وجود

... loading ...

وجود

کوڑا۔۔۔ کر۔۔کٹ۔۔۔

اتوار 23 اگست 2020 کوڑا۔۔۔ کر۔۔کٹ۔۔۔

دوستو، آج اتوار ہے یعنی چھٹی کا دن، چھٹی والے دن شوہرات زیادہ تر گھر کے کام نمٹانے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اگر کرکٹ میچ آرہا ہوتو ان کی وقت اچھا پاس ہوجاتا ہے، بیگمات اپنے شوہرات کی چھٹی کی مناسبت سے کچن میں اسپیشل ڈشز بناتی ہیں اس طرح خواتین کا ٹائم بھی پاس ہوجاتا ہے۔۔ آج کل پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان دوسرا ٹیسٹ جاری ہے، پہلے ٹیسٹ میں تو شکست کا سامنا کرنا پڑا، پتہ نہیں ہمیں کیوں لگتا ہے کہ اب ٹیسٹ میچز بھی فیصلہ کن ہونے لگے ہیں، ورنہ ہمیں سب سے زیادہ چڑ ٹیسٹ میچز سے تھی، پانچ دن تک مسلسل میچ دیکھو ، رزلٹ یہ نکلتا ہے کہ ٹیسٹ ڈرا ہوگیا۔۔ باباجی بتارہے تھے کہ کرکٹرز چونکہ ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے عادی ہوگئے ہیں اس لئے وہ ٹیسٹ کو بھی اسی انداز سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں ، ٹیسٹ میچز جوکہ تحمل مزاجی ،برداشت اور صبر سے کام لے کر کھیلنے کا نام ہے، آج کل کے کرکٹرز اسے بھی دھواں دھار بیٹنگ کے ذریعے فیصلہ کن بنانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔
1970ء کی دہائی تک کرکٹ کی اپنی ثقافت اور معیار تھے۔ یہ کھیل تماشائیوں کو ذہنی تناؤ اور بلند فشار خون کی بجائے سکون اور آسودگی دیتا تھا۔ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ اکثر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجایا کرتے تھے لیکن اس وقت شاید ’’ہار جیت ‘‘ کچھ زیادہ معنی بھی نہیں رکھتی تھی۔ کرکٹ کو جنگ و جدل کی بجائے ایک نفیس کھیل سمجھا جاتا تھا۔ شائقین کھلاڑیوں کے ہنر، تکنیک اور کھیلنے کے انفرادی سٹائل سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کھلاڑی بھی مہذب، شائستہ اور پرتحمل تھے۔ پیسے اور شہرت کے جنون پر شوق اور سپورٹس مین اسپرٹ حاوی تھا۔ میچ فکسنگ، جوے اور سٹے کا تصور تک نہیں تھا۔ اس وقت تک کرکٹ کمرشلائز نہیں ہوا تھا۔۔کمرشل کرکٹ کا آغاز80 کی دہائی میں آسٹریلیا کے بڑے سرمایہ دارکیری پیکر نے کروایا تھا۔ پہلے پہل آئی سی سی نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی لیکن سرمائے نے اس ادارے کو بھی ہڑپ کرلیا۔ ون ڈے کے بعد اس کھیل کو مزید منافع بخش بنانے کے لئے T-20 کا آغاز کیا گیا۔ پھر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ شروع ہوئے جہاں طوائفوں کی طرح کھلاڑیوں کی بولیاں لگائی جانے لگیں۔ دولت کی ہوس نے سماج کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ کو بھی برباد کر دیا۔ ماضی قریب میں ’’بگ تھری‘‘ کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کھیل دولت کے شکنجے میں جکڑا جاچکا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کو جوئے بازی کے معاملات میں ملوث ثابت ہو جانے کے بعد پانچ سال سات سال اور دس سال کے لئے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کی سزابھگتنا پڑی۔۔
دو پاگل کرکٹ دیکھ رہے تھے۔۔آفریدی نے چھکا مارا توایک پاگل زور سے چلایا۔۔ واہ کیا گول کیا ہے۔۔۔ دوسرا فوری بولا۔۔ ابے بے وقوف گول اسمیں نہیں کرکٹ میں ہوتا ہے۔۔ویسے اب آفریدی کے چھکے تو صرف ٹی وی کے اشتہار میں ہی نظر آتے ہیں۔۔ آفریدی کی بچے ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے، اچانک ایک بچی زور سے چلائی۔۔مما،مما۔۔ جلدی آئیے پپا نے کیا زوردار چھکا مارا ہے۔۔ مما کچن سے چلائیں۔۔ غور سے دیکھو بیٹا وہ شیمپو کا اشتہار ہوگا۔۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ سوفیصد درست ہی ہے کہ آفریدی پاکستانی کرکٹ کے مولانا فضل الرحمان ہیں- جگہ ہو نہ ہو رکھنا ضروری ہوتا ہے- مولانا کو حکومت میں آفریدی کو ٹیم میں-
یک دوست فون پراپنے دوست کوبتارہا تھا۔۔‘‘یار پرسوں ہمارا کرکٹ کا فائنل میچ تھا ، خوب فائٹ ہوئی اور بعد میں بہت لڑائی ہوئی‘‘۔۔ احمدشہزاد کسی دعوت میں گئے، میزبان نے پوچھا کھانا کیسا لگا۔۔ قومی ٹیم کے اوپنر کہنے لگے۔۔‘‘سارا کھانا بہت مزیدار تھا لیکن میٹھا۔۔۔۔ بہت میٹھا تھا‘‘۔۔ یاسر شاہ سے کسی نے پوچھا۔۔بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔۔لیگ اسپنر نے کہا۔۔ یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔۔ پوچھنے والے نے جگت لگائی۔۔اسی لئے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔ آفریدی کو بچپن میں استاد نے پوچھا۔۔ کوئی سے پانچ پھلوں کے نام بتاؤ۔۔ آفریدی بولا۔۔ تین مالٹے دو سیب۔۔قومی ٹیم کے پروفیسر نیوزی لینڈ کی ایک مشہور بیکری گئے۔پوچھا ۔۔ یہاں کیا کیا ملتا ہے۔۔ سیلزمین نے کہا سرجوآپ چاہیں گے مل جائے گا۔۔حفیظ نے کہا۔۔کتے کے کھانے کا کیک ہوگا۔۔سیلزمین بولا۔۔سر یہیں کھائیں گے یا گھر لے جائیں گے۔۔شعیب ملک کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، ان کے پڑوسی نے ایک بار پوچھا۔۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں، گائے مفید ہے یا بکری۔۔ شعیب ملک کہنے لگے۔۔ میرے خیال میں بکری مفید ہے، اس لیے کہ گائے نے ایک بار مجھے ٹکر ماری تھی۔۔عمرگل سے کسی نے پوچھا۔۔خان صاحب کیا جنت میں نسوار ملے گی؟۔۔ شگفتہ مزاج عمرگل بولے۔۔ ہاں ضرور… لیکن اس کو تھوکنے کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔۔نیوزی لینڈ کے دورے میں ٹیم کے کھلاڑی سیروتفریح میں مشغول تھے کہ ۔۔سرفراز کو ایک بھکاری نظرآیا جو ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے بھیک مانگ رہاتھا۔۔ پلے کارڈ پر لکھا تھا میں بہرہ اور گونگا ہوں برائے کرم میری مدد کرو۔۔سرفراز بھکاری کے قریب گیا اور پوچھا۔۔ آپ کب سے گونگے اور بہرے ہیں۔۔بھکاری نے فوری جواب دیا۔۔’’ پیدائشی گونگا اور بہرہ ہوں۔‘‘۔۔سرفراز بھی نرم دل تھے جیب سے دس ڈالر کا نوٹ نکال کر فقیر کو دے دیا۔۔عمادوسیم سے استاد نے کہا۔۔ سب لڑکوں نے دودھ پر دو صفحات کا مضمون لکھا ہے، اور تم نے دو سطر کا۔۔ عماد وسیم نے کہا۔۔ جناب! میں نے خالص دودھ پر مضمون لکھا ہے۔
بیوی نے جب شوہر کوتیارشیار ہوکر باہر جاتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ کرکٹ کا شوقین کھیلنے جارہا ہے، غصے سے بولی۔۔ پھر وہی منحوس کرکٹ اگر تم ایک شام کرکٹ کھیلنے نہ جاؤ تو میں خوشی سے مر جاؤں۔۔شوہر بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔بیگم خدا کے لئے مجھے ایسا لالچ نہ دو۔۔کرکٹ ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا ،اسٹیڈیم کے گیٹ پر ایک لڑکا پاس دکھا کر اندر جانے لگا تو گیٹ کیپر نے کہا ’’یہ تمھارا پاس تو نہیں ہے‘‘۔ لڑکے نے جواب دیا۔’’یہ میرے والد صاحب کا ہے‘‘۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔’’وہ کیوں نہیں آئے؟‘‘۔ لڑکے نے جواب دیا’’وہ بہت مصروف ہیں‘‘۔ گیٹ کیپر نے پوچھا’’وہ کیا کر رہے ہیں‘‘۔ بچے نے جواب دیا ’’اپنا پاس تلاش کر رہے ہیں‘‘۔۔۔ایک قومی کرکٹر ماہرنفسیات کے پاس گیا اور کہنے لگا۔۔ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب مرض میں مبتلا ہوگیا ہوں۔۔ہر وقت سر چکراتا رہتا ہے ۔۔نہ مجھ سے رن بنتے ہیں نہ ہی باولنگ ہوتی ہے۔۔فیلڈنگ کرتے وقت میرا دم گٹھنے لگتاہے، کیچ پکڑتے وقت گیند ہی نظر نہیں آتی۔۔ماہرنفسیات نے پوری بات سن کر انتہائی سنجیدگی سے کہا۔۔آپ ایسا کریں کہ کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیں اس کا بس یہی علاج ہے۔۔کرکٹر غصے سے کہنے لگا۔۔نا ممکن ۔۔میں تو اب قومی ٹیم میں کھیل رہا ہوں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ اسٹیشن تاخیرسے پہنچے ہیں تو پھر آپ ٹرین سے یہ شکایت نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کو لئے بغیر کیوں چلی گئی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر