... loading ...
دوستو،انسان بنیادی طور پر ’’نقل چی‘‘ ہے۔۔یعنی کسی کو کوئی کام کرتے دیکھ لیتا ہے تو خود بھی ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتا ہے، کسی کو کچھ منفرد پہنے دیکھتا ہے تو خود بھی ویسا ہی پہننے کی کوشش کرتا ہے، کسی کا لائف اسٹائل ، ہیئراسٹائل اچھا لگتا ہے تو اسے اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔۔یہ تو چلیں عام سی بات ہے، اسے آپ حسد یا مقابلہ بازی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں، لیکن کچھ کام لاشعوری طور پر ایسے کرجاتا ہے جس کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے، جیسا کہ ہم نے اکثر نوٹ کیا ہے کہ اگر کسی محفل میں اچانک کوئی جماہی لے تو پھر یہ جماہی ’’گھرجوائی‘‘ بن جاتی ہے، محفل میں موجود دیگر لوگوں میں یہ جماہی وائرس کی طرح پھیل جاتی ہے جس کے بعد وقفے وقفے سے سب جماہی لینے لگ جاتے ہیں۔۔ اسی طرح یہ بات بھی ہمارے مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر باجماعت نمازوں اور خاص طور پر نماز تراویح میں کسی ایک نمازی کے کھانسنے کے بعد اگلی پچھلی تمام صفوں کے کونے کھدروںسے کھانسی اور کھنکارنے کی آوازیں وقفے وقفے سے آتی رہتی ہیں۔۔ چلیں آج جمعہ مبارک ہے تو آپ سے کچھ کام کی باتیں کرلیں، ورنہ زیادہ تر تو ہم اوٹ پٹانگ ہی بولتے رہتے ہیں۔۔امید ہے کہ ہماری یہ چند گزارشات آپ لوگ اپنے پلو سے باندھ لیں گے ،ہمیں یقین ہے کہ ان باتوں پر عمل کرنے سے آپ کی شخصیت مزید نکھرجائے گی۔۔
باباجی نے تمام ڈاکٹروں سے گزارش کی ہے کہ وہ سب اکٹھے ہوکر یہ عہد کریں کہ جب بھی کوئی جج بیمار ہوجائے تو اسے دوا دینے کے بجائے اگلی تاریخ دی جائے گی،شاید اسی طرح ملک کے عدالتی نظام میں کچھ بہتری ممکن ہوسکے۔۔باباجی کی بات سنا کر آپ کا موڈ خوشگوار بنانے کی کوشش کی ہے ، اب ہمارے پیارے دوست کی یہ تحریر پڑھیں جس میں انہوں نے چند گزارشات پیش کی ہیں۔۔گرمیوں میں کپڑوں کے نیچے بنیان پہنیں،اور خدارا Deodorant’s کا استعمال کریں، دوسروں کو اذیت میں مبتلا کرنا مذہب اور اخلاقیات دونوں کے خلاف ہے۔۔۔ کان اور ناک کے بال صاف کریں اور ناک کے بال اکھاڑنے کے لیے عوامی مقامات مناسب جگہ نہیں، برائے مہربانی یہ فریضہ گھر پر انجام دیں، دوسرے لوگوں کو اس فعل سے گھن آتی ہے جس کا آپ کو احساس نہیں ہوتا۔۔۔ اسی طرح عوامی مقامات پہ ناک اور کان میں انگلی گھما کر صفائی کا اہتمام کرنا انتہائی نامناسب عمل ہے، مزید ایسی حرکات کرنے کے بعد جب آپ دوسرے لوگوں سے مصافحہ کا شوق فرماتے ہیں تو آپ ان کو انتہائی مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔۔ کرنسی نوٹ گنتے ہوئے اپنے لعاب کا بے دریغ استعمال کرنا بند کریں ،اگر ضرورت ہو تو پانی کا استعمال کریں۔ ویسے بھی آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ نوٹ کن کن جگہوں اور کتنے گندھے ہاتھوں سے ہو کر آپ تک پہنچے ہیں۔۔ گاڑی چلاتے وقت تنگ سڑکوں پر اوورٹیک سے اجتناب کریں۔ گاڑی پارک کرتے وقت اتنا خیال رکھیں کہ دوسرے لوگ اس سے اذیت میں مبتلا نہ ہوں اور بلاوجہ اس طرح پارک نہ کریں کہ دو گاڑیوں کی جگہ گھیر کر کھڑے ہو جائیں۔ ۔ اپنے والد، بھائی یا کسی عزیز کے عہدے کی وجہ سے بلا ضرورت privileges لینے سے باز رہیں اور پبلک سروس کے محکموں میں دوسروں کو کیڑے مکوڑے اور حقیر ہونے کا احساس نہ دلائیں۔ ۔ زیادہ نمازیں روزے وغیرہ کا تعلق آپ کے اور آپ کے معبود کے درمیان ہے، اپنے زعم تقویٰ میں دوسروں کے ساتھ حقارت سے پیش نہ آئیں اور نہ ہی ان سے ان کی عبادات کے متعلق بے جا سوالات کریں کہ لوگوں کے اعمال کا حساب رکھنے کا فریضہ آپ کو تفویض نہیں ہوا۔۔ لوگوں کی ذاتی و نجی زندگی سے متعلق سوالات کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں اور نہ ہی ان کی آمدنی جاننے کا اختیار۔ ایسے سوالات لوگوں کو کوفت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ مثلاً ابھی تک آپ کے بچے کیوں نہیں ؟ آپ کے بچے فلاں سکول میں کیوں نہیں پڑھتے، آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟؟ وغیرہ۔۔۔ جگہ جگہ تھوکنے، کھانے پینے کی چیزوں کے خالی ریپرز ، چھلکے، سڑک پر پھینکنے اور عوامی مقامات پر پھینکنے سے اجتناب کریں۔ گاڑی میں ایک بڑا شاپنگ بیگ رکھ لیں اور چیزیں اس میں اکھٹی کرتے رہیں اور مناسب جگہ پر ڈمپ کریں۔
پبلک ٹوائلٹس کو اس طرح سے استعمال کریں اور اس حالت میں چھوڑیں جیسے آپ اپنے لیے پسند کرتے ہیں،پبلک ٹوائلٹس کسی بھی قوم کی اجتماعی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں، اپنی خطاطی، ادبی ذوق ، سیاسی و مذہبی منافرت، خواتین کے ناموں کی بے حرمتی، یا + 18 پینٹنگز کے نمونے مت چھوڑیں، یہ نفسیاتی بیماری کی نشانی ہے۔۔ جسم کے پرائیویٹ اعضاء پر بلاجواز یا عادتاً خارش کرنے سے پرہیز کریں۔ اپنے ناخن مناسب وقت پر کاٹیں اور ان میں پھنسی ہوئی میل کچیل نکالتے رہیں یہ حفظان صحت کیلیے بھی ضروری ہے اور اپنی شخصیت کا تاثر قائم رکھنے کے لیے بھی اہم ہے۔۔۔دوستوں کی کال کا لازمی جواب دیں چاہے وہ بے وقت ہی کیوں نہ ہو۔۔اپنی مصروفیت بتاکر معذرت کرسکتے ہیں لیکن دوست بناکر یا تعلق رکھ کر نظر انداز کرنا تکبر کی نشانی ہے،یاد رکھیں وہ اس تحقیر کا آپ سے بدلہ ضرور لے گا۔۔ خریداری سے قبل دوست کو مشورہ ضرور دیں لیکن ضد کرکے اپنا مشورہ نہ منوائیں، خریداری کے بعد منفی کمنٹس کرکے ان کے چوائس پر اعتراض ہرگزنہ کریں۔۔ائرپورٹس، بینک، یا کسی بھی اگر قطار لگی ہوتو اسے بالکل نہ توڑیں، صبر کریں آپ کا نمبر بھی جلد آجائے گا۔۔جب کسی کو فون کریں تو وقت کا خیال رکھیں،کہیں وہ نماز کا وقت تو نہیں یا رات کا کوئی ایسا پہر تو نہیں جب وہ سورہاہو۔۔گاڑی یا بائیک چلاتے ہوئے موبائل فون سے بالکل دور رہیں، موبائل فون کا استعمال کسی بھی سنگین حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔۔
ہمارے پیارے دوست کپتان کی حکومت کو کرپشن ختم کرنے کا بالکل اچھوتا فارمولہ پیش کررہے ہیں۔۔ہم نے ایک جگہ اس فارمولے کو پڑھا تھا تو ہمیں یہ آئیڈیا بہت پسند آیا۔۔ایک غیرملکی طالبعلم نے کرپشن پر ایک مضمون لکھا جس میں اس نے ایک تجویز پیش کی کہ جس طرح ہر چیز پر ایکسپائری تاریخ یعنی قابل استعمال کی مدت لکھی ہوتی ہے بالکل اسی طرح سے کرنسی نوٹوں پر بھی قابل استعمال کی مدت پانچ سال لکھی جائے اور جب تاریخ قریب آئے تو بنک والے اس نوٹ کو تبدیل کرکے نئی تاریخ والا نوٹ دے دیں اس طرح کالے دھن کو ختم کرنے میں مدد ملے گی اور سرمایہ بھی گردش میں رہے گا جس سے معاشی مسائل بھی حل ہونگے اور نوٹ لمبے عرصے تک مارکیٹ سے غائب نہیں ہونگے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ جہالت اور افلاس ترازو کے دو ایسے پلڑے ہیں جو اگر متوازی ہو جائیں توکفر کے نزدیک لے جا سکتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔