وجود

... loading ...

وجود

ٹیلی ویژن خبروں کی المناک موت

جمعه 18 ستمبر 2020 ٹیلی ویژن خبروں کی المناک موت

جاریہ سال نے مجھے دو باتیں بڑی شدت سے یاد دلائیں۔ پہلی بات یہ کہ میں کیوں صحافی بنی؟ اور بعض وقت کیوں میں اس پیشہ کو ترک کرکے دوسرے شعبہ میں داخل ہونے کے بارے میں سوچتی ہوں؟ اگر میرا یہ سوچنا دراصل الجھن کو ظاہر کرتا ہے تو پھر مجھے اس کی وضاحت کرنے دیجیے ۔
میں نے لداخ سے لے کر کیرالا تک تقریباً چار ماہ مسلسل سفر کیا اور اس سفر کا مقصد کووڈ ۔ 19 عالمی وباء کے تعلق سے رپورٹنگ کرنا تھا اور عوام کو کووڈ ۔19 کے انسانیت اور معیشت پر مرتب اثرات سے واقف کروانا تھا۔ ساتھ ہی اس کے طبی اثرات کے بارے میں بھی انہیں بتانا تھا۔ عوام کو یہ بھی واقف کروانا تھا کہ کورونا وائرس کے سماجی اور نفسیاتی کیا اثرات مرتب ہوئے ؟ کورونا وائرس وبا کے آغاز کے بعد سے میں نے تقریباً 24 ہزار کلو میٹر کا سفر کیا اور ایک کہنہ مشق نامہ نگار کی حیثیت سے فیلڈ ورک کو ترجیح دی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ مجھے بھوکے رہنا پڑا یہاں تک کہ قیام کے لیے جگہ تک نہیں ملی اور میں نے اپنا سفر جاری رکھا، بھوک، پیاس کو نظرانداز کیا۔ پچھلے 20 برسوں کے دوران پہلی مرتبہ مجھے اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے کئی دوستوں کی طرح ٹیلی ویژن میں میرے آخری برسوں کے دوران ایک پرائم ٹائم اینکر کی حیثیت سے میں اکتا گئی، تھک سی گئی اور صاف طور پر یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں نے خود کو ذہنی و جسمانی طور پر توانا محسوس نہیں کیا، میری توانائی کہیں گم ہوچکی تھی اور میں اکتاہٹ کا شکار تھی اور جب عالمی وبا سے متعلق میری رپورٹنگ نے بعض سوالات اٹھائے کہ آیا یہ برکھا 2.0 ہے لیکن میں نے اس سوال کا فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ برکھا 1.0 ہے جس نے اپنا اصل مقصد فراموش کردیا تھا اور جب میں میدان میں نکل پڑی تب مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ میں دوبارہ توانائی سے بھرپور ہوگئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایسے بدترین خاطی بھی اسٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے تھے جو کورونا وائرس کے باعث پھیلی وبا کو بھی ہندو ۔ مسلم رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف تھے ۔
جہاں تک اس عالمی وباء کی رپورٹنگ اور اس سے عوام کو واقف کروانے کا سوال ہے یہ کام صرف اخبارات کے نامہ نگار، مقامی اسٹنگرز (محلہ واری و حلقہ واری سطح پر کام کرنے والے رپورٹرز) بعض انتہائی بہادر فوٹو گرافرز (فوٹو جرنلسٹس) اور کچھ ڈیجیٹل صحافیوں نے لوگوں کو کورونا وائرس وبا، اس سے بیمار ہونے والوں اور پھر صحت پانے والوں یا پھر اس وبا کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کے بارے میں واقف کروا رہے تھے جبکہ ٹی وی پر صرف ٹاک شوز دکھائے جارہے تھے اور لوگوں کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر بھرا جارہا تھا۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے بیج بوئے جارہے تھے اور پھر ایک ایسا مرحلہ آیا جب ڈرامائی طور پر ہمارے ٹی وی چینلز نے ملک کو درپیش تمام سنگین مسائل کو پس پشت ڈالتے ہوئے فلم اسٹار سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کو غیر معمولی کوریج دینا شروع کردیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس سانحہ میں سشانت سنگھ راجپوت کی نہیں بلکہ صحافت کی موت ہوئی ہو۔ میں ٹیلی ویژن نیوز نہیں دیکھتی۔ یہی وجہ ہے مختلف چینلز کی جانب سے جاری کردہ آن لائن تفصیلات کے باعث مجھے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ مجھے سشانت سنگھ کی موت اور اس کی وجوہات کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں۔ میں نے ممبئی کے ایک تھراپسٹ سوزان واکر سے انٹرویو لیا تھا جس نے سشانت سنگھ راجپوت کا علاج کیا تھا اور ان تک میری رسائی دراصل پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران ہوئی اور ان سے ملاقات کروانے میں ہمارے ایک ساتھی کا اہم کردار رہا۔ سوزان واکر نے جس انداز میں سشانت سنگھ واقعہ کا جائزہ لیا، اسے نشر کرنا میرے لئے ایک پیچیدہ فیصلہ تھا کیونکہ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ مریض کی رازداری کا انکشاف کررہی تھی اور مریض سے یہ ایک طرح سے عہد شکنی تھی۔ جب سوزان نے مجھے یہ بتایا کہ راجپوت ایک نفسیاتی طور پر مریض تھا۔ میں نے بالآخر ان کے بیان کو نشر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ خود انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ میڈیا جس انداز میں اس مسئلہ کو اُچھال رہا ہے یا اس کا تماشا بنائے ہوئے ہے، اس سے مزید زندگیاں خطرے میں پڑسکتی ہیں۔ یہ دراصل میڈیا کی زہریلی مہم ہے ۔ ایسے میں اپنا منہ کھولنا اور کچھ بولنا وہ اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ بعد میں میں زیادہ تر اس موضوع سے کئی وجوہات کے باعث دور رہی۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ کورونا وائرس وباء کے اس دور میں معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور چین کے ساتھ تباہ کن صورتحال سامنے آئی۔ ان حالات میں اسے ایک ترجیحی خبر نہیں ہونا چاہئے ۔
ویسے بھی اس واقعہ کو لے کر جارحیت، عورت سے نفرت اور افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم تھا اور لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے تھے جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ مختلف اسٹوڈیوز کے لیے واٹس اپ پر کی جانے والی چے ٹِنگ کا افشاء کیا گیا اور فریقین نے اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لیے افشاء کردہ متن کا استعمال کیا۔ یہاں تک کہ خود ساختہ روشن خیال ٹی وی چینلز نے جن کے اینکرز ہر روز ٹوئٹ کرتے یا بتاتے تھے کہ وہ کس طرح اس اسٹوری یا کہانی سے بالاتر ہیں اور کیسے انہوں نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اس واقعہ کے کوریج میں اپنا وقت گزارا کسی نے بھی اخلاقیات کا دامن نہیں تھاما اور نجی گفتگو کو برسر عام کردیا۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ جند صحافیوں نے ان واٹس اپ پیامات اور چے ٹِنگ کو اپنے پروگرامز میں جگہ دی تھی وہ بھی اپنی چے ٹِنگ کی تفصیلات منظر عام پر لانے کے لیے تیار نہیں رہیں گے ۔ نہیں جانتی کہ آیا راجپوت نے خودکشی کی یا اس کا قتل ہوا ہے ۔ میں نے اس کیس میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر نہیں رکھی ہاں بمشکل اس کیس کے ہیروز کے نام جانتی ہوں اور یقینا مجھے امید ہے کہ خاطی کو سزا ملے گی۔ لیکن جس انداز میں اس مسئلہ کو اٹھایا گیا ہے اور اس پر بحث کی جارہی ہے وہ بہت خطرناک ہے ۔ آج ہم کئی گھنٹے لوگوں کی نجی زندگیوں کے بارے میں جاننے ، ان کے رشتے ٹوٹنے ، بکھیرنے کے واقعات دیکھتے ہوئے اور ان کے رشتوں میں آرہی دراڑوں سے متعلق تفصیلات جاننے میں گزاررہے ہیں۔ ہم بڑی دلچسپی سے ایک ایسا ڈراما دیکھ رہے ہیں جہاں گرل فرینڈز اور والدین کے درمیان مقابلہ جاری ہے ۔ میں جہاں بھی جاتی ہوں لوگ اس بات کی شکایت کررہے ہیں کہ جو ٹیلی ویژن پر بتایا جارہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا کی یہ جو حالت ہوئی اس کے لیے اور سشانت سنگھ راجپوت کی زندگی کا جو چراغ گل ہوا ہے اس کے لئے کون ذمہ دار ہیں؟ اور میڈیا کے ساتھ ساتھ سشانت سنگھ راجپوت کو کس نے خودکشی پر اُکسایا ہے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مریم نواز کا مصافحہ! وجود هفته 11 جنوری 2025
مریم نواز کا مصافحہ!

ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ وجود هفته 11 جنوری 2025
ڈونلڈ ٹرمپ کا ارادہ اور گرین لینڈ

جمہور اور جمہوریت وجود هفته 11 جنوری 2025
جمہور اور جمہوریت

خود کو بدلیں! وجود جمعه 10 جنوری 2025
خود کو بدلیں!

امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں بے چینی وجود جمعه 10 جنوری 2025
امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں بے چینی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر