... loading ...
خلافت عثمانیہ کا آخری گورنر مدینہ منورہ اور کمانڈر حجاز عمر فخر الدین پاشا المعروف فخری پاشا، خلافت عثمانیہ کی جانب سے مدینہ منورہ کا آخری کمانڈر اور گورنر مدینہ منورہ، جسے انگریزوں نے ترکی کا شیر اور مدینہ منورہ کا محافظ کہا اور عرب صحراء کے بدوئوں نے اسے ’’نمر الصحراء ‘‘یعنی صحراء کے چیتے کے لقب سے نوازا۔ فخری پاشا 1868ء میں موجودہ بلغاریا کے علاقے میں دریائے ڈینوب کے کنارے واقع ایک قصبے روسے Russeمیں پیدا ہوئے ان کے والد کا نام محمود ناہید بے اور والدہ کا نام فاطمہ عدلی ہنیم تھا۔1878ء میں روس کی جنگ کے دوران ان کا خاندان ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں ہجرت کرکے آن بسا تھا۔یہاں پر فخری پاشا نے عثمانوی ملٹری اکیڈمی میں داخلہ لے کر عسکری تربیت حاصل کی اس کے ساتھ ساتھ وہ فرانسیسی زبان اور فوٹوگرافی کا فن بھی سیکھتے رہے۔1888ء میں انہوں نے عثمانوی ملٹری کالج سے گریجوئشن کیا اور تین برس بعد اسٹاف کالج سے کیپٹن کے عہدے پر ترقی پائی۔
جس وقت 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو عمر فخر الدین پاشا موصل میں تعینات چوتھی عثمانوی فوج میں کرنل کے عہدے پر ترقی کرچکے تھے۔یہاں انہوں نے آرمینیا کے عیسائی جنگجوئوں کے خلاف موثر عسکری کارروائیوں میں حصہ لیا۔اس سے پہلے 1911-12ء میں فخر الدین پاشا کو ترک فوج کے دیگر آفسران کے ساتھ لیبیا بھیجا گیا تھاجہاں انہوں نے اطالوی افواج کے خلاف شاندار معرکے لڑے۔جس وقت بلقان کی جنگ کا آغاز ہوا تو انہیں گیلی پولی میں ترک فوج کے 31ویں ڈویژن کی کمان سونپ دی گئی۔ان کے فوجی ڈویژن نے اس معرکے میں بلغاریوں سے ایڈائرنEdirne کا اہم علاقہ واپس لینے میں کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ 22جولائی 1913ء کو جب انور پاشا کی فوج اس علاقے میں داخل ہورہی تھی تو اس وقت عمر فخر الدین پاشا بھی ان کے ہمرکاب تھے۔ 1914ء کو فخری پاشا کو بریگیڈئر کے عہدے پر ترقی دے کر موصل (شمالی عراق) میں ترک فوج کا کمانڈر بنا دیا گیا لیکن یہاں ان کا قیام مختصر رہا۔بعد میں 12نومبر 1914ء کو انہیں جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور شام کے علاقے حلب میں تعینات چوتھی ترک فوج کا ڈپٹی کمانڈر مقرر کیا گیا۔23مئی 1916ء میں انہیں حجاز مقدس کی حفاظت کا فریضہ سونپا گیایہ وہ وقت تھا جب ترک خلافت عثمانیہ کے خلاف انگریز جنگی میدان میں تیزی کے ساتھ کامیابیاں حاصل کررہے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں حجاز مقدس کا گورنر ہی دراصل گورنر مدینہ منورہ کہلاتا تھا۔
31مئی 1916ء کو یہ عاشق رسول ﷺ ترک گورنر عمر فخر الدین پاشا المعروف فخری پاشا عجیب سرشاری کی حالت میں مدینہ منورہ شریف میں داخل ہوتا ہے۔ جدید عرب مورخین کے مطابق ترکوں کو رسول پاک ﷺ سے جو عشق ہے عمر فخرالدین پاشا اس کا تاریخ میں ایک واضح نشان ہے جو کبھی نہ مٹایا جاسکے گا۔ مدینہ منورہ شریف پہنچنے کے روز اول سے لیکر فراق کی آخری گھڑی تک جو تقریبا دوسالوں پر محیط ہے فخری پاشا نے ایک دن بھی زیارت روضہ رسول مقبول ﷺ کا ناغہ نہ کیا ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا جب وہ حبیب پاک ﷺ کے روضہ شریف کے سامنے کھڑا ہوکر آہ بکا نہ کرتے ہوں۔ ان کا معمول تھا کہ ہر روز صبح کو وہ اپنی فوجی وردی اتار کر کفن کی مانند سفید رنگ کا لباس زیب تن کرتے اور سر پر سفید ہی رنگ کا عمامہ باندھتے اور روضہ شریف کے حجرے میں داخل ہوکر روضہ مبارک کی دیوارچھوتے اور اس کے اردگرد کی مبارک جگہ کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کیا کرتے تھے۔ اس دوران ان کی آنکھوں سے آنسو کا نذرانہ ایک مسلسل جھڑ ئی کی مانند رواں رہتاجس سے ان کے ہاتھ میں صفائی کرنے والا کپڑا آنسو سے تر ہوجاتا اس کے بعد وہ آنسوئوں سے گیلے اس کپڑے کو ضریح مبارک کے گرد بنی دیوارکی صفائی کے لئے استعمال کرتے (سبحان اللہ)۔جب تک فخری پاشا مدینہ منورہ میں رہے اس معمول میں کبھی تعطل نہ آسکا یہی وجہ ہے کہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شاہد ہی کوئی گھڑی ایسی ہو جس میں فخری پاشا باوضو نہ ہوتے ہوں۔
پہلی جنگ عظیم میں صہیونی سازشوں اور اپنوں کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ شکست سے دوچار ہونے جارہی تھی ۔ آستانہ عالیہ یعنی مرکز خلافت استنبول میں ان سازشوں کی وجہ سے کمزوری کے آثار نمایاں ہوچکے تھے تو دوسری جانب انگریزوں نے شریف حسین مکہ کے ذریعے صحراے عرب میںبغاوت کا اعلان کروایااور اپنے ایجنٹ کرنل لارنس جسے تاریخ لارنس آف عریبیہ کے نام سے جانتی ہے نے حجاز ریلوے لائن کو صحرا میں کئی جگہ سے تباہ کردیا۔حجاز ریلوے لائن کا ایک اسٹیشن شام کے دارالحکومت دمشق میں تھا جبکہ اس کا آخری اسٹیشن مدینہ منورہ میں بنایا گیا تھا۔ حجاز ریلوے لائن کی تنصیب بھی ترکوں کے عشق رسول ﷺکی عجیب داستان ہے جو اس وقت محل بیان نہیں۔ انگریزوں نے جزیرۃ العرب میں ترکوں کے خلاف بغاوت عربوں کے ذریعے کروائی تھی اس لئے فخر الدین پاشا کی عملداری صرف مدینہ منورہ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس حالت میں فخر الدین پاشا کے پاس صرف چند توپیں اور پندرہ ہزارترک فوج تھی جبکہ چاروں طرف صحراء اور باغی عرب قبائل کا سمندر تھا یعنی باہر سے کمک کے تمام راستے مسدود ہوچکے تھے قریب ترین عثمانیوی فوج بھی مدینہ منورہ سے 1300کلو میٹر دور تھی ۔کرنل لارنس اور اس کے مقامی ایجنٹوں نے نہ صرف حجاز ریلوے لائن کو کئی علاقوں میں تباہ کردیا تھا بلکہ ا س زمانے کا سب سے جدید مواصلاتی نظام یعنی ٹیلیگراف کی تاریں بھی کئی جگہ سے کاٹ دی تھیں ۔ یوں فخری پاشا مدینہ منورہ میں اپنی بچی کچی فوج کے ساتھ محصور ہوکر رہ گئے جبکہ دشمن ان سے کئی گنا زیادہ تھا جو ہر گذرتے وقت کے ساتھ انہیں ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم دیتا لیکن فخری پاشا کی جانب سے ایک ہی جواب آتا ’’میری لاش پر سے گذر سکتے ہو تو گذر جائو‘‘۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خلافت عثمانیہ کی صورتحال کمزور سے کمزور تر ہونے لگی۔ ہر جگہ یورپی اتحادی فوجوں کو فتح حاصل ہورہی تھی۔ ان حالات میں دولت عثمانیہ کی جانب سے حکومت کے بڑے نمائندے انور پاشا نے گورنر مدینہ منورہ عمر فخر الدین پاشا کو خط لکھا کہ عسکری حالات کمزور ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ مدینہ منورہ کو انگریز فوج کے اتحادی عربوں کے حوالے کردیا جائے۔ فخری پاشا تک دولت عثمانیہ کا یہ فیصلہ پہنچنا تھا کہ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسکے دل میں کسی نے خنجر اتار دیا ہو۔ اسی حالت میں اس نے انور پاشا کو ایک خط روانہ کیا جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ ’’ہم کیوں مدینہ منورہ سے دستبردار ہوجائیں؟ صرف اس لئے کہ انہوں نے حجاز ریلوے لائن تباہ کردی ہے؟ کیا آپ صرف توپ چلانے والی ایک بیڑی اور چند فوجی یونٹوں سے میری مدد نہیں کرسکتے؟ ۔۔۔ مجھے مہلت دیں میں یقینا عرب قبائل کو سمجھا لوں گا وہ میری بات سنتے ہیں‘‘۔غرض غم والم کی اس ڈوبی ہوئی تحریر میں ایک عثمانوی بہادر کمانڈر کی رمق ابھی پوری طرح جاگ رہی تھی جس کی وجہ سے انور پاشا کو فخری پاشا کی بات ماننا پڑی لیکن وہ عملا اسے کوئی عسکری کمک نہ بھیج سکا۔اسی دوران جزیرہ العرب اور دیگر عرب علاقوں میں عثمانوی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اتحادی فوجیں اسلحے اور عددی لحاظ سے خاصی زیادہ اور ترقی یافتہ تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں شریف حسین مکہ کی سرکردگی میں باغی عرب قبائل کا تعاون بھی حاصل تھا۔ باغی عرب فوج کی قیادت شریف حسین کے بیٹے کر رہے تھے ۔ ترک فوجی بے سروسامانی کی حالت میں بھی ہر جگہ بے جگری سے لڑ رہے تھے لیکن اندرونی سازشوں نے انہیں کمزور کردیا تھا۔ فلسطین، شام اور حجاز کے بہت سے علاقے ان کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے ۔ جس کے نتیجے میں 1918ء میں معاہدہ میندروس عمل میں آیا جو تاریخ اسلام میں سیاہ ترین واقعہ شمار کیا جاتا ہے اس معاہدے کے تحت عثمانوی ترک فوجوں نے ہتھیار ڈال دینے تھے ،یوں پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا ۔ اس معاہدے کی شق نمبر 16کے تحت حجاز، شام، یمن اور عراق میں موجودہ ترک کمانڈروں نے قریب ترین اتحادی فوجی کمانڈر کو اپنا علاقہ سونپ دینا تھا ۔ اس لئے اس معاہدے کے تحت عثمانوی حکومت نے گورنر مدینہ منور فخری پاشا کو بھی یہ مقدس شہر اتحادیوں کے حلیف عربوں کے حوالے کرنے کا حکم روانہ کردیااور اسے فورا علاقہ چھوڑ دینے کا کہہ کر بحیرہ احمر میں انگریز کمانڈر سے رابطہ کرنے کا کہا گیا۔ لیکن عمر فخر الدین پاشا نے اس حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر حکومت عثمانیہ کے بڑے عہدیدار ’’صدر اعظم ‘‘عزت پاشانے روتے ہوئے فخری پاشا کو ایک رسمی خط ارسال کیا جس پر اس کے آنسوئوں کے نشان واضح تھے اس خط میں فخری پاشا کو معاہدے کی پاسداری میں مدینۃ الرسول ﷺ اتحادیوں کے حلیف شریف حسین مکہ کی فوج کے حوالے کرنے کا کہا گیا تھا۔ یہ خط لے کر ترک فوج کا ایک کپتان آفیسر فخری پاشا کے پاس پہنچا جسے فخری پاشا نے اپنے پاس روک لیااور ’’صدر اعظم‘‘ کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی کہ ’’ مدینۃ الرسول ﷺ کا شمار دیگر عام شہروں میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے صرف ’’صدر اعظم‘‘ کی جانب سے اس کی حوالگی کا حکم کافی نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں خلیفہ کو خود حکم دینا پڑے گا‘‘۔ یہ خط اصل میں ایک بہانہ تھا فخری پاشا اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کرنا چاہ رہے تھے تاکہ اس دوران اپنے بچے کچے ترک فوجیوں کے علاوہ مقامی عربوں کو بھی اپنے موقف سے آگاہ کرکے انہیں اتحادیوں کے خلاف مزید مزاحمت کے لئے تیار کیا جاسکے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بہت سے عرب قبائل فخری پاشا کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کے ساتھ ساتھ انہیں شریف حسین مکہ کا قومیت کی بنیاد پر انگریزوں کے ساتھ مل جانا بھی شاق گذر رہا تھا ۔ جبکہ شریف حسین مکہ کی عرب فوج نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کررکھا تھا اور فخری پاشا اندر سے شدید مزاحمت کررہے تھے۔
دوسری جانب عثمانیوی خلافت پر اتحادیوں کی جانب سے معاہدے کی پاسداری اور مدینہ منورہ کو اتحادیوں کے حلیف عربوں کے حوالے کرنے پر زور دیا جانے لگا جس پر مجبور ہوکر خلیفہ نے فخری پاشا کو خودایک حکمنامہ جاری کیا۔ یہ حکمنامہ وزیر عدل ’’حیدر ملا‘‘ کی وساطت سے فخری پاشا کو مدینہ منورہ روانہ کردیا گیا۔ خلیفہ کے حکم نامے کے بعد فخری پاشا کے سامنے تمام دروازے بند ہوچکے تھے ۔ اب کیا وہ اپنے محبوب رسول پاک ﷺ کا مبارک شہر دشمن کے حوالے کردے؟ یقینا نہیں۔۔ اب اس نے خلفیہ کے حکم کو بھی ماننے سے انکار کردیا اور وزیر عدل کو جوابی مراسلہ ارسال کیا کہ ’’ میں ہرگز یہ حکم نہیں مانوں گا، چاہئے یہ حکم خود خلیفہ نے ہی کیوں نہ دیا ہو۔۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محترم خلیفہ المسلمین خود اس وقت اتحادیوں کے اسیر ہوچکے ہیںاوران کے فیصلوں میں ان کا اپنا ارادہ شامل نہیں ہے اس لئے میںان کے اس حکم کو ماننے سے انکار کرتا ہوں‘‘۔۔ مکہ مکرمہ پر شریف حسین مکہ کی عرب فوج نے 1916ء میں قبضہ کرلیا تھا جبکہ 1917ء میں فلسطین ترکوں کے ہاتھوں سے نکل کر برطانیہ اور فرانس کے قبضہ میں جاچکا تھا۔بعض ترک مورخین کے مطابق مدینہ منورہ سے نکل جانے کا پہلا حکم فلسطین میں موجود ترک کمانڈر انور پاشا کی جانب سے دیا گیا تھا جسے فخری پاشا نے رد کردیا تھا جس پر انور پاشا نے اس وقت ایک جونیئر کمانڈر مصطفی کمال پاشا (اتاترک) کو کہا تھا کہ وہ پہلے مدینہ منورہ کی کمانڈ سنبھال لے اور اس کے بعد یہ شہر عرب فوج کے حوالے کردے لیکن کمال پاشا نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا تھا کہ ’’میں نہیں چاہتا کہ میرا نام تاریخ میں ایسے فوجی کے طور پر آئے جس نے مدینہ منورہ دشمن کے حوالے کردیا ہو‘‘۔
اس دوران شریف حسین مکہ کی عرب بدو فوج اس کے تیسرے بیٹے امیر علی کی سرکردگی میں مدینہ منور میں موجود بچے کچے ترک عثمانوی فوجیوں پر حملے کررہی تھی جبکہ ترک فوج عمر فخر الدین پاشا المعروف فخری پاشا کی قیادت میں ان بھیانک ترین حالات میں بھی بے جگری سے لڑ رہے تھے ان کے ساتھ اہل مدینہ کے علاوہ دیگر عرب قبائل کے عرب نوجوان بھی تھے جو شریف حسین مکہ کا انگریزوں کے ساتھ الحاق غداری سمجھتے تھے اور اسے عالم اسلام کے خلاف مغرب کی گھنائونی سازش سے تعبیر کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے یہ تمام عرب قبائل بکھری ہوئی حالت میں انتہائی فرسودہ ہتھیاروں کے حامل تھے ان میں سے ستر فیصد کے پاس پرانی بندوقیں تک نہیں تھیں وہ تلواروں اور تیروں سے انگریز اور ان کے عرب حلیفوں کی جدید فوج اور جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کررہے تھے۔ اسی دوران محاصرہ طویل ہونے کی صورت میں مدینہ منورہ میں قحط کی صورتحال پیدا ہوچکی تھی۔ دوائیوں کی کمی کی وجہ سے ترک زخمی فوجی اور اہل مدینہ انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہوچکے تھے۔ یہ مقدس خطہ تمام دنیا سے کاٹ دیا گیا تھا دشمن سے بھرے ہوئے صحراء کے سمندر میں یہ ایک نقطے کی مانند تھا۔ان حالات میں فخری پاشا نے اپنے تمام فوجی آفسران کو ایک جگہ جمع کیا تاکہ اُن سے ان مخدوش حالات کے حوالے سے مشاورت کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادیوں کے حلیف عربوں کے محاصرے کے حوالے سے مزاحمت کے رجحان کا اندازہ لگایا جاسکے۔ یہ اجتماع نماز ظہر کے وقت مسجد نبوی شریف کے مقدس صحن میں کیا گیا ۔ ترک مورخ اور خان محمد علی لکھتا ہے کہ ’’فخری پاشا اور عثمانوی فوج کے آفسروں نے انتہائی خشوع وخضوع سے نماز ظہر ادا کی اس دوران آنسووں کی نہ ختم ہونے والی لڑی ان آفسروں کی آنکھوں سے جاری تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد کمانڈر فخری پاشا جن کے گرد ایک عثمانوی پرچم لپٹا ہوا تھا منبر پر آئے اور اپنا خطاب شروع کیا، اس خطاب میں انہوں نے الفاظوں سے زیادہ آنسوئوں کو بہایا ، ان کے الفاظ تھے ’’ ہم کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔۔۔ اور نہ ہی مدینہ الرسول ﷺ انگریزوں یا ان کے حلیف عربوں کے حوالے کریں گے۔۔‘‘ وہ منبر سے نیچے اترے اور ایک ایک آفیسر کے پاس جاکر ذاتی طور پر اس کے خیالات سے آگاہی چاہی۔ لیکن یہاں عجیب منظر تھا ، ہر آفیسر حب رسول ﷺمیں ڈوبا ہوا تھا اور مدینہ منورہ کی حرمت اور عظمت پر جان نثار کردینے کے لئے تیار تھا۔ یہ آفسران روضہ شریف سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر کھڑے تھے اور یہ محسوس کر رہے تھے جیسے رسول پاک ﷺ کی روح مبارک ان ہی کے درمیان پھر رہی ہے ان مناظر نے تاریخ میں وہ ان مٹ نقوش چھوڑے جو کبھی مٹائے نہ جاسکیں گے۔ ترک مورخ پروفیسر عبداللطیف طیباوی لکھتے ہیں کہ ’’فخری پاشا اپنے سپاہوں کے ساتھ فوجی انداز میں پریڈ کرتے ہوئے گنبد خضراء کے سامنے کھڑے ہوگئے اور فوجی انداز میں زور سے کہا ’’ اے اللہ کے رسول ﷺ میں کبھی آپ کا روضہ شریف دشمن کے اتحادیوں کے حوالے نہیں کروں گا‘‘ اس کے بعد انہوں نے اپنے سپاہوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’سپاہو! میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نام پر تم سے اپیل کرتا ہوں کہ میرے گواہ رہنا۔ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کے شہر کی حفاظت کی خاطر تمہاری کمان سنبھالی اور دشمن کی طاقت اور تعداد کو خاطر میں لائے بغیر آخری گولی اور آخری سانس تک اس مقدس شہر کی حفاظت کی ہے۔اللہ ہماری حفاظت کرے۔ ترک فوج کے عظیم سپاہو، مجھ سے وعدہ کرو کہ تم عظیم قربانی کے لئے تیار ہو‘‘۔ انہی حالات میں اہل مدینہ فخر الدین پاشا اور اس کے فوجی آفسران کے پاس آئے۔ترک مورخ اورخان محمد علی کے مطابق یہ مدینہ منورہ کے انتہائی پارسا اور بزرگ شہری تھے اہل مدینہ منورہ انہیں اولیا اللہ میں شمار کرتے تھے انہوں نے فخری پاشا کا ماتھا چوم کر کہا ’’انت مدني من الان فصاعدا۔۔ انت من اھل المدینۃ یا سیدی القائد!‘‘ (آج سے آپ مدنی ہیں ۔۔۔ اے ہمارے سردار اور قائد آپ اہل مدینہ میں سے ہیں)۔۔سبحان اللہ۔یہ اعزاز بھی مشرقی یورپ کے ایک خطے بلغاریا میں دریائے ڈینوب کے کنارے واقع قصبے روسے میں پیدا ہونے والے شخص کی قسمت میں لکھا تھا۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود زمینی حقائق تیزی کے ساتھ بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے محاصرے کی طوالت کی وجہ سے مدینہ منورہ میں ایک طرح سے قحط پڑ چکا تھا لوگ خوراک اور دوائوں کی کمی کی وجہ سے مرنے لگے تھے۔ شہر کا دفاع کرتے ہوئے فخری پاشا اور ان کے سینکڑوں فوجی زخمی بھی تھے اسلحے کا ذخیرہ تقریبا ختم ہوچکا تھا ۔اس گئی گذری حالت میں بھی فخری پاشا اور اس کے سپاہیوں نے عثمانیوی انتظامیہ کی جانب سے کمک نہ ملنے کی صورت میں مدینہ منورہ کی حفاظت کے لئے مجاہدین کی طرح لڑنے کامنصوبہ ترتیب دے رکھا تھا اور اس سلسلے میں انہیں صحراء کے عربوں کی خاموش حمایت حاصل تھی۔ انگریزوں کے اتحادی شریف حسین مکہ کے حامی قبائلیوں کے علاوہ دیگر عرب قبائل اس مسئلے کو عرب قومیت کے تناظر میں نہیں بلکہ اسلام اور کفر کی جنگ سمجھ کر لڑنے کے لئے تیار تھے اور یہی جذبہ تھا جس کی بنا پر ’’معاہدہ مینددروس‘‘ کے 72روز بعد تک ان مجاہدین نے صحراء میں بغیر کسی خارجی امداد کے بے سروسامانی کی حالت میں سخت مزاحمت کی۔
ترک حکام کو اس بات کی امید تھی کہ اسلام کے نام پر عرب اور ترک ایک مرتبہ پھر ایک ہوجائیں گے یوں مسلمانوں کے درمیان خونریزی کے امکان ختم ہوجائیں گے اس لئے دیگر ترک حکام کی طرح فخری پاشا نے بھی شریف حسین مکہ سے رابطہ کیا ہوا تھا ۔ستمبر 1918ء کو برٹش وار آفس کو ایک رپورٹ ارسال کی جاتی ہے کہ شریف حسین مکہ ترکوں کے ساتھ اس بات پر اتحاد کرنے کے لئے تیار نظر آرہا ہے کہ اگر جزیرۃ العرب میں اس کی حکومت قائم ہوجائے اور وہ ترک خلیفہ کو اپنا روحانی سرپرست تسلیم کرئے۔ برطانوی فارن آفس نے فورا اس امکان کو ختم کرنے کے لئے اقدامات شروع کردیئے تاکہ عربوں اور ترکوں کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہوسکے اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔دوسری جانب جیسے ہی مدینہ منورہ میں قحط کی صورتحال پیدا ہوئی اور بڑی تعداد میں اہل مدینہ کے ہلاک ہوجانے کے خدشات پیدا ہوئے تو محاصرہ کرنے والی شریف حسین مکہ کی عرب فوج نے مدینہ منورہ کے اندر فخری پاشا کے فوجی آفسروں سے روابط تیزکرنا شروع کردیئے اور انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جانے لگی کہ فخری پاشا کو یہ مقدس شہر ان کے حوالے کرنے کے لئے دبائو ڈالا جائے۔ بصورت دیگر قحط اور دوائوں کی قلت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر شہر کے اندر ہلاکتیں ہوسکتی ہیں۔ انتہائی خراب حالات کے پیش نظر فخری پاشا کے فوجی آفسران مذاکرات کے لئے اس شرط پر تیار ہوئے کہ ان کے قائد کے لئے ہاشمیوں ( شریف حسین مکہ)کی موٹر گاڑھی روانہ کی جائے ، تاکہ انہیں اس میں سوار کراکر شہر سے باہر لایا جاسکے۔
محاصرہ کرنے والی عرب فوج اس مطالبے کو پورا کرنے کے لئے تیار تھی۔فخری پاشا کے آفسران نے انہیں اس بات سے آگاہ کردیا تھا اہل مدینہ کی حالت دیکھ کر فخری پاشا خاموش تھے۔انہوں نے اپنے آفسران کو حکم دیا کہ ان کو لے جانے کے لئے جو گاڑھی منگوائی گئی ہے اسے واپس کردیا جائے یہ کہہ کر وہ مسجد نبوی شریف سے ملحقہ ایک مکان میں منتقل ہوگئے یہ مکان عمر فخر الدین پاشا نے خاص اپنے لئے مختص کررکھا تھا تاکہ وہ روضہ شریف سے زیادہ سے زیادہ قریب رہ سکیں۔ فخری پاشا کے نائب ’’نجیب بک‘‘ اپنے آفسران کے ساتھ اس مکان میں داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر رو پڑے کہ محافظ مدینہ منورہ اور ان کا شیردل زخمی قائد ایک پرانے بستر پر پڑا ہے فخری پاشا ان کی آمد کی غرض جان چکے تھے انہوں نے اپنے آفسران کو کہا ’’تم لوگ جائو ۔۔۔ میں یہیں رہوں گا‘‘ نجیب بک اور ان کے ساتھ دیگر آفسران اس صورتحال سے سخت پریشان تھے وہ سمجھتے تھے اگر فخری پاشا کو یہاں تنہاچھوڑ کر باقی عثمانوی فوج نے سرنڈر کیا تو انگریزوں کے اتحادی عرب قبائل ممکن ہے ان کے ساتھ ان کے شیان شان سلوک نہ کریں گے اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ فخری پاشا کو زبردستی شہر سے باہر نکالا جائے ۔ فیصلہ ہوتے ہی ترک عثمانوی آفسران نے فخری پاشا کو بازوں سے پکڑ کر اٹھا لیا اور باہر لے جانے لگے ۔ترک مورخ اورخان محمد علی لکھتے ہیں کہ ’’فخر الدین پاشا مسلسل حزیان کی کیفیت میںچیختے رہے ’’مجھے روضہ رسول ﷺ سے دور مت کرو۔ مجھے روضہ رسولﷺ سے دور مت کرو‘‘ لیکن ترک فوجی آفسران اپنے قائد کو اس تنہاحالت میں دشمن کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے تھے‘‘۔ یہ 10جنوری 1919ء کا دن تھا۔
11جنوری 1919ء کو عثمانوی فوج نے مسجد نبوی شریف کے سامنے صفیں باندھیں اور پھر باری باری تمام ترک آفسران اور فوجی ایک ایک کرکے روضہ رسول ﷺمیں داخل ہوتے۔۔آہ وبکا کرتے۔۔ دعائیں مانگتے اور باہر نکل آتے یہ سلسلہ آخری فوجی تک جاری رہا۔ عرب مورخ لکھتے ہیں کہ ’’جو ترک فوجی روضہ شریف سے باہر آتا اس کی آنکھیں سرخ ہوتیں اور چہرہ آنسوئوں سے تر۔۔۔ یہ ایسا منظر تھا کہ اہل مدینہ تو اشک بار تھے ہی، محاصرہ کرنے والی عرب فوج کے بدو بھی اپنے آنسو نہ تھام سکے۔ بئر درویش کے مقام پر 456ترک فوجی آفسران اور 9364ترک فوجیوں کو عرب بدو فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
فخر الدین پاشا کو معاہدے کے مطابق محاصرہ کرنے والی عرب بدو فوج کے پاس لایا گیا جہاں پر ان کے لئے ایک الگ خیمہ نصب کیا گیا تھا ۔ بدو فوج نے اس خیمہ کو گھیر رکھا تھا وہ اس اساطیری کردار کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے جس کی بہادری اور عشق رسول ﷺ کے قصے صحراء کی وسعتوں میں بھی شہرت رکھتے تھے۔ اور خان محمد علی لکھتے ہیں کہ بدو فوج نے فخر الدین پاشا کو اپنے درمیان پاکر جوش میں ’’فخر الدین پاشا ۔۔ فخرالدین پاشا۔۔‘‘ کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔
13جنوری 1919ء کو بدو عرب فوج مدینہ منورہ میں داخل ہورہی تھی۔۔۔ دولت عثمانیہ کے ’’معاہدہ میندروس‘‘ یعنی شکست تسلیم کرنے کے 72دن بعد ۔۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسی روز اتحادی فوج استنبول میں داخل ہورہی تھی۔۔۔!! فخر الدین پاشا کو انگریز کمانڈروں نے The Last Knight of Last Caliph (آخری خلیفہ کا آخری جنگجو)کا خطاب دیا ۔ انگریز کے عرب اتحادیوں نے صحرا کے اس شیر کو انگریز کے حوالے کردیا جنہوں نے اسے قاہرہ منتقل کردیاجہاں پر طویل قیام کے بعد فخری پاشا کو ایک جنگی قیدی کے طور پر مالٹا جو اس زمانے کا گوانٹانامو بے تھا منتقل کردیا گیا۔ جہاں پر 30اپریل 1921ء کو فخری پاشا کی قید ختم کردی گئی اور انہیں وہاں سے اٹلی کی بندرگاہ پورٹ ٹارنٹو Port of Tarantoبھیج دیا گیا جہاں سے وہ ترکی چلے گئے۔ترکی میں خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا لیکن اس کے باوجود ترکی کی گرینڈ اسمبلی نے 27اکتوبر 1921ء کو انہیں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ترکی کا سفیر مقرر کرکے روانہ کردیا۔ انہوں نے یہاں کامیاب سفارتکاری سے ترکی کے اندر افغانستان کی جنگ آزادی کی حمایت کے لئے اہم کردار ادا کیافخری پاشا کا عشق رسول ﷺ اور افغانوں کی رگ حریت یہاں بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔۔ ۔1926ء میں وہ ترکی واپس آگئے انہیں پہلے ملٹری کورٹ کونسل کا ممبر اس کے بعد اس کا چیرمین بنا دیا گیاجہاں سے وہ 1936ء میں ریٹائر ہوئے۔ 22نومبر 1948ء کو فخری پاشا ریل کے ذریعے استنبول سے انقرہ جارہے تھے کہ راستے میں انہیں شدید چوٹ لگی، یوں 80برس کی عمر میں یہ مجاہد اسلام اس عالم فانی سے رخصت ہوا۔