وجود

... loading ...

وجود

معاہدہ ابراہیم اور اسرائیلی سفیر امریکا

جمعرات 20 اگست 2020 معاہدہ ابراہیم اور اسرائیلی سفیر امریکا

امریکی و برطانوی زیرسرپرستی سرزمین فلسطین پر یہودیوں کی آبادکاری کے بعد سے فلسطینی مسلمان اپنے وجود کے بحران سے دوچار ہیں۔ عرب روز اول سے ہی صہیونی تسلّط کو تسلیم کرنے سے انکاری رہے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد عرب اسرائیل جنگیں بھی ہوئیں، 1948، 1956 اور 1967 کی جنگوں میں عربوں کو نقصان اٹھانا پڑا ابھی ماضی کے زخم تازے ہی تھے کہ 1973 میں ایک اور عرب اسرائیل جنگ پھوٹ پڑی جسے رمضان جنگ بھی کہا جاتا ہے اس بار عرب اتحاد نے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوے انتہائی منظم طریقے سے صہیونی جارحیت کا جواب دیا جس میں اسرائیل بھاری جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر شکست سے دوچار تھا لیکن امریکا و دیگر مغربی ممالک کی بروقت مدد سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور شکست خوردہ اسرائیل ایک بار پھر عربوں پہ بازی لے جانے لگا جس کے ردعمل میں عربوں کے امریکا سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے اور عربوں نے اسرائیل کی مدد کرنے والوں کو تیل کی سپلائی بند کردی نتیجتاً امریکا و یورپ میں زندگی کا پہیہ شدید متاثر ہوا، فیول کا بحران پیدا ہوگیا،، پیٹرول اسٹیشنوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں، یہ پہلا موقع تھا جب اہالیان مغرب کو یہ احساس ہوا کہ وہ کس قدر عرب ممالک کے محتاج ہیں۔ اس بحرانی کیفیت میں امریکا بہادر نے شاہ فیصل کو براہ راست دھمکی بھی دی لیکن شاہ فیصل شہید پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو مجبوراً امریکا کو گھٹنے ٹیکنے پڑے، امریکا عرب کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس دوران امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنجر کو مشرق وسطیٰ کے دس دورے کرنا پڑے، شاہ فیصل کی قیادت میں عربوں کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اسرائیل فلسطین کا مسئلہ فوری طور پر حل کیا جائے۔ فلسطین کا مسئلہ تو حل نہ ہوا لیکن دنیا نے دیکھا کہ شاہ فیصل کو اس واقعے کے ایک سال کے اندر اندر شہید کردیا گیا اور اس کے بعد سے کسی عرب نے امریکا بہادر کے سامنے سر نہ اٹھایا۔ اسرائیل امارات تعلقات کی بحالی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اہم کامیابی قرار دیتے ہوے اسے ابراہیم معاہدہ کا نام دیا جسے وہ اپنی الیکشن مہم کے لیے بطور آلہ کے استعمال کریگا لیکن یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی کاوش نہیں بلکہ امریکی دیرینہ پالیسی ہے جیسا کہ صدر بل کلنٹن نے اسرائیل فلسطین بات چیت کے دوران فلسطینی صدر اور اسحاق رابن کے لیے یہی الفاظ دہرائے تھے کہ
You are cousins
اگر ہم اسرائیل کی سات دہائیوں پہ مشتمل تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ امر واضح ہے کہ امریکا شروع ہی سے اسرائیل کے سفیر کے طور پر کام کررہا ہے۔ یہودیوں کی آبادکاری میں بھی امریکا برابر کا شریک تھا، اس ضمن میں اینگلو امیرکن انکوائری کمیٹی 1946 کے تحت یہ امریکا ہی تھا جس نے یہودیوں کو ان کی خواہش کے مطابق فلسطین میں آباد کیا۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ یہود کے سامنے یورپ کے کسی بھی خطے میں آبادکاری کے آپشن رکھے گئے تھے لیکن انہوں نے تھیوڈور ہرلز کی تجویز کے تحت فلسطین کا انتخاب کیا جسے برطانیہ سے زیادہ امریکا نے منظوری بخشی اور اسرائیل کے قیام کے بعد سب سے پہلے امریکا بہادر نے ہی اسے تسلیم کیا تھا۔ سالانہ چار سے پانچ ارب ڈالر فوجی امداد کے طور پر دیتا آرہا ہے جبکہ ستر سالوں میں ابتک فلسطین کو بشمول رفیوجی کیمپ کل 6 ارب ڈالر امداد دی ہے۔ امریکا نے ہتھیاروں کی فراہمی میں بھی اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ عرب اقوام کو اسرائیل کے مد مقابل اسلحہ نہ فراہم کیا جائے، اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی مفادات کے خلاف ہر قسم کی قراردادوں حتیٰ مذمتی قراردادوں کو بھی ویٹو کرتا آیا ہے اور سات دہائیوں میں اوباما انتظامیہ میں صرف ایک موقع ایسا آیا جب امریکا نے اسرائیل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہونے دی جس کے نتائج امریکا میں شاید اب آکر برآمد ہونا شروع ہوے ہیں تو امریکا بہادر ایک بار پھر فرض شناس بچہ بن کر اسرائیلی خدمت میں پیش پیش ہے، ٹرمپ انتظامیہ نے گولان ہائیٹس پر اسرائیل کا حق تسلیم کیا جوکہ امریکی پرانی پالیسی ہے جمی کارٹر سے بل کلنٹن تک اسرائیلی مقبوضہ جات کو جائز قرار دیتے آئے ہیں، صدر بش سے جب اس بارے پوچھا گیا تو جواب دیا کہ یہ ill-advice ہے لیکن ناجائز نہیں۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پیش کی جانے والی ڈیل آف سنچری کے تحت یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا گیا اور امریکا نے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا جو 1995 میں امریکی کابینہ قانون منظور کرچکی ہے کہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا جائے۔ امریکا شروع سے ہی اسرائیلی سفیر کے طور پر موجود رہا ہے اور عرب شروع سے ہی اسرائیل کے سخت دشمن رہے ہیں اور محض پچیس سالوں میں چھوٹی موٹی لڑائیوں کے علاوہ چار بڑی جنگیں بھی ہوئیں، یوم کپور جنگ کے بعد عرب امریکا و مغرب سے بھی دور ہوتے جارہے تھے کہ شاہ فیصل کی شہادت اور ایرانی انقلاب کے بعد عرب کی اسرائیل سے توجہ ہٹ گئی اور وہ ایرانی انقلاب کی ایکسپورٹ کو روکنے تک محدود ہوکر مجبوراً امریکا کے قریب ہوے۔ ابراہیم معاہدہ بھی ایرانی خوف کا نتیجہ ہے کیونکہ رواں سال اکتوبر میں ایران اسلحہ خریداری کی پابندیوں سے آزاد ہوجائیگا اور سو سے دو سو ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کا ارادہ رکھتا ہے جس پر سعودی عرب و عرب امارات کو سخت تشویش ہے کہ وہ اپنی پراکسیز کے زریعے انہیں عدم استحکام کا شکار کرسکتا ہے جس خطرے کے پیش نظر یو اے ای کو امریکا کی طرف جھکنا پڑا، افسوس کہ وہ ستر سالہ پرانی دشمنی اور لاکھوں فلسطینیوں کے خون کو تو بھلا بیٹھے لیکن ایران کی بات چیت کی پیشکش کے باوجود اس تنازعے کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور اس حد تک آگے نکل آئے کہ نہ صرف اپنے دیرینہ ساتھی پاکستان کو قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہیں بلکہ عام مسلمانوں کے جذبات کی بھی پرواہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر