وجود

... loading ...

وجود

مفادات کی جنگ اور عوام

جمعرات 22 اکتوبر 2020 مفادات کی جنگ اور عوام

پاکستان اس وقت ان گنت مسائل ومشکلات سے دوچار ہے۔ مہنگائی کا جن اپنے پورے جاہ وجلال کے ساتھ بازاروں میں دندناتا پھر رہا ہے، بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ اب تو دینے والا ہاتھ بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہے، امن و امان کی داخلی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں،کراچی سمیت ملک بھر میںاسٹریٹ کرائم جس دیدہ دلیری سے دن کی روشنی میں ہو رہا ہے اسے ہر بینا آنکھ دیکھ رہی ہے، بلوچستان میں دہشت گرد پھر سر اٹھانے لگے ہیں، آئے روز ہمارے فوجی جوان اورسویلین ان ملک دشمنوں کے بارود کا ایندھن بن رہے ہیں ، جموں و کشمیر کی کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارت کی جارحانہ سرگرمیاں روز کا معمول بن چکی ہیں، مقبوضہ کشمیر کو تو وہ عملی طور پر ہڑپ کر ہی چکا ، جسے اس کے منہ سے نکالنے کے لیے دانستہ بے حس عالمی برادری کو متحرک کرنے میں بھی پاکستان تاحال کوئی قابل ذکر کردار اداکرنے سے قاصر ہے۔ اب تک صرف تقریروں سے کام چلایا جا رہا ہے، ملک میں ہونے والے احتساب پر بھی چاروں جانب یکسوئی دکھائی نہیں دیتی بلکہ یہ امر زیادہ تکلیف دہ ہے کہ عدالت عظمیٰ بھی اس پر سوالیہ نشان لگا چکی ہے، کورونا کا رونا تاحال جاری ہے بلکہ اب پھر کہا جا رہا ہے کہ کیسز بڑھنے لگے ہیں اور عین ممکن ہے کہ پھر ملک میں لاک ڈائون کی مشقت سے عوام کو گزارا جائے جو پہلے ہی اس کے لگائے ہوئے زخم چاٹ رہے ہیں۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان ہمالیہ جیسے مسائل سے نظریں چرائے حکومت اور اپوزیشن سینگوں میں تیل لگاکر ایک دوسرے کو ٹکریں مارنے میں مصروف ہیں، پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ اور کراچی کے پاور شوز کے اثرات زائل کرنے کے لیے وزیراعظم سمیت پوری حکومتی مشینری ملک کے سارے مسائل چھوڑ چھاڑکر میدان میں اتر چکی ہے۔ وزرائ، معاونین خصوصی، مشیر اپوزیشن کی بدکلامی پر جس طرح بدزبانی کر رہے ہیں اس نے ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو جو پہلے ہی اعتدال کی حدیں عبور کررہا تھا کئی گنا زیادہ بڑھا دیا ہے۔ حکومتی رہنما دونوں جلسوں کو بری طرح ناکام جبکہ اپوزیشن کے مطابق ان جلسوں نے حکمرانوں کی نیندیں اْڑا کردی ہیں اور جلد ہی اْن کا بوریا بستر گول ہونے والا ہے اور نیا سال عام انتخابات کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔ دونوں فریق کچھ بھی کہیں لیکن پاکستان کے عوام اورساری دنیا حقیقی صورتحال دیکھ رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن لیڈروں کی تقاریر میں ایک دوسرے کی تضحیک کا تمام مواد موجود ہوتا ہے، لگتا ہے معاملات اب پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے صاف کہہ دیا ہے کہ لوگ اب ایک بدلا ہوا عمران خان دیکھیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پی ڈی ایم کی تحریک کو روندنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ جبکہ اپوزیشن رہنما حکومت کو گھر بھیجنے تک خاموش نہ بیٹھنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں مہنگائی میں پسے عوام کو مزید پسلیاں تڑوانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ملک کے دگرگوں حالات کو دیکھتے ہوئے افہام و تفہیم کا راستا نکالتی ،عوام کو مہنگائی کے جن سے آزاد کرانے کی سعی کرتی، بیروزگاری کے گہرے ہوتے ہوئے کنویں کو بھرنے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی، امن و امان ، اسٹریٹ کرائم کو روکنے کے لیے کابینہ کے ساتھ سر جوڑتی، بلوچستان میں سراٹھاتی دہشت گردی کے آگے بند باندھنے کی کوئی حکمت عملی بناتی، سرحد پر بھارت کی بڑھتی ہوئی بدمعاشیوں کا توڑ کرتی، جموں و کشمیر کو اس کے ناجائز قبضے سے چھڑانے کے لیے عالمی برادری کو جھنجھوڑتی اور ملک میں ہونے والے احتساب پر سے یکطرفہ کی چھاپ ہٹانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھاتی ۔ دوسری جانب اپوزیشن کا بھی فرض تھا کہ وہ ان مشکل حالات میں ملک و قوم کی خاطر حکومت کے ساتھ سینگ لڑانے کے بجائے صبر و تحمل کا معاملہ کرکے پاکستان کی سربلندی کے لیے انہیں پانچ سال برداشت کرتی لیکن اب حالت یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت گرانے اور حکومت خود کو بچانے میں ملک اور قوم کے مسائل کو بالائے طاق رکھ چکے ہیں اور یہ حالات عوام غور سے دیکھ رہے ہیں، حقیقت یہی ہے کہ دونوںکا انداز درست نہیں،حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ کشیدگی اتنی نہ بڑھائیں کہ نتیجے میں دونوں کو پچھتانا پڑے، اب دونوں کو ملک اور قوم کی خاطرمحاذ آرائی کے بجائے افہام وتفہیم کی طرف جانا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر