... loading ...
دوستو،ایک خبر کے مطابق اسپین میں کورونا وائرس کی وجہ سے تناؤ، ذہنی دباؤ اور پریشانی کے شکار طبی عملے کے لیے ایک خصوصی تھراپی کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں عملے کے ارکان کو کچھ وقت گدھوں کے ساتھ گزارنا ہوتا ہے اور اسے ’ڈونکی تھراپی‘ کا نام دیا گیا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمگیر وبا کورونا کے خلاف جنگ لڑنے والا ہراول دستہ یعنی طبی عملے کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا رہتا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم ’’ال بریتو فلیز‘‘نے انوکھی تھراپی کا آغاز کیا ہے۔این جی او کی جانب سے رواں برس جون میں شروع کی گئی اس تھراپی میں طبی عملے کو روزانہ کی بنیاد پر کچھ وقت کے لیے گدھوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ وہ انہیں کھلاتے ہیں، پیارکرتے ہیں، کھیلتے ہیں اور سیر پر بھی لے کر جاتے ہیں۔ اس دوران ڈونکی ڈاکٹر کا رویہ بھی مشفق معالج جیسا ہوتا ہے۔ماہرین نفسیات کے خیال میں جسمانی تھکاوٹ اور ذہنی دباؤ کو دور کرنے کے لیے عمومی طور پر گھوڑوں کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ مددگار ہوسکتا ہے تاہم این جی او کا دعویٰ ہے کہ گدھے زیادہ نرم خو ہونے کی وجہ سے ذہنی اور جذباتی انتشار میں زیادہ سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔کورونا سے قبل اسپین کے اندلوسیا دونانا نیشنل پارک میں این جی اوکے 23 گدھے الزائمر کے مریضوں اور بچوں کے نفسیاتی مسائل میں مدد گار ثابت ہوتے تھے تاہم اب یہاں کورونا وائرس کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کی تھراپی کی جا رہی ہے۔
بات کورونا کی ہورہی ہے ، ہمارے یہاں کسی کو کوئی فکر ہے نہ ٹینشن، جب کہ بیرون ملک کورونا کا کتنا خوف ہے، اس کا اندازہ اس خبرسے لگائیں کہ ۔۔اٹلی میں ایک ایسا گاؤں بھی ہے جس کے صرف دو باسی ہیں اور وہ بھی آپس میں سماجی فاصلے کا خیال اور ماسک پہنتے ہیں۔یہ قصبہ اٹلی کے صوبے پیروگیا کے علاقے امبیریہ میں واقع ہے، جس کا نام نورٹوس ہے۔ یہ سطح سمندر سے 900 سو میٹر اونچائی پر واقع ہے۔یہاں تک پہنچنا انتہائی دشوار گزار ہے مگر دو عمر رسیدہ ریٹائرڈ افراد اس قصبے کے باشندے ہیں۔ان میں بیاسی سالہ جیوانی کیریلی اور 74 سالہ جیمپیرو نویلی شامل ہے۔دونوں افراد جب بھی ملتے ہیں تو ماسک پہنتے ہیں اور ایک میٹر کے فاصلے پر رہ کر گفتگو کرتے ہیں۔دونوں معمر افراد کا کہنا ہے کہ الگ تھلگ مقام پر رہنے کے باوجود ہم بھی کورونا وائرس سے محفوظ نہیں ہیں۔کیریلی کا کہنا تھا کہ ماسک پہننا اور معاشرتی دوری کا خیال کرنا صرف صحت کی وجوہات کی بنا پر نہیں ہے۔ اگر آپ کو ان اصولوں کی پابندی کرنے کی ضرورت ہے تو یہ اصول کی بات ہے۔
گدھوں کی تھراپی سے آپ کواندازہ ہوگیا ہوگا کہ گدھے کس طرح سے کام میں آرہے ہیں، اب یہ والی تحقیق بھی پڑھ لیں۔۔سائنسدانوں نے کسی فارم میں موجود گائیوں کی نفسیات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وڈیو کال، لاؤڈاسپیکر یا ریکارڈنگ کی بجائے ان سے براہِ راست بات کی جائے تو وہ خوش ہوتی ہیں اور اس پر غور بھی کرتی ہیں۔آسٹریا سے آئی اس تحقیق کے مطابق وڈیو کال سے خود گائے بھی اتنی ہی چڑتی ہیں جتنے ہم بیزار ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ ضروری ہے کہ کسی فارم کے جانوروں سے براہِ راست بات کی جائے۔ ویانا کی یونیورسٹی آف ویٹرنری میڈیسن کی انیکا لینج کہتی ہیں کہ اگر رابطے مصنوعی ہوتے ہیں تو جانوروں پر بھی اثر نہیں کرتے۔پالتو جانوروں میں گائے اپنی ضروریات کے لیے پکارتی اور مختلف آوازیں خارج کرتی ہے۔ یہ مخصوص فری کوئنسی پر اپنے بچوں سے باتیں بھی کرتی ہے۔ اگر انسان گائے کو کوئی نام دیدیں تو وہ اس پر کان دھرتی ہیں۔ اگر ان کا مالک پیار سے بات کرتا ہے تو وہ بہت خوش ہوتی ہیں۔انیکا نے یہ تحقیق فرنٹیئرس ین سائیکولوجی میں شائع کرائی ہے۔ اس تحقیق میں 28 گایوں پر تجربات کیے گئے ہیں۔ اس میں گائے سے براہ راست باتیں کی گئیں اور انہیں ریکارڈنگ سنائی گئیں۔ لیکن جیسے ہی انسانوں نے گائے سے براہِ راست بات کی وہ خوش ہوئیں اور جواب میں اپنی گردن ہلائی جو اس کے دوستانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔اسی طرح گائے کے کان نیچے کی جانب ڈھلکے نظر آئے جو اس کے بہتر موڈ کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح ثابت ہوا کہ گائے سے براہِ راست باتیں کی جائیں تو وہ بہت خوش ہوتی ہیں۔
آج کے دور میں کانا پھوسی کرنا معمولی بات ہے اورکوئی اس کا ایسا برا بھی نہیں مانتا لیکن قرون وسطیٰ میں خواتین کو کانا پھوسی کرنے پر ایسی کڑی سزا ملتی تھی کہ سن کر آج کی خواتین سجدہ شکر بجا لائیں کہ اس دور میں پیدا نہ ہوئیں۔ ایک غیرملکی ویب سائیٹ کی ایک دلچسپ خبر کے مطابق کے مطابق قرون وسطیٰ میں اگر کسی شوہر کو پتا چل جاتا کہ اس کی بیوی دوسری خواتین کے ساتھ مل کر کانا پھوسی کرتی رہی ہے تو وہ اس کے سر پر لوہے کا بنا ایک خول چڑھا دیتا تھا۔ اس خول کو ’’چغل خور عورت کی لگام‘‘(Scold’s Bridle)کہا جاتا تھا۔ اس خول پر سر کی طرف لوہے کی کچھ پٹیاں لگی ہوتی تھیں اور سامنے کی طرف ایک نوکیلاحصہ ہوتا تھا جو عورت کے منہ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ جونہی عورت بولنے کی کوشش کرتی یہ نوکیلا حصہ اس کی زبان میں چبھ جاتا۔قرون وسطیٰ کے شوہر اسی پر اکتفا نہ کرتے بلکہ اس خول کو پیچھے کی طرف گھوڑے کی لگام کی طرح ایک رسی ڈال کر پکڑ لیتے اور خواتین کو جانور کی طرح بازاروں میں گھماتے اور بازار میں موجود لوگوں کو ترغیب دیتے کہ وہ اس عورت کی تضحیک کریں اور اس پر تھوکیں۔ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے وہ عورت کے سر پر چڑھائے گئے خول کے ساتھ ایک گھنٹی بھی باندھ دیا کرتے تھے۔ اسی نوعیت کے خول غلاموں کو قابو کرنے کے لیے صدیوں تک استعمال کیے جاتے رہے۔بیویوں کے لیے اس خول کا استعمال 16صدی عیسوی کے اختتام کے بعد کم ہوتا چلا گیا اور اگلی صدی کے اختتام تک بالکل متروک ہو گیا تاہم غلاموں کے لیے یہ آہنی خول 19ویں صدی تک استعمال ہوتے رہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کتے کو اپنی دْم نظر نہیں آتی جبکہ وہ سب کی دیکھ لیتا ہے۔ کچھ ایسے ہی تو بعض انسان ہوتے ہیں؛ دوسروں کو نصیحتیں کریں گے، مذمتیں کریں گے، مشورے دیں گے، فیصلے سْنائیں گے۔ ایک نہیں ہو پائے گا ان سے تو بس اپنے گریبان میں جھانکنا نہیں ہو پائے گا۔اس لیے اپنے گریبان میں جھانکنا سیکھئے۔۔زندگی آسان ہوجائے گی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔