وجود

... loading ...

وجود

چین خلاف امریکا کی جنگی تیاریاں

هفته 29 اگست 2020 چین خلاف امریکا کی جنگی تیاریاں

موجودہ عالمی اور خطے کی صورتحال میں بظاہر جو کچھ نظر آرہا تصویر اس کا کوئی اور ہی رخ پیش کررہی ہے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکا نے چین کے خلاف بھارت کی مدد کے لئے اپنے خطرناک ایٹمی بمبار بی ۔2 اسٹلتھ طیارے ڈپلائے کردیئے ہیں۔ دوسری جانب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تلخی ختم نہیں ہورہی، ہر طرح کے مذاکرات ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لداخ میں موجود چینی فوجی دستے انخلا کے لئے تیار نہیں پیونگ جھیل پر دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان جھڑپ بھی ہوچکی ہے جس میں بھارت کو چینی فوجیوں کے ہاتھوں خاصی ذلت اٹھانا پڑی ہے۔انہی حالات کے پیش نظر امریکہ نے بھارت سے قریب اپنے فوجی اڈے ڈیگو گارسیا میں جوہری ہتھیار لے جانے والے بمبار طیارے پہنچا دیئے ہیں امریکہ کی یہ نیول بیس بھارت کے بہت قریب ہے۔
اس میں شک نہیں کہ امریکہ پہلے سے ہی جنوبی چینی سمندر جسے سائوتھ چائینا سی کہا جاتا ہے کی جانب سے چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے ڈیگو گارسیا کے نیول اڈے پر حالیہ امریکی عسکری سرگرمیوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ اس خطے میں کسی وقت بھی جنگ کے لئے تیار ہے یہی وجہ ہے کہ چین بھارت کے درمیان کسی بھی بڑی جنگ کی شکل میں امریکہ کے یہ جنگی طیارے بھارت کی مدد کو پہنچیں گے۔ ڈیگو گارشیا کے نیول اڈے پر امریکی فضائیہ کے کمانڈر کرنل کرسٹوفر کونان Col Christopher Conan نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ’’ ہم ڈیگو گارسیا جیسے اہم مقام پر اس لئے آئے ہیں تاکہ بحیرہ ہند میں اپنے دوستوں کی مدد کرسکیں۔ یاد رہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس بی۔2اسٹلتھ بمبار طیارہ بیک وقت سات جوہری بم لے جاسکتا ہے اور ایک لڑاکا طیارے کی طرح دشمن سے فضائی جنگ بھی لڑ سکتا ہے جبکہ اسے راڈار بھی دیکھا بھی نہیں جاسکتا۔ ری فیولنگ کے بعد یہ جنگی جہاز مزید 19 ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرسکتے، گیارہ ہزار فٹ کی بلندی سے ہدف کو براہ راست نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اسے دنیا کا خطرناک ترین جنگی طیارہ کہا جاتا ہے۔ ان جنگی جہازوں کے ساتھ ساتھ امریکہ نے دو سو کے قریب فضائیہ کا عملا بھی تعینات کیا ہے ۔امریکی منصوبہ سازوں کے مطابق جیسے ہی بھارت اور چین کے درمیان بڑی جنگ کی فضا پیدا ہوگی تو امریکہ تائیوان اور بھارت کے ساتھ مل کر چین کا مقابلہ کرے گا۔
بھارت کے پاس جیسے ہی فرانسیسی ساختہ رافیل لڑاکا طیارے پہنچے تو چین نے فورا ایل اے سی پر چھتیس لڑاکا طیارے، میزائل اور جوہری ہتھیار ڈپلائے کر دیئے امریکی ماہرین کے مطابق چین بڑی جنگ کی تیاری میں ہے اسی خطرے کے پیش نظر امریکی عسکری دستوں نے بھارتی نیوی کے ساتھ مل کر جنگی گیمز یا دوسرے الفاظ میں جنگی مشقیں شروع کی تھیں۔اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے اپنے چند جنگی بحری جہاز بھی جزائر انڈمان اور نیکوبار جزائر بھیجے ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ایک عسکری اتحاد بنوا چکا ہے یہ سب اہتمام چین کے گرد جنگی گھیرا تنگ کرنے کے سلسلے میں ہے۔
سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کی دجالی صہیونی حکمران اشرافیہ چین کے خلاف اس قدر بوکھلائی ہوئی کیوں ہے؟ عرب حکمرانوں کے ذریعے مشرق وسطی میں اسرائیل کو تسلیم کرانے کی جلدی کیوں ہے؟ جہاںتک خطے کے حوالے سے امریکی بھوکلاہٹ کا تعلق ہے تو ظاہر ہے اسے افغانستان میں ایک بڑی شکست کا منہ دکھنا پڑا ہے جن افغان طالبان کووہ خاطر میں نہیں لاتا تھا انہی سے اسے مذاکرات کرنا پڑے ہیںاس کے علاوہ خطے میں اسے بھارت سے جس کردار کی توقع تھی اس میں بھارت بری طرح ناکام رہا ہے بھارت جانتا تھا کہ افغانستان سے امریکی فرار کے بعد مقبوضہ کشمیر کا محاذ گرم ہوجائے گا اسی لئے جلد بازی میں اس نے کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کے ساتھ ہی وہاں تاریخ کا طویل ترین لاک ڈائون لگا کر کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ چین کے پالیسی ساز اس ساری صورتحال کو توجہ سے دیکھ رہے تھے انہیں معلوم تھا کہ امریکہ کے افغانستان سے پیر اکھڑ چکے ہیںبھارت خطے میں اس کی فرنٹ ریاست کے طور پر ناکام ہوچکا ہے جس مقصد کے لئے مودی کو اقتدار میں لایا گیا تھا وہ مقصد سرے سے ہی ناکام ہوچکا ہے اب اس بدحواسی میں امریکہ اور اسرائیل بھارت کی پشت پناہی کرکے کوئی بھی بڑی مہم جوئی کا آغاز کروا سکتے ہیں تاکہ ایک طرف اس معاملے کی گرد میں افغانستان میں امریکی شکست چھپ سکے تو دوسری طرف اب چین کے بڑھتے ہوئے قدموں کو بھی روکا جاسکے۔امریکہ اور بھارت کی اسی بدحواسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے چین نے پہل کرتے ہوئے ایل اے سی پر قدم بڑھا دیئے۔
دوسری جانب جیسا کہ ہم پہلے بھی کہتے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات کو اب مشرق وسطی سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ۔ امریکہ نے مشرق وسطی کے معاملات کو اسرائیل کے حق میں کرنے کے لئے جس جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے منفی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے اس جلد بازی کا مقصد خلیجی ریاستوں کو اسرائیل کے سامنے سرنگوں کرکے چین کی خطے میں رسائی کو روکنا تھا درحقیقت امریکہ چین کے کے گرد سائوتھ چائینا سی سے لیکر مقبوضہ کشمیر کی جانب سے زمینی محاذ کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتا تھا اس کے بعد مشرق وسطی خصوصا خلیج عرب کی جانب سے چین کے سامنے ایک بڑامورچہ لگانا چاہتا تھا تاکہ افریقہ تک چین کی رسائی کو کمزور کیا جائے اسی مقصد کے تحت سعودی عرب کے اصرار پر عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ عرب امارات امریکہ سے F-35جنگی طیارے بھی خریدنا چاہتا تھا جس پر اسرائیل نے بڑی رکاوٹ ڈال دی ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ ایک طرف عرب حکمران اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنی سیکورٹی کے تمام امور اسرائیل کے سپرد کریں دوسری طرف اس کا اصرار ہے کہ اسرائیل کی نیت پر شک نہ کیا جائے جبکہ وہ خود عرب ریاستوں کے دفاعی معاملات میں ان پر اعتماد کرنے کے لئے تیار نہیں یہی وہ بڑی ہے جس نے اسرائیل اور عرب امارات کے
درمیان ایک بڑے پھڈے کی بنیاد رکھ دی ہے ۔ اس بارے میں تفصیلات آئندہ دی جائیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر