وجود

... loading ...

وجود

مریم نواز کی سیاست

جمعرات 27 اگست 2020 مریم نواز کی سیاست

کیا مریم نواز اور شہباز شریف ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آرا ہے؟ جاہ پسندی رشتوں کو چاٹ لیتی ہے۔ تاریخ کی گواہی تو یہی ہے۔ مغل تاریخ میں کیا کچھ موجود نہیں۔
تیموری روایت کے مطابق بادشاہ کی وفات کے بعد بڑا بیٹا تخت پر جلوہ افروز ہوتا تھا، مگر تخت کی چاہ خاندان میں سازشوں کو پروان چڑھاتی۔ مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر کو اپنے چچا اور ماموں سے جنگ آزما ہونا پڑا ، بابر کا بھائی جہانگیر مرزا ایک خطرہ بن کر مسلط رہا۔ بابر کے بیٹے ہمایوں کو بھی اپنی بادشاہت میں اپنے بھائیوں کی ریشہ دوانیوں کا سامنا رہا۔ بہت دور نہیں تخت دہلی چھوڑ کر ہمایوں یہیں ملتان میں آیا تو کامران مرزا نے اس کی قیام گاہ کو توپ سے اڑانے کی کوشش کی تھی۔ اکبر کو اپنے سوتیلے بھائی سے اُسی لاہور میں جنگ کرنی پڑی تھی جس کے تخت پر شریف، خاندانی حق جتلاتے ہیں۔ اکبر کا سوتیلابھائی مرزا عبدالحکیم پھر عمر بھر قید ہی رہا۔ اکبر کے بیٹے جہانگیر کو تخت نشینی کے بعد اپنے بیٹے خسرو کی بغاوت کا سامنا رہا یہاں تک کہ خسرو کو اندھا کروا کے عمر بھر کے لیے قید کرادیا گیا۔ شاہجہاں کے خلاف اس کے بھائی شہریار اور داور بخش میدان میں اُترے۔ شہریار بھی اندھا کردیا گیا جبکہ شہزادہ داور بخش مارا گیا۔ شاہجہاں کی بادشاہت میں ہی بیٹوں کے درمیان تخت کے حصول کے خونریز معرکے ہوئے۔ اورنگ زیب کے علاوہ کوئی شہزادہ اپنی زندگی محفوظ نہ رکھ سکا۔ اورنگ زیب نے اپنے ہی باپ شاہجہاں کو لال قلعے میں نظر بند کرکے تخت قابو کیا تھا۔ اقتدار کی جنگ میں بھائی اور باپ دونوں ہی کام آئے ہیں۔ تاریخ کی گواہی تو یہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مریم اور شہبازشریف کس راستے پر گامزن ہیں؟
دسترخوانی ٹولے کو چھوڑئیے، چار دہائیوں سے چچوڑی ہوئی ہڈیاں چچورنے کی عادت سے مجبور ہو کریہ ہر رزالت ، رکاکت اور خباثت کو تقدیس کا ورق چڑھادیتا ہے۔یہ ٹولہ پاکستانی سیاست کے نشیب وفراز میں پٹخنیاں دیتے ہوئے توجہ ہٹاتا ہے۔ فرضی دشمن تخلیق کرکے معرکے سجاتا ہے۔ پھر تصوراتی کامیابیاں گھڑ گھڑ کر ہڈیاں پھینکنے والے کو سکندرِ اعظم بناتا ہے۔ صحافت کا یہ چلن ابھی تو بدلنے والا نہیں۔ سو اُنہیں اُن کے حال پر چھوڑ دیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں نواز لیگ کا مستقبل اب سب سے بڑا سوال ہے، کہ یہ مستقبل مریم نواز اور شہبازشریف کی خانہ ساز سیاست سے اندیشوں میں گھر چکا ہے۔ کیا مریم نواز کے سیاسی تیور اور شہباز شریف کے سیاسی بھید بھاؤ الگ الگ راستے لے کر کسی مشترک منزل پر یکجا ہوں گے یا پھر یہ علیحدہ راستے دونوں کو بھی الگ کردیں گے؟وقت کے بہاؤ میں بہتے واقعات تاریخ میں ہی قرار لے پائیں گے۔ مگر ان واقعات کے سرے پکڑنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔ حالیہ دنوں میں سیاست کی گرما گرمی میں نواز شریف کی ملک سے پراسرار رخصتی موضوعِ بحث بنی ہوئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے برادرانِ یوسف تلاش کررہے ہیں۔ اور نوازشریف کی واپسی پر اِ صرار کررہے ہیں۔مگر یہ سب ایک تماشے کی طرح ہے۔
نوازشریف کو ملک سے نکالتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ موت کی دہلیز پر کھڑے بلکہ لیٹے ہیں۔ اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ نواز شریف کو کچھ یقین دہانیوں اور ضمانتوں پر ملک سے رخصت کیا گیا تھا۔بیماری اس رخصتی کا بندوبستی طریقہ تھا۔ اس رخصتی کے بندوبست میں دو اداروں کی’’ عزت‘‘داؤ پر لگائی گئی۔ قانون کو ایک اور طرح سے دھوکا دیا گیااور اُنہیں اجازت کے لیے ایک ذریعے کے طور پر استعمال کیا گیا، دوسری طرف مقدس طبی شعبے کو گھٹیا سیاست کا آلہ بنایا گیا۔ جعلی رپورٹیں بنائی گئیں، نوازشریف کو موت کی دہلیز پر زندگی کی آخری سانسیں گنتے ہوئے باور کرایا گیا۔ اس پورے عمل سے وابستہ ایک ڈاکٹر نے براہِ راست اس خاکسار کے ایک دوست کو بتایا کہ وہ نوازشریف کی طبی صحت کا جائزہ لینے کے لیے جب اُن کے قریب ہوتے تو ٹیلی ویژن پر اُن کے نام سے جو’’ ٹکر‘‘ چل رہے ہوتے، اس کا خود اُنہیں کبھی پتہ نہیں چلا کہ یہ کون جاری کرتا تھا؟گویا یہ سب کچھ طے شدہ مقصداور بندوبست کے تحت ہوا جس میں قانون اور طبی شعبے سے وابستہ لوگوں نے ایک حاشیہ بردار کا کردار ادا کرکے اپنے اپنے شعبوں کے اعتباراور وقار کو دھچکا پہنچایا۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی قریب المرگ صحت کی جعلسازی تخلیق کرنے کے بعدیہ تو خود نوازشریف اور اُن کے اہلِ خاندان کی ضرورت تھی کہ وہ اس جعلسازی کو برقرار رکھتے۔مگر اُنہوں نے خود اس جعلی تصور کو روندنا کیوں ضروری سمجھا؟ایسا کیا ہوا کہ نواز شریف کولندن میں ایک صحت مند آدمی کی طرح زندگی گزارتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ کام اُن کے کسی دشمن نے نہیں، خودمریم نواز نے کیا ۔ نواز شریف کی صحت مند حالت میں تصاویر مریم نواز کی جانب سے جاری کی گئیں۔ اس سے وابستہ دوسرا سوال اس سے بھی کہیں زیادہ اہم ہے کہ نواز شریف کو ایک صحت مند آدمی باور کرانے میں مریم نواز کو دلچسپی کیوں ہے؟
دراصل مریم نواز کی سیاست ابھی اُس مرحلے میں داخل نہیں ہوئی کہ وہ نوازشریف کے بغیر دیرپا بنیادوں پر کھڑی رہ سکے یا اپنی زندگی آپ کرسکے۔ نوازشریف سیاسی منظر پر دکھائی نہ دیں تو آنکھیں مریم کی طرف نہیں شہبازشریف کی جانب اُٹھتی ہیں۔ نواز لیگ کے پا س سیاست دانوں کے نام پر جو انگڑ کھنگڑ ہے وہ تاریخی طور پر کبھی مزاحمتی سیاست سے وابستہ نہیں رہا۔نوازشریف یا مریم نواز کے ارد گرد آخری چند برسوں میں جو قبیلہ مزاحمتی سیاست کی اداکاری کرتا دکھائی دیتا ہے، اُن میں سے اکثر غیر عوامی ہیں۔ انتخابی کھکھیڑ سے پرے یہ ٹولہ مزاحمتی سیاست کے نام پر جو کچھ کررہا ہے وہ بھی واقعتا کوئی مزاحمتی سیاست نہیں، واقعہ یہ ہے کہ اس میں انتقام کی خوبوزیادہ ہے۔ چنانچہ نوازشریف کو سیاسی متن سے نکال کر حاشیے میں دھکیل دینے والے اس ٹولے کو نظر انداز کرکے باقی سیاست دانوں پر دھیان دیں تو یہ انتخابی سیاست کرتے ہیں، اور یہ انتخابی سیاست کے ناگزیر مطالبات کے قیدی ہیں۔ یہ سیاست دان مفاہمتی سیاست کے دہائیوں سے عادی ہیں۔ انہیں مزاحمتی سیاست کی بس اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی انتخابی سیاست کے لیے مددگار ہو۔ یہ طبقہ مریم نواز اور نوازشریف سے کتنا مطمئن ہوگا، اس کا اندازا لگانا دشوار نہیں۔اس میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ مریم نواز اور شہباز شریف دو مختلف دھاروں کی سیاست کررہے ہیں۔ یہ ایک دوسرے کے حریف ہیں، حلیف نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے سیاسی موت کا خطرہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ دونوں اپنے اپنے سیاسی امکانات کی جدوجہد کررہے ہیںاس میں ان کی باہمی کھینچاتانی صاف نظر آتی ہے۔ ان حالات میں یہ مریم نواز کی ضرورت ہے کہ وہ اپنا سیاسی قد بڑھانے تک نوازشریف کی شخصیت سے شہبازشریف کو قابو میں رکھے۔
شہباز شریف کی سیاسی طاقت کے مراکز مختلف ہیں۔ وہ ایک طرف انتخابی سیاست کے ناگزیر تقاضوں میں مفاہمت کے عادی لیگی ارکان پر اپنا اثرورسوخ بڑھا رہے ہیں جنہیں مزاحمتی سیاست سازگار نہیں۔ دوسری طرف وہ رات کی تاریکیوں میں اندھیری ملاقاتوں پر اپنے انحصارکی پرانی عادت کو تازہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ شہبازشریف سیاست میں ’’مفاہمت ‘‘کے اُسی رستے پر چلنے کے عادی ہیں جو شیخ رشید کا راستا ہے۔ شیخ رشید نے اپنی زندگی میں جو سب سے سنجیدہ یا سچی بات کی ہے ، وہ یہی ہے کہ اُن کی اور شہبازشریف کی ’’جماعت‘‘ یکساں ہے۔ اسی ’’جماعت‘‘ سے طاقت لے کر وہ نوازشریف کو ملک سے باہر بھیجنے میں کامیاب ہوئے تھے اور نقد نتیجے کے طور پر مریم نواز کی خاموشی کا اضافی مقصد بھی حاصل کیا تھا۔ شہبازشریف کی یہ’’ جماعت‘‘ اور اس سے لی جانے والی ’’طاقت‘‘ دونوں ہی مریم نواز کی سیاست کے لیے ابھی بہت نقصان دہ ہے۔ مریم نواز کا گروپ یہ چاہتا ہے کہ شہبازشریف کو شیخ رشید کی’’ جماعت‘‘کے سامنے بے دست وپا رکھا جائے۔اُن کو سودے بازی میں کمزور ثابت کیا جائے۔مریم نواز یہ ’’ہدف‘‘ اپنے والد کو داؤ پر لگا کر کامیابی سے حاصل کرچکی ہے۔ مریم نواز کو کم ازکم دوسال ایسے درکار ہوں گے جس میں نوازشریف کی پرچھائیں نون لیگ پر موجود رہے،تاکہ اس عرصے میں وہ اپنی سیاست میں دم خم پیدا کرلے اور خود کو وہاں کھڑی کرنے میں کامیاب ہو جائے جہاں اُنہیں کسی سہارے (نوازشریف ) کی ضرورت نہ پڑے۔ وہ اس سے زیادہ کچھ نہ چاہے گی کہ شیخ رشید اور شہبازشریف کی ’’جماعت ‘‘نوازلیگ کے کردار سے لے کر نوازشریف کے انجام تک جو بھی بات کرنا چاہے وہ شہبازشریف سے نہیں، بلکہ خود اُن سے کرے۔ یہ سیاست ہے اور سیاست کے سینے میں دل اور آنکھ میں حیا نہیں ہوتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر