... loading ...
وہ نوجوان چلا رہا تھا اور انصاف کے لیے دہائی دے رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ وہ یتیم ہے اور گھر کا واحد کفیل ہے ۔ گھر میں رہنے والی بوڑھی ماں اور بہنوں کا سہارا ہے ۔ اسے اس کا حق چاہیے ورنہ وہ اور اس کے گھر والے خودکشی پر مجبور ہوں گے ۔ بڑی سی صوفہ نما آرام دہ کرسی پر تمکنت سے براجمان شخص اس کی بات کو غور سے سن رہا تھا۔اس کمرے میں عدالت لگی ہوئی تھی اور مدعی و ملزم دونوں موجود تھے ۔ دونوں جانب سے چند لوگ گواہوں کے طور پر جمع تھے ۔ اس نوجوان کی بات ختم نہ ہوئی تھی کہ دوسری جانب موجود شخص نے چلانا شروع کر دیا کہ یہ نوجوان جھوٹا ہے ۔ میں اسے اس کے حصے کی ساری رقم ادا کر چکا ہوں اور اب یہ محض مجھے بدنام کرنا چاہتا ہے ۔ کرسی پر بیٹھے شخص نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ اسے اپنی بات کہنے کا مکمل حق دیا جائے گا پہلے نوجوان کی بات مکمل ہو جائے ۔ ان کا مسئلہ سننے والے شخص کا انداز ایسا ہی تھا جیسے عدالت میں جج بیجا مداخلت اور شور بڑھنے پر آرڈر،آرڈر کا حکم دیتا ہے ۔ ان کے درمیان جاری مکالمے سے اندازا ہو چکا تھا کہ یہ نوجوان جس شخص پر الزام عائد کر رہا ہے وہ اس کا سگا چچا ہے ۔ نوجوان کی بات مکمل ہونے کے بعد اس کی مخالفت میں چچا نے بات شروع کی اور نوجوان کو غلط ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگا۔
ضلع سانگھڑ کے ایک گائوں میں جاری اس عدالت میں کہیں بھی کالے کوٹ پہنے وکیل دکھائی نہ دیتے تھے ۔دونوں جانب سے ملزم و الزام کنندہ روبرو موجود تھے اور اپنا مسئلہ خود بیان کر رہے تھے ۔جج کے فرائض انجام دیتا وہ شخص بہت غور سے ان کی باتوں کو سن رہا تھا۔ دریں اثناء اس کے حکم پر دونوں جانب سے مختلف کاغذات پیش کیے گئے ۔ آخرکار گواہوں کے بیانات اور تمام ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیا گیا۔فیصلے کے مطابق اس نوجوان کے چچا کو حکم دیا گیا کہ وہ کل ہی اس نوجوان کا حق ادا کردے ۔ ایک ذاتی لیٹر ہیڈ پر فیصلہ لکھ دیا گیا اور دونوں جانب سے اس پر دستخط کیے گئے ۔ دونوں جانب سے ضامن کے طور پر گواہوں نے بھی دستخط کیے اور عدالت برخاست ہو گئی۔یہ فیصلہ سنانے والے سابق ایم این اے محمد خان جونیجو خود تھے اور لیٹر ہیڈ پر ان کا ہی نام لکھا تھا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ فیصلہ ہونے کے بعد دونوں جانب سے کوئی شکایت نہ کی گئی اور فیصلے کو تسلیم کر لیا گیا۔ میں اس نجی کمرۂ عدالت میں بیٹھا یہ سارا منظردیکھ رہا تھا۔ اس کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد باری کے انتظار میں بیٹھے دوسرے لوگ کمرہ عدالت میں آچکے تھے اور وہ شخص اب ان کا کیس سن رہا تھا۔ میں وہاں سے باہر نکلا اور اس نوجوان کی جانب لپکا۔ میں نے اسے روکا اور اس کا نام معلوم کرنے کے ساتھ کیس کی مزید تفصیلات جاننا چاہیں۔ اسداللہ نامی اس نوجوان نے بتایا کہ اس کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور اس کے چچا نے والد کی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے ۔ آپ کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، آپ یہاں کیوں آئے ہیں میں نے سوال کیا؟ اس لیے کہ یہاں ہمیں انصاف مل جائے گا۔ میں مٹیاری کورٹ میں گیا، حیدرآباد کورٹ میں گیا اور میرے حق میں فیصلہ ہوا پر میرے چچا نے مجھے میرا حق نہیں دیا۔ اب ہم محمد خان جونیجو سائیں کے پاس آئے ہیں اور اب میرا چچا میرے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا۔ جب آپ کے چچا نے عدالتوں کے فیصلوں کے باوجود رقم ادا نہیں کی تو پھر آپ کو کیسے یقین ہے کہ اب وہ ادا کر دیں گے ۔ یہ فیصلہ محمد خان صاحب نے کیا ہے اور اس سے پہلے آدھا حصہ بھی انہوں نے ہی دلایا تھا۔ باقی آدھی زمین کے لیے چچا نے وقت مانگا تھا پر سی پیک روٹ کے باعث زمین کی قیمت بڑھنے کے ساتھ چچا کی نیت بدل گئی۔ میرا جائزحق مجھے مل کر رہے گا کیونکہ فیصلہ محمد خان صاحب نے کیا ہے ،اس نے پر یقین انداز میں جواب دیا۔ اس نوجوان سے گفتگو کے بعد میں نے گھوم پھر کر اس اوطاق کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اوطاق خاصی بڑی تھی اور جہاں یہ فیصلے کیے جارہے تھے اس کمرے کے علاوہ دو ہال نما کمرے تھے جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے اور صحن میں بھی لوگ جمع تھے ۔ بھیڑ کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ محمد خان جونیجو پر اعتماد کرتے ہیں۔ مزید کچھ آگے ایک بڑے بر آمدے میں چارپائیاں لگی تھیں جن پر آرام کرتے لوگ چائے کی چسکیاں لیتے محو گفتگو تھے ۔ برآمدے کے سامنے کی جانب دیگوں میں کھانا بن رہا تھا۔مجھے کہیں بھی مسلح افراد یا سیکیورٹی گارڈ نظر نہیں آئے ۔ میں نے واپس اس کمرے کا رخ کیا جہاں ایک اور مقدمہ جاری تھا۔
جرگہ کا جو تاثر مجھ پر قائم تھا وہ یہاں آکر یکسر بدل گیا تھا۔ اب میں محمد خان جونیجو کی جانب متوجہ تھا اور ان کا انداز دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں جانب کے دلائل کو سنجیدگی سے سنتے ، کاغذات اور ثبوتوں کا جائزہ لیتے ، گواہوں کے دلائل سنتے اور پھر فیصلہ سنا دیتے ۔ لوگ اپنا موقف بلا خوف و خطر پیش کر رہے تھے ۔ایک لڑکی کے والدین اسے گھر لے جانا چاہتے تھے ۔ وہ لڑکی کسی ایسے نوجوان کی محبت میں گرفتار ہوکر گھر سے فرار ہوئی تھی جو پہلے سے دو بیویوں کا شوہر تھا۔ لڑکی کی عمر محض چودہ سال تھی اور وہ گھر واپس جانے کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ محمد خان جونیجو اسے شفقت سے سمجھا رہے تھے کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر ہے اس لیے اپنے گھر واپس چلی جائے ۔ لڑکی کے والدین اور رشتہ دار بھی اسے سمجھا رہے تھے پر وہ ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔اس کا کہنا تھا کہ وہ سڑک پر رہ لے گی پر گھر واپس نہیں جائے گی۔ اس کے ساتھ کوئی زبردستی نہ کی گئی بلکہ اسے محمد خان صاحب نے اپنے گھر میں رہنے کی اجازت دیدی۔ لڑکی کے ساتھ رہنے کے لیے اس کی ماں کو روک لیا گیا۔ محمد خان جونیجو نے قریب ہی واقع اپنے گھر میں ان کی رہائش کا انتظام کیا جہاں ان کے اپنے بیوی اور بچے رہتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد میں نے سوال کیا کہ آخر یہ لڑکی اپنے گھر نہیں جائے گی تو کہاں جائے گی۔ جونیجو صاحب نے مسکرا کر جواب دیا کہ چار دن جب یہ اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارے گی تو ممتا کا خود احساس ہوگا اور یہ اپنی مرضی سے اپنے گھر چلی جائے گی۔ مجھے اندازا ہوا کہ خواتین کے لیے ان کا گھر دارالامان کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے بعد ایک اور مقدمے کا فیصلہ ہوا اور ایک فریق نے دوسرے کو اس کی رقم کیش کی صورت ادا کر دی۔ شام ہو چلی تھی اور صبح سے اب تک تقریباً پندرہ سے بیس کیسز نمٹائے جا چکے تھے ۔ گفتگو کے دوران میں نے محمد خان جونیجو سے سوال کیا کہ جب سکھر بنچ کا فیصلہ موجود ہے، اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ بھی موجود ہے کہ جرگوں پر پابندی ہے تو آپ کیسے یہ سب کر رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ جرگہ نہیں ہے بلکہ فیصلہ ہے اور لوگ خود اپنی مرضی سے میرے پاس آتے ہیں۔ کسی کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں کی جاتی۔میری کوئی پرائیویٹ فورس نہیں۔ پورے سندھ سے لوگ آتے ہیں جن میں یہاں بسنے والے ہر زبان، ذات
برادری ، قوم اور مذہب سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ دونوں جانب سے گواہ موجود ہوتے ہیں۔ یہاں آنے والا فیصلے کو تسلیم بھی کرتا ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ عدالتوں کے بجائے لوگ آپ کے پاس آتے ہیں میں نے سوال کیا۔ اکثر لوگ ہاری،کسان، مزدور اور دیہاڑی پر کام کرنے والے ہیں جو غربت کے باعث زیادہ دن کام چھوڑ نہیں سکتے ۔عدالتوں میں مقدمات لمبا عرصہ چلتے ہیں اور پھر وکیلوں کی فیس بھی زیادہ ہے ۔ یہاں فوری فیصلہ ہو جاتا ہے ۔ کسی طرح کی کوئی فیس نہیں لی جاتی اوردور دراز سے آنے والوں کے لیے رہائش، قیام و طعام کا مفت انتظام بھی ہوتا ہے ۔ لوگ اسی پر اعتماد کرتے ہیں جو انصاف کرے اگرمیں انصاف سے فیصلے نہیں کروں گا تو یہاں کوئی بھی نہیں آئے گا۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ ریت روایات کے علاوہ فوری انصاف کا یقین اور شخصیت پر بھروسا اصل وجہ ہے کہ لوگ ان کے پاس انصاف کی غرض سے آتے ہیں اور جو بھی فیصلہ ہو اسے تسلیم کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔