... loading ...
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا ’’سفارتی معاہدہ‘‘ جسے’’ امن معاہدے ‘‘سے تعبیر کیا جارہا ہے۔کیا مشرق وسطیٰ کے سماجی ،سیاسی ا و رمعاشی مستقبل بالخصوص فلسطین کاز کو ایسے کسی معاہدے کی ضرورت ہے یا نہیں اس بحث سے ہٹ کر اتنا ضرور ہوا ہے کہ اسرائیل عرب دنیا میں خود کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو یقینا فلسطین کی آزادی و خود مختاری اور ’’ بیت المقدس ‘‘ کی حرمت کے لیے زہر قاتل ہوسکتی ہے ۔بہر کیف مصر اور اردن کے بعد متحدہ عرب امارات اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جبکہ مسلم ممالک ترکی اور ایران کی جانب سے یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کی گئی اور ترکی نے متحدہ عرب امارات سے اپنے سفارتی تعلقات معطل کرنے پر غور شروع کردیا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے اس معاہدے پر جوموقف سامنے آیا ہے اس میں پالیسی لائن واضح نہیں ہے جبکہ ماضی میں اسرائیل سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی واضح اور دو ٹوک رہی ہے جو کسی صورت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔یہاں یہ واضح رہے کہ اسرائیل کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات قائم رہے ہیں لیکن عرصہ دراز سے ان میں غیر معمولی کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ سعودی عرب کے حوالے سے بھی یہ رپورٹس سامنے آتی رہیں ہیںکہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ’’خاموش مفاہمت‘‘ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوری 2020میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی شہریوں کو سعودی عرب میں آنے کی اجازت دی جارہی ہے جس میں مسلم اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ساتھ یہودی اسرائیلی شہری بھی شامل ہیں جو کاروبار کے سلسلے میں سعودی عرب آ جاسکتے ہیں اور اس بار انھیں براہ راست اسرائیلی پاسپورٹ پر’’ ویزا ‘‘ جاری کرنے کی بات کی گئی تھی کیونکہ اس خبر سے پہلے مسلم اسرائیلی شہری اردن اور مصر کے ذریعے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے لیے سعودی عرب آتے رہیں ہیں ۔اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں سفارتی اعتبار سے مضبوط کرنے میں جہاں امریکا کا ہاتھ موجود ہے وہاں مشرق وسطیٰ کی موجودہ معاشی صورتحال بھی اسے اسرائیل کے قریب لانے پر مجبور کررہی ہے جبکہ دوسری جانب یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پائی جانے والی ’’پراکسی وار‘‘بھی اسرائیل کو غیر معمولی فائدہ پہنچارہی ہے ۔
بلا شبہ اس وقت امریکا کا مشرق وسطیٰ کی سیاسی و معاشی صورتحال پر مکمل کنٹرول ہے اور ایسے میںمشرق وسطیٰ کے حوالے سے امریکا کا نام نہاد ’’امن منصوبہ ‘‘ اسرائیل کو کس قدر سفارتی تقویت فراہم کرسکتا ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے جبکہ امریکی حلقوں بالخصوص اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ عرب ممالک میں سے ممکنہ طور پر’’ بحرین ‘‘ وہ اگلا ملک ہوگا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہا ہے لیکن ان خبروں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم اس حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور وائٹ ہائوس کے مشیر جیرڈ کشنر دعویٰ کررہے ہیں کہ عرب ممالک کی ایک قطار ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ بہرکیف معاملہ کچھ یوں ہے کہ اگلے برس مارچ میں اسرائیل میں نئے انتخابات ہونے جارہے ہیںاور ان انتخابات میں اسرائیل کے موجودہ وزیر اعظم نیتن یاہوکو ممکنہ طور پر کامیابی دلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے تاکہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میںبالا دستی قائم کرنے کے امریکی منصوبے کا تسلسل قائم رکھا جاسکے۔ اب ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عرب ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیتے ہیںتو ایسے میں دیگر اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہونگے جبکہ فلسطینی ریاست کا تحفظ اور بیت المقدس کی آزادی کا فلسفہ ہر ایک مسلمان کے جذبہ ایمانی کا خاصہ ہے ۔ بہر کیف مشرق وسطیٰ کا مستقبل جو بھی ہو لیکن یہ کھلی حقیقت ہے کہ مسلم ممالک میں ’’اتحاد‘‘ کا فقدان ہے جس کا فائدہ امریکا ہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی خوب اٹھارہا ہے اگر مسلم ممالک میں بروقت اتحاد قائم نہیں ہوسکا تو وہ وقت دور نہیں جب اسرائیل مشرق وسطیٰ کا نیا تھانیدار ہوگا یعنی یہودیوں کے ’’گریٹراسرائیل‘‘ کے خواب پورا ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔لہذا وقت کاتقاضا یہی ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک ہوش کے ناخن لیں اور دنیا میں اپنی حیثیت منوانے کے لیے ایک’’ پلیٹ فارم ‘‘پر جمع ہوں تاکہ ایک ایسی متحد آواز میں اسلام دشمن قوتوں کو للکارا جاسکے کہ جس سے ان پر’’تاریخی لرزہ طاری ‘‘ہوجائے جیسا کہ ماضی میں اس حوالے سے مسلمانوں کو جو مقام ،حیثیت اور پہچان حاصل تھی ۔بہر کیف اب معاملہ اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی ’’عظمت رفتہ کی بحالی ‘‘کاہے اور اس کے لیے یقینا ترکی اور ایران میں پائے جانے والے’’ قوم پرستی ‘‘کے فلسفے کوخاصی اہمیت حاصل ہے جوکہ خالصتاً مذہبی و نسلی تناظر میں آٓگے بڑھ رہا ہے جبکہ عرب کو اب اس سوچ سے بھی باہر نکلنا ہوگا جو اسے ’’عرب اور عجم ‘‘کی تفریق پر اکھساتی ہے ۔ بہر کیف متحدہ عرب امارت اور اسرائیل کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایک ایسے فریب کی مانند ہے جو اپنے اندر اس قدر کشش رکھتا ہے کہ اس سے ممکنہ خطرات بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل یہودیوں کی ایک’’ گھس بیٹھیا ریاست‘‘ ہے جو فلسطین میں آباد ہوئے اور اس پر قابض ہوگئے یعنی کوئی ایک خاندان کسی دوسرے خاندان کے گھر میں گھس جائے اور حق ملکیت کا دعویٰ کردے جبکہ بعد میں وہی گھس بیٹھیا خاندان جھگڑا نمٹانے کے لیے یہ تجویز دے کہ آدھا گھر تم رکھ لو اور آدھا میں رکھ لیتا ہوں ،ایسا ہی کچھ 1948سے اسرائیل فلسطین کے ساتھ کرتا آیا ہے اور اس کے بعد اس کے مشرق وسطیٰ میں توسیع پسندانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اسی طرح اسرائیل نے امن کے نام پر عرب ممالک کو ایک ’’عظیم فریب‘‘میں مبتلا کر رکھاہے جسے بھاڑے کے مصالحت کار امریکا کی آشیر باد حاصل ہے ۔جہاں تک اسرائیل کو پاکستان کی جانب سے تسلیم کیے جانے یا نہ کیے جانے کی بات ہے تو اس ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کا اسرائیلی ریاست کے وجود کے حوالے یہ دو ٹوک موقف ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’ اسرائیل امت کے قلب میں گھونپا گیا ایک خنجر ‘‘ ہے ، یعنی بابا ئے قوم نے سیدھے الفاظ میں اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا ہے ۔ بہر کیف امت مسلمہ کو اب ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ خود کو سیاسی و معاشی طور پر مضبوط بنانے میں کامیاب ہوسکے بصورت دیگر مغربی دنیا بالخصوص امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ مشرق وسطیٰ ہی کو نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کو معاشی اعتبار سے مفلوج کردے گا جو فکری اور سماجی اعتبار سے بھی ایک بڑی تباہی سے کم نہیں ہوگی۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک ایک دوسرے کو معاشی اعتبار سے مضبوط کرنے لیے ایک دوسرے کی تیکنیکی اور معالی اعتبار سے غیر معمولی معاونت کریں تاکہ مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل گیم کو ناکام بنایا جاسکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔