... loading ...
ایران کا عظیم بادشاہ نوشیروان عادل ایک روز شکار کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے ایک بوڑھے کو دیکھا جو اپنے باغ میں ایک پودا لگا رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنا گھوڑا روک کر بوڑھے کو اپنے پاس بلایا اور اس سے سوال کیا’’بابا کیا تمہیں یقین ہے کہ تم اس پودے کا پھل کھا سکو گے؟‘‘۔بوڑھے نے ادب سے جواب دیا’’عالم پناہ! ہم زندگی بھر دوسروں کے لگائے ہوئے درختوں کے پھل کھاتے رہے ہیں۔ اب ہمارے لگائے ہوئے درختوں کے پھل دوسرے کھائیں گے‘‘۔بوڑھے کی بات سے بادشاہ بے حد خوش ہوا اور اسے ایک سو دینار انعام میں دیے۔بوڑھے نے جھک کر بادشاہ کو سلام کیا اور کہا’’دیکھا عالی جاہ! میرا لگایا ہوا درخت تو میری زندگی میں ہی پھل لے آیا‘‘۔بوڑھے کی اس بات پر بادشاہ مزید مسرور ہوا اور مزید سو دینار بوڑھے کو دیے۔بوڑھے نے کہا’’دیکھئے حضور دوسروں کے لگائے ہوئے درخت تو سال میں صرف ایک بار پھل لاتے ہیں۔ لیکن میرا لگایا ہوا درخت ایک دن میں دو بار پھل لے آیا‘‘۔ بادشاہ کو بوڑھے کی یہ بات بھی بہت پسند آئی۔ چنانچہ اس نے تیسری بار بھی سو دینار بوڑھے کو دیے۔یہ پرانے زمانے کی کہانی ہے اور پرانے زمانہ میں لوگ جیسا بولتے تھے ویسا ہی کرتے تھے ۔لیکن یہ واقعہ اگر آج ہوا ہوتا تو درخت لگانے والا درخت لگانے کے عوض ملنے والی رقم تو اینٹھ لیتا مگر درخت کسی صورت نہیں لگاتا۔ایسے واقعات کا ہم آئے روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ سرِعام لوگ درخت لگانے آتے ہیں تصویریں بناتے ہیں ،ویڈیوبناکر ٹی وی پر چلاتے ہیں اور اپنے پیسے کھرے کرکے چلتے بنتے ہیں اور درخت اُن کے جانے کے بعد سرِ عام گلتا سڑتا رہتا ہے ۔اسے ہی کرپشن کہتے ہیں اور ہمارے ہاں ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے اس قسم کی چھوٹی موٹی کرپشن کرنا لازمی خیال کیا جاتا ہے ۔ سچ تو یہی ہے کہ پاکستان میں رشوت اور کرپشن سے بہتر کوئی کاروبار نہیں ہے۔ 20 ہزار کی سرکاری نوکری کے لیے 20 لاکھ رشوت لی جاتی ہے لہٰذا رشوت سے ملازمت حاصل کرنے والا اِس رقم کو 6 ماہ میں ہی وصول کرنے اور اِس انوسٹمنٹ سے منافع کمانے کے لیے دن رات کرپشن کرتا ہے۔بظاہر کرپشن کے خلاف پاکستان میں حکومتی مہم جاری ہے لیکن کرپشن کے خلاف کوئی واضح پلان یا گائیڈ لائن نہ ہونے کے باعث اس مہم کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہورہا ۔شاید اسی بات کے پیشِ نظر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے دورہ چین کے دوران اعلان کیاہے کہ’’ پاکستان کرپشن کے خلاف چین کے تجربات سے فائدہ اُٹھائے گا‘‘۔ پاکستان میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے بلاشبہ’’ چینی نسخوں ‘‘کو انتہائی اہم قرار دیا جاسکتاہے کیونکہ دنیا کی قریب ترین سیاسی تاریخ میں چین ہی وہ واحد ملک ہے جس نے کرپشن کے خاتمہ میں حقیقی معنوں میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
چین میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے کمیونسٹ پارٹی نے ’’شُوآنگ گُوئی‘‘ نامی نظام 1990ء میں متعارف کرایا تھا۔ اس کا مقصد بدعنوان سرکاری اہلکاروں کو سزا دینا تھا تاکہ رشوت ستانی اور کرپشن کے اس رحجان کو ختم کیا جا سکے جو چین میں تیز رفتار اقتصادی ترقی کے شروع کے دور میں بہت زیادہ ہو گیا تھا۔اس نظام کے تحت کسی بھی مشتبہ فرد یا ملزم کی حراست غیر معینہ عرصے تک جاری رہ سکتی ہے۔ ایسے افراد کے اہل خانہ کو اکثر یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے تحویل میں لیے گئے رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہوا ہے یا وہ کہاں ہیں۔چین میں کرپشن کے خلاف مہم میں سب سے زیادہ تیزی2012 میں صدر شی جن پنگ کی قیادت میں آئی اور 2013 سے 2017 تک 13 لاکھ 40 ہزار افرادکو کرپشن کے الزام میں سزا بھی مل چکی ۔ انسدادِ کرپشن کا’’چینی نسخہ‘‘ کتنا زیادہ سریع الاثر ہے اس کا اندازا صرف اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2017 کے صرف پہلے 6 ماہ میں 13 لاکھ 10 ہزار سے زائد متاثرین نے کرپشن کے خلاف شکایات سینٹرل کمیشن آف ڈسپلن انسپکشن میں درج کروائیں۔ اِن میں سے 2 لاکھ 60 ہزار لوگوں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی اور 2 لاکھ 10 ہزار مجرموں کو سزا سنائی گئی۔ اِن سزا پانے والوں میں صرف کمزور اور چھوٹے سرکاری افسر شامل نہیں تھے بلکہ اِن میں وزارتوں اور صوبائی انتظامیہ کے 38 سینئر افسران سمیت ایک ہزار انتہائی طاقتور خیال کیے جانے والے افراد بھی شامل تھے۔مثال کے طور پر چینی وزیرِ ریلوے Liu Zhijun جنہیں چین کا کامیاب ترین وزیر بھی سمجھا جاتا تھا۔ اُنہیں کمیشن لینے، عہدے کے غلط استعمال اور سامان کی خریداری میں کرپشن کے الزام پر اُن کی ماضی کی خدمات اور ریلوے کی ترقی کے لیے کی گئی محنت اور حکومتی پارٹی کے ساتھ تعلقات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُن کے خلاف مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنا دی گئی۔ایسی ہی ایک عبرتناک مثال چینی افوج کے سابقہ جنرل Guo Boxiong کی بھی ہے جن کو رشوت لینے کے الزام میں نہ صرف عمر قید کی سزا دی گئی بلکہ اُنہیں اپنے عہدے سے فارغ کر کے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے تمام اثاثے بھی چینی حکومت کے نام کریں۔ جنرل صاحب ماضی میں نہ صرف فوج میں جنرل کے عہدے پر فائز رہے تھے بلکہ وہ صدر کی سربراہی میں بنائے گئے سینٹرل ملٹری کمیشن کے وائس چیرمین بھی تھے۔ مزید یہ کہ وہ حکومتی پارٹی کے 25 کور ممبران میں بھی شامل تھے لیکن انسدادِ کرپشن کے ’’چینی نسخہ ‘‘ کے سامنے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی۔
اس وقت بھی چین میں انسداد ِکرپشن اور بدعنوانی کے خلاف تنبیہ کے طور پر ہر ماہ درجنوں حکومتی عہدیداروں اور ان کے اہل خانہ کو ’’جیل کی سیر‘‘ باقاعدگی کے ساتھ کروائی جاتی ہے۔ اس دوران ان کی ملاقات کرپشن کے الزام میں قید بھگتنے والے سابقہ سرکاری عہدیداروں سے بھی کروائی جاتی ہے۔ ایک طرح کی تعلیمی و تربیتی تنبیہ کے طور پر ان تمام افرادکو اپنا پورا دِن جیل میں گزارنا ہوتا ہے۔ اس خصوصی ’’سیر‘‘ کے دوران جیل کی دیواروں پر ملزموں سے کی جانے والی تفتیش کی تصاویر بھی آویزاں ہوتی ہیں تاکہ دورے پر جانے والے حکومتی افراد اور اُن کے اہلِ خانہ ان تصاویر کو دیکھ کر عبرت حاصل کرسکیں۔ہم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے اُمید رکھتے ہیں کہ وہ انسدادِ کرپشن کے ’’چینی نسخوں‘‘ پر من و عن عمل پیرا ہو کر وطنِ عزیز کو کرپشن کے مہلک عفریت سے نجات دلائیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭