وجود

... loading ...

وجود

’’شیخ پیر‘‘ خواجہ سرا؟

بدھ 26 اگست 2020 ’’شیخ پیر‘‘ خواجہ سرا؟

دوستو،محققین نے معروف ادیب، ڈرامہ نگار اور شاعر ولیم شیکسپیئر غزلوں کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ یقینی طور پر شیکسپیئر مخنث یعنی خواجہ سراتھے۔ برطانوی میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحقیق کے نتائج آئندہ مہینوں میں شائع ہونے والی کتاب میں پیش کیے جائیں گے۔ محققین نے بتایا ہے کہ شیکسپیئر (براڈ) کی اینی ہی تھوے کے ساتھ 34 سالہ شادی کے دوران کئی مردوں اور خواتین کے ساتھ بھی تعلقات تھے۔ ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، سر اسٹینلی ویلز اور ڈاکٹر پال ایڈمنڈسن نے شیکسپیئر کی 154 غزلوں کا جائزہ لیا جو انہوں نے 1609ء کے ایڈیشن میں جمع کی تھیں۔ ان کے تجزیے کے بعد یہ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ شیکسپیئر کو نوجوانوں میں زیادہ دلچسپی تھی اور اکثر اپنی شاعری میں جن لوگوں کا ذکر کرتے تھے وہ ان سے حقیقی زندگی میں متاثر معلوم ہوتے تھے۔ ڈاکٹر ایڈمنڈسن کا کہنا تھا کہ جس طرح کی جنسی نوعیت کی زبان غزلوں میں بیان کی گئی ہے وہ یقینی طور پر کسی مرد کو لبھانے کے لیے معلوم ہوتی ہے اور اس سے ہمارا یہ شک دور ہوتا ہے کہ شیکسپیئر مخنث (بائی سیکسوئل) تھے۔۔
باباجی نے جب بھی شیکسپیئر کے حوالے سے کوئی بات کی ہمیشہ انہیں ’’ شیخ پیر‘‘ کہا۔۔ اب یہ باباجی کی انگریزی کا مسئلہ سمجھ لیں یا کسی قسم کی کوئی عقیدت۔۔ ہم نے کبھی ان سے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ وہ انگریز ادیب کو شیخ پیر کیوں کہتے ہیں؟؟پاکستان دنیا کے ان چند خوش نصیب ممالک میں شمار ہوتا ہے جن میں ہر سال خواجہ سراؤں کی قومی کانفرنس ہوتی ہے اور ملک بھر کے کھسرے اس میں جوش و خروش کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔یہ پانچ برس پرانی بات ہے آل پاکستان خواجہ سرا کانفرنس میں کھسروں نے چھ فٹ تین انچ کاایک خوبصورت نوجوان دیکھا‘ یہ نوجوان مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا اور کسی بھی زاویے سے خواجہ سرا دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن وہ اس کے باوجود کانفرنس میں سر جھکا کر بیٹھا تھا۔۔خواجہ سراؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کھسرا کھسرے اور غیر کھسرے کو کروڑوں لوگوں میں پہچان لیتا ہے چنانچہ کانفرنس کے معزز اراکین بھی جلد ہی بھانپ گئے یہ اجنبی حقیقتاً اجنبی ہے چنانچہ انہوں نے اس کا گھیراؤ کر لیا۔۔نوجوان نے انہیں کھسرا ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا آخر میں جب ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی باری آ گئی تو وہ شرما کر بولا ’’بھائیو اور بہنو میں جسم نہیں دل کا کھسرا ہوں۔۔
خبریں سنانے والی خاتون نے یہ تشویش ناک خبر دی کہ چمن میں خواجہ سرا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے 5 بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ سننے والے حیران تھے کہ یہ کون سی وبا ہے جو بچوں کو ہلاک کررہی ہے! خاتون نے پہلے تو کھُسرے کی وبا کہا، پھر خیال آیا کہ کھسرا کہنے سے اس مخلوق کی دل آزاری ہوگی، چنانچہ کھسرے کا مہذب ترجمہ کردیا۔۔ خواجہ سرا۔ یہ بات قابلِ تعریف ہے کہ خاتون نیوز ریڈر کو یہ معلوم تھا کہ کھسرے کا متبادل خواجہ سرا ہے ورنہ اب یہ لفظ عام نہیں رہا، زیادہ سے زیادہ ہیجڑا یا مخنث کہہ دیا جاتا ہے جس وبا کا ذکر تھا وہ خسرہ ہے۔ مرد کوئی گالی نہیں نہ ہی اس میں کچھ گھٹیا ہے۔ عورت بھی کوئی گالی نہیں نہ ہی اس میں کچھ گھٹیا ہے پھر کھسرا کیوں گالی اور گھٹیا ہوا، ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ کھسرا لفظ جو کہ ایک جنس کی نمائندگی کرتا ہے کیوں گالی بنا دیا گیا۔ کیوں اسے گھٹیا بنا دیا گیا۔اب جب سے ہمیں انگریزوں کی نئی ریسرچ کا علم ہوا کہ شیکسپیئر خواجہ سرا تھا، یقین کریں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہیں، ہم نے باباجی سے فی الحال اب تک یہ راز آشکار نہیں کیا، ورنہ ہمیں یقین ہے کہ وہ اس غم میں کھانا پینا ہی نہ بھول جائیں، کیوں کہ شیکسپیئر ان کی فیوریٹ شخصیت ہیں۔۔
امیرگھرانوں میں پیداہونے والے ہیجڑے بچے اچھے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔اچھی نوکریاں کرنا شروع کردیتے ہیں۔کاروباریافیشن انڈسٹری میں کہیں نہ کہیں کھپ جاتے ہیں۔ انھیںہمارے ملک میں والدین کی بہتر معاشی حیثیت کی وجہ سے متعدد سماجی مشکلات کاسامنا نہیں کرناپڑتا۔مگرجب اس جنس کاکوئی بچہ غریب یامتوسط گھرانے میں پیداہوتاہے توگھرپر قیامت گزرجاتی ہے۔پہلے توکسی کوکانوں کان خبرنہیں ہونے دی جاتی۔ بچے کوگھرسے باہرنکلنے کی اجازت ہی نہیں ہوتی۔والدین کا رویہ بھی اس کے ساتھ اتنا مشفقانہ نہیں ہوتاجتنا دوسرے بچوں سے روارکھاجاتا ہے۔یہ بچے شفقت پدری سے محروم رہتے ہیں۔جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں، انھیں احساس ہوجاتا ہے کہ وہ عام لڑکوں اورلڑکیوں سے مختلف ہیں۔یہ بچے اکثر کمروں میں محدودہوکررہ جاتے ہیں۔ اس شدت کااحساس کمتری ہوجاتاہے کہ پُراعتماد بات کرنے کی استطاعت سے محروم ہوجاتے ہیں۔گھروالوں کے نامناسب رویہ اور لوگوں کے طعنوں سے تنگ آکر اکثر خواجہ سرا کسی نہ کسی عمرمیں گھرچھوڑنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ اپنے جیسے لوگوں کے گروہوں میں رہناشروع کردیتے ہیں۔ ایک جیسے بدقسمت اورعذاب میں مبتلاگروہ ان کی شناخت بن جاتے ہیں۔اگرکسی خواجہ سراکوپتہ چلتاہے کہ کسی گھرمیں انکاہم جنس بچہ یابچی پیداہواہے توباجماعت گھروں کارخ کرلیتے ہیں۔والدین کوبتاتے ہیں کہ بچہ ان کے حوالے کردیاجائے کیونکہ وہ اس کی پرورش نہیں کرسکتے۔غریب گھرانوں کے افرادتو پہلے ہی ظلم کی چکی میں پِس رہے ہوتے ہیں لہذا قدرت کافیصلہ تسلیم کرتے ہوئے ننھامناسابچہ خواجہ سراؤں کے گرو کے حوالے کردیتے ہیں۔اب اپنے لختِ جگرسے ان کاکوئی تعلق نہیں رہتا۔اکثراوقات تومعصوم بچوں کوعلم ہی نہیں ہوتاکہ وہ کون ہیں،ان کاوالداوروالدہ کون ہیں۔کس شہرمیں پیداہوئے تھے۔
گیبریل گارشیا مارکیز دنیا کا مشہور نوبل انعام یافتہ لکھاری ہے‘ اس نے کسی جگہ لکھا تھا دنیا کا ہر مرد ایک وقت تک نامرد ہوتاہے پھر اس کی زندگی میں کوئی عورت داخل ہوتی ہے اور وہ اسے مرد ہونے کا احساس دلاتی ہے۔۔ہمارا معاشرہ بھی نامردوں کا معاشرہ تھا‘ ہم سب ڈر‘ ڈر کر سہم‘سہم کر زندگی گزار رہے تھے لیکن پھر ہماری معاشرتی زندگی میں عدلیہ اور میڈیا آیا اور اس نے ہمیں مرد بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ۔دل کے یہ کھسرے آنکھ‘ ناک اور کان بند کر کے اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں‘یہ ان لیڈروں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس لوٹ مار پر ان کے ہونٹوں پر شکوے اور شکایت کا کوئی حرف آتا ہے‘یہ لوگ کھسروں کی طرح شرما شرما کر زندگی گزار دیتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہم اگر اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالیں توہمیں کروڑوں کی تعداد میں دل کے کھسرے ملیں گے‘ یہ لوگ پاکستان میں رہتے ہیں‘ پاکستان کا کھاتے ہیں‘ ان کی جیب میں پاکستان کا شناختی کارڈ ہے لیکن یہ لوگ پاکستان کے لٹنے اور برباد ہونے پر خاموش رہتے ہیں اور کوئی ادارہ‘ کوئی عدالت ان کے اس رویے پر ان کا احتساب نہیں کرتی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر