وجود

... loading ...

وجود

اسکول ،کورونا وائرس اور سندھ حکومت

جمعرات 24 ستمبر 2020 اسکول ،کورونا وائرس اور سندھ حکومت

کیا پاکستانی قوم نے کورونا وائرس کو مکمل طور پرشکست دے دی ہے ؟فی الحال اس سوال کا جواب اثبات میں دینامشکل ہے۔ لیکن یہ بات پورے وثوق اور یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ کورونا وائرس نوے فیصد تک پاکستان میں دم توڑ چکا ہے ۔اس دعویٰ کی تصدیق کورونا وائر س کے دنیا بھر میں پھیلاؤ کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے والے معروف ترین بین الاقوامی ادارے بھی اپنی مختلف رپورٹس میں کرچکے ہیں اور بلاشبہ گزشتہ چند ہفتوں سے ملک بھر میں شروع ہونے والی زبردست تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کے بعد بھی کورونا وائرس کے نئے کیسوں کی تعداد میں مسلسل نمایاں کمی ہونا، انتہائی خوش آئند خبر ہے ۔ اس حوصلہ افزاء صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت کا ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان ایک بالکل راست فیصلہ ہے ۔جسے کسی بھی صورت غلط نہیں قرار دیا جاسکتا ۔مگر دوسری جانب سندھ حکومت ،خاص طور پروزیرتعلیم سندھ جناب سعید غنی کی جانب سے دوسرے مرحلہ میں پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت تک پڑھانے والے سرکاری و نجی اسکولوں کو کھولنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلہ میں بھی اس لحاظ سے کوئی بدنیتی یا سیاست نظر نہیں آتی کہ وزیرتعلیم سندھ سعید غنی نے اپنے اس مشکل فیصلہ میں فقط حد درجہ احتیاط کو مقدم رکھنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ یہاں کم عمر بچوں کی زندگی کے تحفظ کا معاملہ ہے ۔ حالانکہ پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن کی جملہ تنظیمات کے مطالبات کے مطابق بچوں کی پڑھائی کا معاملہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے ۔ لیکن اگر دونوں فریقین میں سے کسی ایک کی رائے کو ترجیح دینے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا تو یقینا کم عمربچوں کی زندگی بچانے کے بارے میں سب سے پہلے فکر کی جائے گی جبکہ اُن کی تعلیم کے معاملہ کو دوسرے درجہ پر رکھا جائے گا اور یہ ہی وہ کام ہے جس کا التزام وزیر تعلیم سندھ نے کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن افسوس وزیرتعلیم سندھ سعید غنی کی جانب سے بچوں کو کورونا وائرس کے ممکنہ حملہ سے بچانے کے لیے کی جانے والی مخلصانہ کوشش کے تانے بانے بھی بعض عاقبت نا اندیش افراد کی جانب سے غیرضروری طو رپر سیاست کے ساتھ جوڑنے کی مذموم سازش کی جارہی ہے اور کہا جارہاہے کہ سندھ حکومت کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کا سہارا لے کر پرائیوٹ اسکولوں کے کاروبار سے وابستہ افراد کا معاشی استحصال کرنا چاہتی ہے۔حیران کن طور پر پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن نے وزیرتعلیم سندھ سعید غنی کے استعفا کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔جبکہ بعض اسکول مالکان نے سندھ حکومت کے احکامات کی خلاف ورزی کا عندیہ دیتے ہوئے اپنے اسکول کھولنے کا اعلان بھی چکے ہیں ۔ یہاں پرائیویٹ اسکول اپنا موازنہ دیگر کاروباری و تجارتی سرگرمیوں سے کرتے ہوئے دلیل تراش رہے ہیں کہ اگر ملک میں ہرقسم کا کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تو پھر پرائیویٹ اسکول کھولنے سے کیوں روکا جارہا ہے؟ پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کی جانب سے تراشے گئے اس جواز میں دو بنیادی نقائص پائے جاتے ہیں۔ اول تو یہ کہ بچوں کو تعلیم دینا بھلے ہی پرائیویٹ اسکول مالکان کے نزدیک ایک کاروبار ہے لیکن ذرابھی عقل و شعور رکھنا والا شخص تعلیم دینے کے فریضہ کو ’’عام کاروبار ‘‘یا ’’تجارت ‘‘ کی فہرست میں شامل نہیں کرسکتا۔نیز اس دلیل میں دوسرا نقص یہ پایا جاتاہے کہ بلاوجہ ہی یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے وزیرتعلیم سندھ ،تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کے خلاف ہیں، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ تعلیمی ادارے کھولنے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں بلکہ انہوں نے تو وفاقی حکومت کی ہدایت کے عین مطابق صوبہ بھر میں کالج اور یونیورسٹی سطح کے تعلیمی ادارے مقررہ وقت پر کھول بھی دیئے ہیں لیکن کم عمر بچوں کو اسکول بھیجنے کی وہ اس لیے مخالفت کررہے ہیں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ کم عمر بچوں سے اُن حفاظتی ہدایات پر عمل نہیں کروایا جاسکتا،جن پر عمل پیرا ہونا کورونا وائرس سے بچنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔
اس لیے اگر احتیاط کو سب سے مقدم رکھتے ہوئے کچھ عرصہ کے لیے مزید تعلیمی اداروں کو بند رکھا جائے تواس میں آخر مضائقہ ہی کیا ہے۔ اُمید ہے کہ اس احتیاطی تدبیر کو ترجیحی طو رپر اختیار کرنے سے والدین کو بھی اطمینان قلب میسر آجائے گا اور وہ چند روز کے بعد اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہوئے ہر طرح کی فکر اور پریشانی سے مکمل طور پر آزاد تصور کریں گے جبکہ اسکول جانے والے معصوم بچوں کے کورونا وائرس کا شکار ہوجانے کے جو تھوڑے بہت امکانات ابھی پائے جاتے ہیں وہ بھی یکسر معدوم ہوجائیں گے۔ جہاں تک بات ہے پرائیویٹ اسکول مالکان کی ہے تو وہ گزشتہ چند دہائیوں میں تعلیم کے نام پر اتنا مال و دولت مختلف حیلوں بہانوں سے بٹور چکے ہیں کہ اس وقت بھی اُن کی تجوریاں منہ تک بھری ہوئی ہی ہوں گی ۔ویسے بھی پرائیویٹ اسکول مالکان کون سا تعلیم کے فروغ کا شوق اور غریب والدین سے ذرہ برابر ہمدردی رکھتے ہیں ۔ بس ذرا! اسکول کھلنے کی دیر ہے یہ سب پرائیویٹ اسکول مالکان مل جل کر والدین کے ہاتھوں میں کتابوں ،کاپیوں اور فیسوں کے وہ وہ مہنگے ترین نسخے تھما دیںگے کہ چند ہفتوں میں ہی یہ پرائیویٹ اسکول انتہائی آسانی کے ساتھ کورونا وائرس کے ایام میں ہونے والے اپنے مالی نقصانات کا ازالہ کرلیں گے اور بے چارے والدین اپنی خالی جیبوں کو ٹٹولتے رہ جائیں گے۔اس لیے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی سے گزارش ہے کہ وہ کسی بھی صورت پرائیویٹ اسکول مالکان کی بلیک میلنگ یا دھمکی میں مت آئیں اور کم عمر بچوں کے اسکول کھولنے کا فیصلہ اُس وقت تک موخر ہی رکھیں ۔ جب تک اس بات کا کامل اطمینان نہ ہوجائے کہ اَب کورونا وائرس ہمارے معصوم بچوںکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ سندھ حکومت پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسوں سے تووالدین کی جاں خلاصی کروانے کی انتظامی سکت نہیں رکھتی لیکن اگر وزیرتعلیم سندھ نے کورونا وائرس سے معصوم بچوں کی قیمتی جانیں بچانے کا راست ’’انتظامی اقدام ‘‘لے ہی لیا ہے تو برائے مہربانی اسے درمیان میں اُدھورا مت چھوڑیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر