وجود

... loading ...

وجود

بجلی بند ،میٹر چالو

جمعرات 13 اگست 2020 بجلی بند ،میٹر چالو

اگر سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں فرینک شمیڈٹ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کا چیئرمین نہ بنتاتو ہمیں خبر ہی نہیں ہوسکتی تھی کہ پاکستان میں اصل ’’بجلی چور ‘‘ کون ہے؟۔ جی ہاں ! فرینک شمیڈٹ کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھنے والا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں ’’بجلی چور ‘‘عناصر کی بالکل درست درست نشان دہی فرمائی تھی ۔’’ یاد رہے کہ’’ بجلی چوری‘‘ کے سربستہ راز سے پردہ اُٹھانے والا فرینک شمیڈٹ ایک جرمن نژاد الیکٹریکل انجینئر تھا جنہیں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن میں بجلی چوری کی روک تھام کی بنیادی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی تاکہ معلوم ہوسکے کہ کراچی میں کون کون سے عناصر بجلی چوری میں براہ راست ملوث ہیں ۔ فرینک شمیڈٹ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ چھ ماہ کراچی اور اُس کے مضافات میں سروے کرنے کے بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ ضروری احکامات اور کارروائی کے لیے وفاقی حکومت کو بھجوادی ۔ فرینک شمیڈٹ کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھاکہ ’’کراچی میں پچاس فیصد بجلی حکومتی ادارے خود ہی چور ی کرتے ہیں،جبکہ چالیس فیصد بجلی صنعت کار چوری کر رہے ہیں اور دس فیصد کچی آبادیوں میں رہائش پذیر غریب طبقہ بجلی چوری میں ملوث ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرینک شمیڈٹ کی رپورٹ پر بھرپور غورخوض کرنے کے بعد حکومت نے سب سے پہلے دس فیصد چوری کرنے والے افراد کے خلاف سخت سے سخت تادیبی کارروائی کرنے کے لیے ہدایات جاری کردی ۔ جس پر عمل درآمد کرنے سے فرینک شمیڈٹ نے صاف انکار کردیا کیونکہ فرینک شمیڈٹ کا موقف تھا کہ بجلی چوری کے انسداد کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی ابتدا غریب اور کچی آبادیوں سے شروع کرنے کے بجائے ، اُن بجلی چوروں کے خلاف ایکشن لینے سے کیا جائے جو شہر میں نوے فیصد بجلی چور ی میں ملوث ہیں ۔لیکن سیاسی مصلحتوں کی شکار پرویزمشرف حکومت بضد رہی کہ ابتداء دس فیصد بجلی چوروں کے خلاف کارروائی سے ہی کی جائے گی۔یہ حکومتی حکم نامہ فرینک شمیڈیٹ کو قطعی قبول نہ تھا لہذا انہوں نے حکومتی احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے استعفا دے دیا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن چھوڑ کر وہ واپس اپنے ملک جرمنی سدھار گئے ۔ فرینک سمیڈٹ نے اپنے استعفے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ’’ پاکستان میں بجلی چوری کا ظلم حکومتی اور صنعتی ادارے باہم مل جل کر کررہے ہیں لیکن اِس جرم کی سزا ،اربابِ اقتدارصرف اور صرف غریب عوام کو دینا چاہتے ہیں‘‘ ۔
جب گزشتہ دنوں بارش کے بعد شہرکراچی ایک بار پھر سے پانی اور اندھیروں میں ڈوب گیا تو ، وفاقی وزیر پانی و بجلی نے نیوز چینلز پر جلوہ افروز ہوکر پاکستانی قوم کو یہ خوش خبری سنائی کہ’’ پاکستان میں بجلی طلب سے کئی گنا زیادہ موجودہے لیکن ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ یا لوڈ منیجمنٹ فقط اِس لیے کرنا پڑرہی ہے کہ ملک میں بجلی چوری بہت زیادہ ہے‘‘۔ لیکن موصوف وزیر صاحب یہ بتانا بھول گئے کہ پاکستان میں بجلی چوری کرتا کون ہے ؟۔یہ ہی وہ لمحہ تھا جب ہمیں فرینک شمیڈٹ کی برسوں پرانی رپورٹ رہ رہ کر یاد آئی کیونکہ کئی برس پہلے وہ اپنی رپورٹ میں بہت تفصیل کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ پاکستان میں اصل ’’بجلی چور ‘‘ کون کون ہیں ؟۔ یقینا یہ رپورٹ آج بھی وزارت پانی و بجلی کے دفتر کی کسی بوسیدہ سی الماری میں ضرور موجود ہوگی لیکن اِس رپورٹ پر عمل درآمد کرنا اِس لیے ضروری نہیں سمجھا جاتاکہ اصل ’’بجلی چور ‘‘ توہمیشہ سے خود حکومتی صفوں میں ہی موجود ہوتے ہیں اور کچھ رہی سہی کسر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین پوری کردیتے ہیں ۔ جنہیں اُن کے ملازمتی رینک کے مطابق یعنی حصہ بقدرے جثہ مفت بجلی فراہم کرنے کی صورت میں ظالمانہ مراعات دے کر پوری کردی جاتی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ مفت بجلی کی سہولت ملازمین کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے ۔بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے بعض ملازمین، سرکار کی طرف سے ملنے والی مفت بجلی کو باقاعدہ فروخت بھی کرتے ہیں ۔ عوام سوال کرتی ہے کہ آخر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کو مفت بجلی کیوں فراہم کی جاتی ہے؟۔ کیا انہیں اپنے کام کی بھاری تنخواہیں نہیں ملتی ؟۔یا یہ ملازمین اتنے زیادہ غریب ہوتے ہیں کہ بجلی کا بل دینے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے؟۔کیا مفت بجلی بانٹا بھی چوری کی ایک قسم نہیں ہے؟ یعنی بجلی چوری کریں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے طاقت ور افراد اور ان کے ساتھ ہی لاکھوں بجلی کے مفت یونٹس بے دریغ استعمال کرنے والے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین، لیکن ’’بجلی چوری ‘‘ کا تما م تر الزام دھر دیاجائے فقط بے چاری غریب عوام پر ۔
اس بار مون سون بارشوں کے بعد سندھ بھر میں بجلی کا جو اذیت ناک بحران پیدا ہوا ہے،اُس کی ماضی سے بھی کوئی مثال پیش نہیں جاسکتی ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سندھ بھر میں ہزاروں کی تعداد میں بجلی کے ٹرانسفر بارش کی چند بوندوں کو نہ سہہ سکے اور خراب ہوگئے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان ٹرانسفامروں کی تبدیلی اور درستگی کے لیے عوام سے رشوت کی مد میں ہزاروں روپے بھی ببانگ دہل طلب کیے جارہے ہیں۔ جن اہل محلہ نے ِ بقائے باہمی کے تحت مل جل کر پیسوں کی فراہمی کا بندوبست کردیا ،اُن کے ٹرانسفر تو جلد یا بدیر تبدیل یا مرمت کرکے لگا دیئے گئے جبکہ جنہوں نے رشوت دینے سے انکار کیا وہ محلے اور کالونیاں 12 ، 12 دن گزرنے کے باوجود بھی اَب تک بجلی کی فراہمی سے یکسر محروم ہیں اور یقینا اُس وقت تک بجلی کی فراہمی سے محروم ہی رہیں گے جب تک کہ وہ بھی طلب کردہ رشوت کا بندوبست نہیں کر دیتے۔کیونکہ پاکستان میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی جانب سے بجلی بھلے ہی بندرہے لیکن رشوت کا میٹر ہمیشہ چالو رہتا ہے اور جب تک رشوت کا یہ میٹر چالو ہے غریب عوام کی قسمت میں لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے ہی اندھیرے لکھے ہیں ۔بقول شاعر خالد عرفان
لوڈشیڈنگ کی شکایت پر ، دولتی مارے
لوگ بجلی کے منسٹر کو گدھا کہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر