... loading ...
بے حیا انسان تجھے شرم آنی چاہیئے یہ کہتے ہوئے وہ لڑکی کسی زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی اور دو تین تھپڑ اس آدمی کے لگا دیئے۔ وہ لڑکی سندھی لہجے میں بس میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے پھٹکار زدہ چہرے والے شخص کو صلواتیں سنا رہی تھی۔ وہ ہذیانی انداز میں چلا رہی تھی کہ جب سے اس بس میں سوار ہوئی ہے پچھلی سیٹ پر بیٹھا وہ شخص ہاتھ بڑھا کر اس کے بدن کے مختلف حصوں کو چھو رہا ہے۔ میں بہت دیر سے سکڑ سمٹ کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہوں پر تجھے شرم کیوں نہیں آرہی۔۔ وہ روہانسی ہو چکی تھی۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم گورنمنٹ ڈگری کالج گلشن اقبال میں فرسٹ ایئر کے طالب علم تھے۔ اسٹیل ٹائون سے اسٹیل ملز کی بسیں اور وینزملازمین کے بچوں کو روزانہ تعلیمی اداروں پر پک اینڈ ڈراپ دیتی تھیں۔ اس روز مجھے کالج میں خاصی دیر ہو گئی اور میری وین دیر تلک انتظار کے بعد ہمیں لیے بغیر رخصت ہو گئی۔ اسٹیل ٹائن شہر محبوباں سے خاصہ دور تھا اور تین بسیں تبدیل کرنا میری مجبوری تھی۔ نیپا چورنگی پر پل تعمیر نہیں ہوا تھا اور ڈی سیون نامی مزدہ بس قائد آباد تک جاتی تھی۔ نیپا چورنگی پہنچ کر میں اس بس میں سوار ہوا۔ تیسری بس مجھے قائد آباد سے تبدیل کرنا تھی۔ یہ واقعہ ملیر پل سے پہلے پیش آیا جب اس لڑکی نے پلٹ کر اس آدمی پر وار کیا۔ میں آخری سیٹ پر بیٹھا تھا اور بس میں زیادہ رش نہ ہونے کے باعث سامنے کا منظر واضح تھا۔ خواتین کے کمپارٹمنٹ کے پیچھے والی سیٹ پر وہ آدمی کھڑکی کی جانب بیٹھا تھا۔ وہ شخص سیٹ پر اپنا دایاں بازہ ٹکائے سونے کی اداکاری کر رہا تھا اور الٹا ہاتھ بائیں جانب سے آگے بڑھا کر بے ہودگی میں مصروف رہا ہوگا۔ اس انداز میں بیٹھنے کے باعث اطراف موجود لوگ اندازہ کرنے سے قاصر تھے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔
دیسی رسم و رواج کی پابند لڑکی پہلے تو شرم کے باعث جھیلتی اور بچنے کی کوشش کرتی رہی اور آخر تنگ آمد بجنگ آمد کا منظر سب کے سامنے تھا۔ میرا خیال یہ تھا کہ اب اس لڑکی کہ کئی بھائی نمودار ہوں گے اور اس شخص کی درگت بنا ڈالیں گے پر صورتحال مختلف رہی۔ لوگوں میں چہ میگوئیاں تو ہوئیں پر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس شخص کو شرمندہ ہی کر دیں۔بس میں کوئی اور اسٹوڈنٹ سوار نہیں تھا۔ میں حیرانی سے لوگوں کے رویئے کو دیکھتے سوچ رہا تھا کہ اگر یہ واقعہ کسی تعلیمی ادارے کے باہر بیش آتا تو طلبہ ایسا سبق سکھاتے کہ دیکھنے والے بھی زندگی بھر ایسی حرکت کا سوچنے کی ہمت نہ کرتے۔ جب لوگوں کی جانب سے خاص رد عمل سامنے نہیں آیا تو وہ شخص جو پہلے خوفزدہ تھا اب شیر ہو گیا۔ جھوٹا الزام لگاتی ہے مجھ پر اور اگر واقعی میں ایسا کر رہا تھا تو پہلے کیوں نہ بولی بڑی شریف زادی بن رہی ہے۔ اس شخص کے تبدیل ہوتے اس انداز پر میرا خون کھول اٹھا کیونکہ واضح تھا کہ وہ شخص بے حیا ہونے کے ساتھ مکار بھی ہے۔ میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا اور عمر میں وہ شخص مجھ سے بڑا اور قد آور ہونے کے ساتھ مضبوط ڈیل ڈول کا مالک تھا۔ زمانہ طالب علمی میں اچھا اسپورٹس مین تھا اور ہفتہ میں چار دن مارشل آرٹس کی کلاس لینے کے علاوہ اکثر اوقات پاکستان اسٹیل باکسنگ کلب بھی چلا جاتا تھا۔ جہاں کوچ پاکستان اسٹیل ملز سے وابسطہ باکسرز کو تربیت دے رہے ہوتے تھے۔ اپنے مارشل آرٹس کے استاد نجم مغل کے ساتھ وہاں باکسنگ کی پریکٹس بھی کر لیا کرتا تھا۔ میں اندازہ کر چکا تھا کہ مقابلہ برابری کا نہیں ہے۔ سلگتی کنپٹیوں کے باوجود چہرے پر غصے کا تاثر دیئے بغیر میں اپنی جگہ سے اٹھا اور یہ الفاظ کہتے ہوئے ، ارے کوئی بات نہیں آپ میری جگہ پر آجائیں، میں اس شخص کے اس قدر قریب ہو گیا کہ وہ میری رینج میں آجائے۔ میرے انداز کو جب تک وہ سمجھ پاتا اس وقت تک میرے ہاتھ مشینی انداز میں کام کرنے لگے تھے۔ میں جانتا تھا کہ میرے پاس چھ یا سات سیکنڈز کا وقت ہے اور اس کے بعد لوگ چھڑانے کے چکر میں مجھے روک لیں گے اور اگر میری اسپیڈ اور قوت میں کمی رہی تو یہ شخص مجھ پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ آن کی آن میں باکسنگ کے فیس کٹ اور ہک پنچز کا اندھا دھند استعمال کر چکا تھا اور جب لوگوں نے مجھے پکڑا تو پیچھے ہٹتے ہوئے اس کے سینے پر پڑنے والی میری فرنٹ کک رہی سہی کسر پوری کر چکی تھی۔حیرت کی بات یہ تھی کہ مسافر مجھے ہی ٹوک رہے تھے کہ کیوں پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑاتے ہو۔ ایک باریش نوجوان نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو جب اس لڑکی کے ساتھ سفر کرنے والا شخص کچھ نہیں کہہ رہا تو تمھیں کیا ضرورت ہے۔ اس لڑکی کے ساتھ سفر کرنے والا نحیف و نزار بوڑھا شخص خوفزدہ کھڑا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ شخص یا تو اس لڑکی کا محلہ دار ہے یا دفتر میں ساتھ کام کرنے والا کوئی ساتھی کیونکہ اگر باپ یا قریبی رشتہ دارہوتا تو اپنی بزرگی و کمزوری بھول کر چلاتا تو سہی۔ میرا دل نہیں بھرا تھا اور میں چاہتا تھا کہ وہ شخص قائدآباد پر اترے جہاں پر میرے دوستوں کی بک شاپ اور ہوٹل تھے اور مارکیٹ یونین کے صدر بھی میرے دوست کے بڑے بھائی تھے۔ میں اس شخص کو مزید سبق سکھانے کے بعد پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا پر اس کی خوش قسمتی کہ قائد آباد سے تھوڑا پہلے ہی اسے بس سے اتار دیا گیا۔
ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے جاننے والوں کی بیٹی کے ساتھ پیش آیا۔ وہ کراچی ملیر کینٹ میں واقع اپنے کالج جا رہی تھی۔ ان دنوں ملیر کینٹ کے لیے کوسٹرز چلا کرتی تھیں۔ اس کے پیچھے بیٹھے نوجوان لڑکے نے اس سے زبردستی نمبر مانگنے کی کوشش کی۔ لڑکی کے منع کرنے کے باوجود وہ تنگ کرنے سے باز نہ آیا تو اس لڑکی نے پلٹ کر اس نوجوان کے منہ پر چانٹا رسید کر دیا۔ اس لڑکی کے مطابق جب کسی نے مداخلت نہ کی تو وہ مسافروں پر غصے میں چلائی کہ تمھاری ماں بہنیں بھی اسی طرح گھر سے پڑھنے نکلتی ہوں گی پر تم سب بے غیرت ہو جائو چوڑیاں پہن لو۔ اس اثنا میں ملیر کینٹ کالج کا اسٹاپ آگیا اور وہ چلاتی اور لوگوں کو غیرت دلاتی کوسٹر سے اتر گئی۔ بقول اس لڑکی کے اسے اس بات کا شدت سے افسوس تھا کہ کسی نے اس لڑکے کو کچھ نہیں کہا بہرحال کچھ دیر بعد اسے پرنسپل روم میں حاضری کا حکم ہوا جہاں ایک بارعب شخصیت کا مالک شخص موجود تھا۔ پرنسپل سے اجازت کے ساتھ وہ شخص اس لڑکی کو باہر موجود کار تک لایا جس میں وہی نوجوان موجود تھا۔ اس نوجوان نے پیروں کو ہاتھ لگا کر نہ صرف معافی مانگی بلکہ اسے بہن تسلیم کیا تو گلو خلاصی ہوئی۔ بقول اس لڑکی کے اس نوجوان کا منہ سوجا ہوا تھا اور خون بھی بہہ رہا تھا۔ اب یہ تو اس لڑکی کی خوش قسمتی تھی کہ اس کا کالج ایک فوجی علاقے میں تھا تو اسے فوری انصاف میسر آگیا۔ یہاں مجھے بیرون ملک مقیم اپنی اسکول میں سینیئر اس لڑکی کی گفتگو بھی یاد آرہی ہے جو اس نے کچھ عرصہ پہلے فون پر مجھ سے کی تھی۔ صدام میں وطن واپس آنا چاہتی ہوں پر کیا کروں میری دو بیٹیاں ہیں جن کی عمریں خاصی کم ہیں۔ وہ ملک میں پے درپے بچوں سے زیادتی کے واقعات پر شدید نالاں تھی۔ اس نے گفتگو کے دوران اپنے بچپن کے واقعہ کا زکر کیا کہ کس طرح اس کے دو سگے چچائوں نے اس سے زیادتی کی کوشش کی پر ماں کے بروقت پہنچنے پر وہ بچ گئی۔ یہاں یہ پہلو قابل غور ہے کہ اس کی ماں نے اسے سمجھایا تھا کہ وہ یہ بات اپنے والد کو بھی نہ بتائے ورنہ خاندان میں فسادہو جائے گا۔ ہمارے معاشرے کا یہ سنگین پہلو ہے کہ مائیں ہی بچیوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر دیتی ہیں جس باعث ایسے شیطان صفت لوگوں کو مزید شہہ ملتی ہے۔ حال ہی میں لاھور میں پیش آنے والا درندگی کا واقعہ معاشرے کی تباہ حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شیطان سے بدتر ان درندوں نے بنت حوا کے ناتواں بلکتے معصوموں تک کا لحاظ نہ کیا۔ ظاھر ہے کہ جہاں جزا و سزا کا عمل اس قدر کمزور ہو کہ گنہگار با آسانی بچ نکلیں تو ایسے واقعات ہونا معمولی بات ہے۔ اس پر طرہ سی سی پی او صاحب کا بیان سول سپیریئر سروسز کے معیار سلیکشن پر سوالیہ نشان ہے۔ کاش کے ارباب اختیار یہ احساس کر پائیں کہ ان کی طرح ہر کوئی مسلح سیکیورٹی گارڈز رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور ڈریں اس
رب کی لاٹھی بے آوازہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔