... loading ...
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعدسیاسی درجہ حرارت میں غیر معمولی شدت آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت تحریک انصاف اور پارلیمان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے درمیان سیاسی اختلافات محض الزام تراشیوں تک ہی محدود نہیں رہے ہیں بلکہ دونوں جانب کی قیادتیں ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لینے بھی لگی ہیں ۔حکومت اور اپوزیشن کی الزام تراشیوں میں جو ’’لب و لہجہ‘‘ اختیار کیا جارہا ہے اور جس طر ح کے’’مفہوم‘‘ بیان کیے جارہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ بد ستور یوں ہی جاری رہا تو پھر ایسا ہے کہ اس سیاسی لڑائی کو’’ریاستی لڑائی ‘‘میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی لڑائی میں ’’ریاستی اداروں‘‘ کو نہ گھسیٹا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک جانب ریاستی اداروں کے متنازع ہونے کا خدشہ ہے تو دوسری جانب اس سے جگ ہنسائی بھی ہورہی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی حریف ایک دوسرے کے خلاف تنقید کرنے کے لیے محتاط رویہ اختیار کریں ۔جہاں تک ملک میں جاری ’’احتسابی عمل‘‘ کا تعلق ہے تو اس کی کامیابی کی پہلی ضمانت تو اس میں ہوگی کہ ملک میں رائج ’’احتسابی نظام ‘‘ غیر جانب دار ہی نہیں بلکہ دیانت دار بھی ہوجبکہ دوسری ضمانت یہ کہ اس نظام کی آنکھیں صرف اور صرف کرپشن پر نظر رکھے اور اس ضمن میں وہ حکومت اور اپو زیشن میںکسی قسم کی کوئی تمیز نہ برتے۔بصورت دیگر پورے کا پوارا نظام اور احتسابی عمل ہی متنازع ہو کر رہ جائے گا جو کہ نہ صرف سیاسی اختلاف رائے کی وجہ بن پائے گابلکہ ’’کرپٹ سیاستدانوں‘‘ کو تحفظ فراہم کرنے کاذریعہ بھی بن سکتا ہے ۔
اس عام تاثر میں بلاشبہ کسی قسم کی کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ہمارے مروجہ سیاسی ڈھانچے میں کبھی بھی حکومت(حکمرانوں) کا احتساب نہیں بلکہ جب وہ حکومت سے چلے جاتے ہیں تو ان کا احتساب شروع ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ماضی کی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو ایک دوسرے کی کرپشن بے نقاب اور ’’ احتساب ‘‘کرتی آئی ہیں اسی طرح آج کی حکمران جماعت پی ٹی آئی حکوت مخالف جماعتوں کی قیادت کی کرپشن بے نقاب کرکے ان کا احتساب کررہی ہے جبکہ کل کوئی نئی حکومت پی ٹی آئی کی قیادت کا احتساب کررہی ہوگی ۔اس طرح تو ملک سے کبھی بھی کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا۔ اس کے لیے تو ضروری ہے ہر ایک کرپٹ عناصر کے لیے احتساب ہر وقت ممکن ہونا چاہئے ۔ جہاں تک احتساب کے نام پر سیاست دانوں کی چیخ و پکار کا تعلق ہے تو اس میں ’’سیاسی مزاج ‘‘کا بھی بڑا عمل دخل ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں ملک میں جتنی بھی بڑی چھوٹی سیاسی جماعتیں ہیں اس میں ’’ون مین شو‘‘یا پھر موروثی قیادت پائی جاتی ہے جو کسی صورت جواب طلبی کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی یہ ان کی تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔ لہذا یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی تقریباًسیاسی جماعتیں ’’کارپوریٹ کمپنی‘‘ کے طرز پرکام کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں’’ سینٹرل کمیٹی ‘‘اور’’ ایگزیکٹیو کمیٹی‘‘جیسی کاروبای اصطلاحیں استعمال کی جاتی ہیں جو کسی بھی کارپویٹ کمپنی کے’’ بورڈ آف گورنرز‘‘سے خاصی مماثلت رکھتی ہیں ۔بہر کیف یہ الگ سے ایک مکمل موضوع ہے جس پر آئندہ تفصیل سے تحریر کیاجائے گا لیکن یہاں صرف اتنا کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کے فقدان کی وجہ سے سیاسی جماعتیں فرد واحد یا پھر مخصوص افراد پر مشتمل ٹولوں کی جاگیر بن کر رہ گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں ایک بھی ایسی جماعت نہیں ہے جسے ’’قومی سیاسی جماعت‘‘کے طور پر پیش کیا جاسکے۔بہر کیف تبدیلی سرکار کے خلاف اپوزیشن کی تمام بڑی چھوٹی جماعتوں نے ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ‘‘ کے نام سے نہ صرف اپنا سیاسی اتحاد تشکیل دے دیا ہے بلکہ اس کی سربراہی جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن کو سونپ کر حکمران جماعت کو پیغام دے دیا ہے کہ اب متحدہ اپوزیشن کا اگلے برس جنوری میں اسلام آباد مارچ یقینی ہوگا ۔دوسری جانب یہ تاثر بھی عام ہے کہ تبدیلی سرکار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کی طرح اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو بھی نیب کے ذریعے دبائو میں لانے کی کوشش کررہی ہے لیکن اس بار معاملہ کچھ اور ہوگااس ضمن میں جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر مولانا کے سیاسی کردار کے ساتھ کسی قسم کا کھیل کھیلا گیا تو پھر اس کھیل میں بہت سے ایسے کرداروں کے نام بھی سامنے آئیں گے جو صاف چھپتے بھی نہیں ہیں اور سامنے آتے بھی نہیں ہیں ۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عوامی مسائل کے حل کی جانب اپنی غیر معمولی توجہ مبذول کرے کیونکہ اس میں ناکامی کی صورت میںتبدیلی سرکار اگلے الیکشن میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے گی اور اسی طرح اپوزیشن کو بھی عوامی مسائل کو ہی بنیاد بناکر سیاست کرنے کی ضرورت ہے یعنی عوامی ایشوز کوقومی سیاست میں بنیادی حیثیت دینے کی ضرورت ہے ۔
جہاں تک ماضی کے حکمرانوں کے احتساب کا معاملہ ہے تو اس کے لیے متعلقہ ا دارے موجود ہیں لہذا اس حوالے سے حکومتی اہلکاروں کوہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مشاہدے میں آرہا ہے کہ بعض حکومتی نمائندوں کی روزی روٹی ہی اس بات پر چل رہی ہے کہ وہ ااحتساب کے نام پرمخالفین کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کرتے ہیں تاکہ ملک کا سیاسی ماحول گرم رہے اور عوامی ایشوز دب کر رہ جائیں ۔بہر کیف احتساب ہونا چاہئے اور بے رحم ہونا چاہئے لیکن غیر جانب درانہ ہونا چاہئے اور اس کے لیے جو طریقہ کار یا ضابطہ کار اپنایا گیا ہے اس کا اطلاق ہر ایک پر ہونا چاہئے نہ کہ کہیں محض وضاحت سے بھی کام چلا لیا جائے اگر ایسا ہے تو پھر احتساب کو متنازع ہونے سے روکنا ممکن نہیں جبکہ قومی سیاست میں ریاست و آئین کے احترام کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭