وجود

... loading ...

وجود

منزل ہے کہاں تیری اے لالہء صحرائی

بدھ 21 اکتوبر 2020 منزل ہے کہاں تیری اے لالہء صحرائی

کوئی دن جائے گا کہ فیصلہ صادر ہوجائے گا۔کیا نوازشریف، الطاف حسین بننے کے راستے پر گامزن ہیں؟ یا پھر وہ پاکستانی سیاست کے زمین وآسمان بدل دیں گے؟وقت کی جادو نگری کے اپنے جنتر منتر ہیں اور تاریخ کی اپنی حقیقتیں!!
سیاسی کھیل کبھی نظام شمسی کی طرح کسی خاص قاعدہئ طلوع و غروب کے پابند نہیں رہتے، مگر پاکستانی سیاست ہمیشہ سے طلوع وغروب کے اپنے قید قاعدوں میں رہی ہے۔اس کے متعلق واحد یقینی بات یہ ہے کہ یہ غیر یقینی ہے۔ نوازشریف جس ”گھات“ پر بیٹھے لوگوں کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،کبھی اُسی”گھاٹ“ کے پانی کو وہ گھونٹ گھونٹ پیتے او رایک نشے میں رہتے تھے۔ دوسری طرف دیکھیں! نوازشریف کی صاحبزادی جناح باغ کے جس جلسے میں بلاول بھٹو سے ایک دوسرے کی عزت کرنے کا وعدہ مانگ رہی تھی، خود نوازشریف نے اپنے برابر جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کو کھڑا کرکے اُسی بلاول کی ماں بے نظیر بھٹو کو”غدارِ وطن“ قرار دیا تھا۔ مرزا غالب کے ہم عصر شاعر حیدر علی آتش حافظے کی لوح پر اُبھرتے ہیں:۔

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے

زمین چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

ہائے یہ سیاسی کھیل!اب حب الوطنی کا ایک نیا جبر ہے، ایک طرف سے آواز یہ ہے کہ ہمارے شرمناک ماضی کو فراموش کر دو، سڑکوں پر ایک دوسرے کو گھسیٹا ماری کی ہماری بڑھکوں کو نظرانداز کردو! اور ”ووٹ کو عزت دو“ کو حب الوطنی کا معیار سمجھو، ضمانت یہ آج بھی نہیں کہ کل یہ باہم لڑیں گے نہیں، پھر سڑکوں پر گھسیٹنے کے لیے دانت نہ کٹکٹائیں گے۔ اور اسی ووٹ کا جعلی جھکاؤ خود اُن کی جانب ہوا تو اکیلے میں اپنے نفاق زدہ چہروں کو دیکھ کر شرمائیں گے نہیں! دوسری طرف ایام کی اُلٹ پھیر اورانسانی ذہن کے ارتفاع کی ہر حالت میں ”گائے“ کی تقدیس واجب الوجود ٹہری ہے۔حضرت علامہ اقبالؒ کے ہاں مضمون دوسرا تھا مگر حالت یہی:

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

نواشریف کسی بھی حالت یا دور میں رہے ہوں، اُن کی درویشی اور سلطانی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ گیلے میں سوئے ہوں۔آج بھی نہیں سوتے۔ پھر سوال یہ ہے کہ سامری کے بچھڑے میں جان کہاں سے آئی؟نوازشریف کی سیاست چاردہائیوں پر پھیلی ہوئی ہے، وہ طاقت کے مراکز سے حالتِ تصادم میں ہے، مگر اس کے نباض بھی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی سیاست کے تمام عرصے میں ریاست کے مختلف ستونوں میں ہمیشہ ”اپنے لوگ“ ڈھونڈے ہیں۔ عدلیہ سے لے کر فوج تک وہ اس روش پر چلتے چلتے اب اس کے عادی ہوچکے۔ جنرل آصف نواز کا معرکہ تو اس کی ایک ڈھلی ڈھلائی، ٹکسالی اور کلاسیکی مثال ہے۔تاریخی طور پر نوازشریف مختلف تنازعات پیدا کرنے کے بعد درمیانی راستے پر چلتے آئے ہیں۔ اُنہیں جب کہنی مارنے کا موقع ملا ہے، چھوڑا نہیں۔ مگر دوبدو کبھی آستینیں نہیں چڑھائیں۔ گوجرانوالہ کے جلسے میں اُنہوں نے جو خطاب کیا وہ ”پہلے سے بھی زیادہ“ اور”حدسے بڑھ کر“کی مثال تھا۔ سوال یہ ہے کہ نوازشریف مستعار زمین وآسمان اُٹھا پھینکنے کو کیوں تیار ہیں؟

 

نوازشریف نے پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کے تذکرے کو ناموں سے مشخّص کیا، تاریخِ پاکستان میں ایسی کوئی مثال نہیں۔ پاکستان کی سیاست وصحافت میں اسٹیبلشمنٹ کا ذکر اردو غزل کے روایتی محبوب کی طرح ہوتا ہے۔ اردو غزل کی عشوہ طراز نازنیں یا گاؤں کی کسی الھڑ دوشیزہ کی طرح جو اپنے محبوب کا نام نہیں لیتی، بلکہ دوپٹے کاپلو مروڑ کرلجاجت سے ”اُن“ کہہ کراکتفا کرتی ہے۔ بقول شاعر

شرم، دہشت، جھجک، پریشانی

ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں

آپ،وہ،جی،مگر ’یہ سب کیا ہے‘

تم مرا نام کیوں نہیں لیتیں

 

اردو ادب کا یہ رجحان ہمارے ہاں اسٹیبشلمنٹ کے ذکر میں رائج تھا۔ مگر نوازشریف نے کوئی پروا کیے بغیر ان ناموں کو ہدف بنا کر گفتگو کی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ تاحال اس پر عسکری اداروں کی جانب سے براہِ راست کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔ ایک بالواسطہ ردِ عمل وزیراعظم کی جانب سے سامنے آیا۔ مگر اقدامی سطح پر ریاست کے بندوبستی امور میں ایک”خاموشی“ چھائی ہے او ریہ بلاوجہ نہیں۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں نوازشریف کی یہی تقریر بنیادی تجزیے کا محور ہے کہ حالات کے نئے خدوخال اسی سے بننے بگڑنے ہیں۔ سوال کی جانب واپس پلٹیں! نوازشریف نے یہ تقریر کیوں کی؟

 

سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس پر صرف اندازے اور سرگوشیاں ہیں۔ اس تقریر کے باطن میں پہلی وجہ ایک ایسی”نامعلوم“ حمایت کوقرار دیا جارہا ہے، جو اندرونی بھی ہوسکتی ہے بیرونی بھی، اور دونوں بھی۔ اندرونی حمایت کا تجزیہ کیا جائے تو یہ طاقت کے مراکز کے اندرونی نظام پر نقب زنی کی ایک واردات کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ یہ ذہنیت اپنے ہی گھر کی چھت پر شگاف ڈالنے کے لیے کسی نقب زن کے اوزار کا پتہ دیتی ہے۔ مگر اس حمایت کی تہہ داریوں میں مراتب کی تقسیم کے ساتھ موجودہ ہم آہنگی اور مستقبل کی یکسانی موجودہ بندوبست کے درپے محسوس نہیں ہوتی۔ چنانچہ کسی بے چراغ گھر کی چھت پر کمند اچھالتے ہوئے دزدانِ نیم شب کے”رفیقوں“ میں سوغات کی بندر بانٹ پر کوئی اتفاق ہوا بھی ہو تو وہ اس لیے ممکن العمل نہیں کہ کمندیں اچھالنے کی ہمت جہاں سے ملی سکتی ہیں، اقتدار کی سوغات کا کنٹرول اُن کے پاس بعد میں بھی ہوگا یہ یقینی نہیں۔ کیونکہ اس قسم کے کھیل شروع کسی کی بھی مرضی سے ہوسکتے ہیں، مگر یہ ختم اپنی مرضی سے ہوتے ہیں۔ جہاں تک بیرونی حمایت کا تعلق ہے تو وہ دوست اور دشمن دونوں ممالک سے ہوسکتی ہے۔ دشمن کی حمایت خود اُن کے ساتھ ایک دشمنی کی واردات لگے گی جو اس سے تقویت پاکر زمین وآسمان ایک کررہے ہیں کہ پاکستان کے دشمنوں سے تال میل خود ان کے لیے بھی قابلِ قبول نہ ہوگی جو ابھی صف بندی میں نوازشریف کے ساتھ ہی کیوں نہ کھڑے دکھائی دیتے ہوں۔ جہاں تک دوست ممالک کا تعلق ہے تو یہ بات بہت جلد واضح ہو جائے گی کہ اُنہیں پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز اور کسی سیاست دان میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ اپنے مفادات سے ہم آہنگ راستے پر چلیں گے۔ یاد کرلیں! نوازشریف کے حامی سعودی خاندان نے ماضی میں اُنہیں بچایا ضرور تھا، مگر پھر اُنہوں نے وہی دوستی جنرل پرویز مشرف سے بھی گانٹھ لی تھی یہاں تک کہ جب وہ اقتدار چھوڑ کر ملک کو بھی خیرباد کہہ گئے تو اُنہیں اُسی سعودی خاندان کی مہربانی سے عرب امارات میں ایک بیش قیمت گھر ملا تھا۔ اب ایک نیا سعودی خاندان مستقبل میں سعودی عرب پر کنٹرول کے لیے خود اپنے ملک کے اندر رزم آرا ہے، وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے خود اپنے ملک کے اندر کون سا اطمینان پالے گا۔ یہ تنازعات اُس کی پاکستان کے اندر حمایت کو متزلزل کردیں گے، اس پر طرہ یہ کہ جب ترکی مشرق وسطیٰ کی سیاست میں عالم اسلام کی امید کے طور پر اُبھررہا ہے اور سعودی عرب دیگرمسلم ممالک کے اندر اپنے روایتی احترام کو کھوتا جارہا ہے۔ وہ ملک جو ارطغرل ڈرامے سے بھی پریشان ہے، اُسے پس ِ پشت کے کھیل سے زیادہ اپنی پشت کو مضبوط کرنے کی فکر لاحق ہوگی۔ جہاں تک امریکا اور چین کا تعلق ہے تو وہ پاکستان کے اندر طاقت کے بنیادی مراکز سے معاملات کا اتنا گہرا اور طویل تجربہ رکھتے ہیں کہ وہ آج کچھ اُتھل پتھل کربھی لیں تو اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بعد میں بھی اُنہیں عطار کے اُسی”لڑکے“ سے دوا لینی ہے۔ حمایت کا یہ بیرونی دائرہ بھی دائروں کا ایک کھیل اور ایک حد سے زیادہ ناقابل عمل دکھائی دیتا ہے، جبکہ نوازشریف جو کچھ کررہے ہیں وہ سب حد سے زیادہ ہے۔

 

نوازشریف کے خطاب کی دوسری وجہ ”مایوسی“ ہوسکتی ہے۔ پس ِ پردہ بات چیت میں کچھ نہ ملنے کی مایوس کن حالت میں اگر دباؤ بھی بڑھتا ہی جائے تو انسان دم بخود حالت میں بھی آخری لڑائی آخری دم تک لڑنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ کیا نوازشریف کا خطاب بندگلی سے اُبھرنے والی چیخیں ہیں؟ یہ سوال بہت دیر تک بے جواب نہیں رہ سکتا۔ یہ فریقین کے اقدامات سے معلوم ہو جائے گا۔ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا نوازشریف کے بیانئے کا بوجھ پی ڈی ایم (پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ) اُٹھا سکے گی۔ کالم کا ورق تمام ہوا، اس پر گفتگو آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔یہاں ایک بات ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ نوازشریف کو کہیں سے حمایت حاصل ہو یا نہیں، اُن کی تقاریر مایوسی کی پیداوار ہو یا انقلاب کی، مگر یہ لالہئ صحرائی اپنی منزل کی تلاش میں ہے، اس میں اُن کے اپنے جتن اور نورتن اُنہیں الطاف حسین بھی بناسکتے ہیں۔ یہ بال سے باریک اور تلواز سے تیز راستا ہے۔
؎۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر