ ادارے ذرا سا احترام رکھتے تھے، مگر بے احترامی کی لَت ہمیں اپنی ہی عزت اپنے ہی ہاتھوں سے تار تار کردینے سے بھی بے پروا کردیتی ہے۔ یہ ایک سادہ سی نفسیات ہے جب آپ دوسروں کی عزت کو ہدف بنالیں گے تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ خود اپنی ہی عزت کی حساسیت بھی کھو دیںگے۔پہلے نوازشریف اس کے شکار ہوئے اور اب یہ نظام اس سے دوچار ہے۔
کیپٹن(ر) صفدر کا تنازع اچھی طرح تولنے ٹٹولنے کا معاملہ ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے اقدامات کے بنتے بگڑتے چہرے کو اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔مزار ِ قائد کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق موجود ہے۔ مگر جہاں قائداعظم کی پروا نہ کی جاتی ہو، وہاں مزارِ قائد کے تقدس کی تعلیم پر کون دھیان دے گا؟سوال ایک اور بھی ہے۔ مزار قائد کا تقدس 1971 ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ہونے والی قانون سازی کی چادر اوڑھتا ہے(جس میں 1976ء کو کچھ ترامیم کے پیوند بھی لگے) مگر یہاں آئین بھی روندا گیا ہے۔ جہاں آئین کی پروا نہ کی جاتی ہو وہاں قانون کے احترام کی تلقین کون سنے گا؟ذرا ایک اور پہلو پر بھی توجہ دیں! یہاں دلائل یکساں رہتے ہیں، بس فریق بدل جاتے ہیں۔ آج کیپٹن صفدر نے جو کیا وہ کل کسی اور جماعت کے رہنما سے بھی سرزد ہوسکتا ہے تب دلائل یہی رہیں گے، بس فریق بدل جائیں گے۔ کیپٹن صفدر کا موقف کل پی ٹی آئی کے ہاتھ میںاپنا جادو جگا سکتا ہے اور پی ٹی آئی کا موقف کل نوازلیگ کے بیانئے کا روپ بھی دھار سکتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ آج جو رویہ انتظامیہ نے اختیار کیا کل وہ ایسے ہی کسی اور جماعت کے رہنما کے خلاف اختیار کرے۔ ہوسکتا ہے کہ کل حکومت مختلف ہو تو یہ کام جو آئی جی نے ’’دباؤ‘‘ میں کیا، خوشدلی سے کریں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تب دباؤ ڈالنے والوں کی خواہش بھی مختلف ہو۔ پاکستان میں واحد یقینی چیز اس کی غیر یقینی سیاسی حالت ہے۔ یہاں کردار، آدمیوں کی شکل میں اور آدمیوں کا اپنا کردار کسبی کی حیا کی شکل میں بدلتا رہتا ہے۔ پاکستان میں برتاؤ کا یہ تعصب ریاست سے بیگانگی پیدا کررہا ہے۔ایک ہی عمل ایک کے لیے قابلِ معافی اور دوسرے کے لیے باعث ِ مواخذہ بن جاتا ہے۔ اس طرزِ عمل سے تعصب کی ایسی خلیجیں پیدا ہوجاتی ہیں جو کبھی نہیں پاٹی جاسکتیں۔ یہ سب کچھ پاکستان میں اتنی بار ہو چکا ہے کہ اب ہر گروہ، فرد اور فریق اس کا مشترکہ تجربہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ تمام افراد، فریق اور گروہ اس مشترکہ تجربے پر یکساں حجت کرنے کی ہمت پیدا کررہے ہیں۔ یہ رجحان خطرناک تصادم کا اشارہ کررہا ہے۔
طاقت کی حرکیات ہی کچھ ایسی ہیں کہ اس میں سوچنے کا کام بھی دماغ کے بجائے ہاتھ کرتا ہے۔کیپٹن (ر) صفدرکا معاملہ مختلف نہیں۔ اگر مزارِ قائد کی بے حرمتی پر کسی اقدام کی مجبوری لاحق تھی، تو یہ واقعہ ایسا تھا، جو اپنے طور پر ہی لائقِ ملامت بن چکا تھا۔اس کی پہلی ویڈیو جاری ہوتے ہی سوشل میڈیا کے علاوہ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ بھی اس مسئلے کو زیر بحث لانے لگے تھے۔ اس پر کوئی کارروائی ’’عوامی مطالبے‘‘ کی شکل میں ڈھالی جاسکتی تھی، مگر طاقت ور حلقوں نے ایسے نہیں سوچا۔ اس واقعے کے فوراً بعد نظام کے حامی حلقے یہ تاثر دینے لگے کہ کیپٹن(ر) صفدر کے خلاف کارروائی سے یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ اپوزیشن کی ایک اہم جماعت پیپلزپارٹی کی جہاں حکومت ہے وہاں بھی اپوزیشن کے خلاف کارروائی ممکن ہے۔ اصل طاقت کا مرکز کوئی اور ہے۔’’نادان دوست‘‘ یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ یہ پیغام اتنا مبہم نہیں کہ اس کو دینے کی ضرورت ہر بار پڑے۔جس تاثر کو بار بار قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہو وہ پھر تاثر ہی ہوتا ہے، حقیقت نہیں۔ یہاں ایک اچھے’’منصوبہ ساز‘‘کی ہی نہیں بلکہ اچھے’’میڈیا منیجرز‘‘کی بھی کمی نظر آتی ہے۔
کیپٹن صفدر کی گرفتاری ورہائی کے درمیان اور بعد کے حالات انتہائی پراسرار ہیں۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز تمام محاذوں اورمراکز کی توجہ حاصل کی۔مگر اُن کی پریس کانفرنس بعد میں آتی ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ پولیس نے کب اور کن حالات میں اپنے منظم اور مربوط ردِ عمل کا منصوبہ ترتیب دیا؟کیا اس منصوبے کی سرپرستی سیاسی سطح پر کی جارہی تھی؟اور بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس اسی ترتیب میں سوچی سمجھی تھی یا پھر یہ پولیس کے اپنے طور پر آزاد ردِ عمل کے بعد برپا کی گئی۔ ان سوالات کے جواب بہت دنوں تک پردۂ راز میں نہ رہ سکیں گے۔ سامنے کے حالات میں بلاول بھٹو کی ایک پریس کانفرنس ہے، جس کے بعد فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کی جانب سے اُن سے کیا جانے والا رابطہ ہے۔جس میں فوجی سربراہ کی جانب سے سندھ پولیس کی قیادت پر دباؤ ڈالنے کے واقعے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ بعد کے لمحات پیپلزپارٹی کی قیادت ایک فاتحانہ مسرت کے ساتھ بسر کرتی ہیں۔اگر چہ یہ مغالطہ بھی ہوسکتا ہے مگر یہ بالکل کھیل بدل جیسی صورتِ حال لگتی ہے۔ اِن حالات پر فہمیدہ حلقوں میں دو آراء موجود ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ ایک ڈسپلن ادارے کے سربراہ کو اس معاملے میں رپورٹ طلب کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ کیا واقعات’’اختیارات کی زنجیر‘‘(چین آف کمانڈ) سے باہر رونما ہوئے تھے؟ یہ بات تو اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ایک ڈسپلن ادارے کو سیاسی انداز سے رپورٹ کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے تھی۔ یہاں سیدھے سادھے طریقے سے اختیارات کی ایک زنجیر کام کرتی ہے۔ اس سے باہر کچھ نہیں ہوتا۔
پھر سیاسی انداز اختیار کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟اس سے سوچ کا دھارا منفی طور پر بہنے لگتا ہے کہ بلاول نے اپنی سویلین مشنری کے مورال کے لیے حکومت داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ مگر دوسری طرف ماجرا مختلف ہے جہاں امتیازی اور جوہری فرق ہی ڈسپلن اور اختیارات کی زنجیر سے بندھے افسران کی سرپرستی اور تحفظ سے پیدا ہوتا ہے۔ کیپٹن صفدر کے قضیے سے نمٹنے کا طریقہ کتنا ہی غلط ہو، مگر اسے ’’اختیارات کی زنجیر‘‘ (چین آف کمانڈ) سے باہر کا واقعہ دکھا نا اس سے زیادہ غلط تاثر پیدا کرے گا۔ پھر اس طرزِ عمل نے مخالف سیاسی رہنماؤں کو زیرِ لب مسکرانے کا موقع دیتے ہوئے یہ تاثر گہرا کیا کہ طاقت ور حلقوں کو سیاسی دباؤ میں لاناممکن ہے۔ یہ اس پورے قضیے کے حوالے سے زیرگردش ایک رائے ہے۔ ایک دوسری رائے بھی ہے، جس میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دراصل بلاول بھٹو کو ایک فاتحانہ احساس دیا گیا ہے تاکہ وہ پی ڈی ایم سے کچھ فاصلے پر دکھائی دیں۔ جس کی ابتداپہلے ہی ہو چکی تھی۔ پیپلزپارٹی نے اپنی میزبانی میں ہونے والے پی ڈی ایم جلسے میں نوازشریف کو تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا۔ بلاول بھٹو 25؍ اکتوبر کو کوئٹہ کے جلسے سے بھی خود کو دور رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ پی ڈی ایم کا یہ جلسہ اب تک کا سب سے زیادہ متنازع اور منفی جلسہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں بلاول بھٹو کے پی ڈی ایم سے فاصلہ پیدا کرنے کے عمل سے اپوزیشن اتحاد میں مزید دراڑیں ڈالنا زیادہ آسان ہو جائے گا۔ باقی کام نوازشریف کی آئندہ کی تقریریں کردیں گی جس کا بوجھ حزب اختلاف کی جماعتیں تو درکنار خود مسلم لیگ نون کے بھی اکثر رہنما اُٹھانے کو تیار نہیں ہونگے۔ اس پورے منظرنامے میں کیپٹن صفدر کے قضیے میں بلاول بھٹو کو ایک فاتحانہ احساس دلانا کوئی مہنگا سودا نہیں لگتا۔یہ رائے کتنی بھی وزنی ہو، مگر پہلی رائے سے جو تاثر قائم ہو ااُسے بہت دیر تک زائل نہیں کیا جاسکے گا۔ یاد رکھیں سیاست میں گاہے تاثر ہی فیصلہ کن عامل ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭