وجود

... loading ...

وجود

دُہری شہریت سے دُہری سیاست تک

جمعرات 23 جولائی 2020 دُہری شہریت سے دُہری سیاست تک

دُہری شہریت کا معاملہ شاید پاکستان میں کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ مسئلہ صرف دُہری شہریت کا نہیں ہے بلکہ دُہری نیت،دُہرے رویوں ، دُہری قانون سازی اور گزشتہ چالیس برسوں میں ملک میں رواج پاجانے والی دُہری سیاست کا ہے ۔ یہ ہمارے معصوم سیاست دانوں کی دُہری خواہشیں اور دوہرے سیاسی مفادات ہی ہیں۔ جنہوں نے دُہری شہریت کے سیدھے سادھے سے معاملہ کو ایک گنجلک مسئلہ بناکر زندہ رکھا ہوا ہے ۔ وگرنہ سوچنے کی بات ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتوں کے مابین دُہری شہریت کے خلاف اجماع پایا جاتاہے تو پھر آخر یہ سب باہم مل کر قومی اسمبلی میں دُہری شہریت کے عفریت کو قانون سازی کی تلوار کے ایک وار سے ہلاک کیوں نہیں کردیتے ۔مگر مصیبت یہ ہے کہ پاکستانی عوام جس دُہری شہریت کو ایک عفریت سمجھتی ہے وہی دُہری شہریت سیاست دانوں کے لیے ایک پسندیدہ پالتو ہے ۔ دُہری شہریت کے معاملہ پر سیاسی جماعتوں کی اصل دُہری سیاست یہ ہے کہ وہ دل سے کسی بھی صورت دُہری شہریت کے قانون کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے ،اِس میں چھوٹی سی ترمیم کرنے کی بھی روادار نہیں ہیں ۔ کیونکہ دُہری شہریت ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اُن کے اہل و عیال کے لیے وہ ’’ سیاسی آکسیجن ‘‘ ہے ،جس پر ان کی سیاست کے زندہ رہنے کا دارومدار ہے اور اِس سیاسی آکسیجن کے بغیر یہ وطن عزیز پاکستان کے غریب و مقہور عوام پر حکمرانی کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ یعنی جب بھی پاکستانی عوام پر حکومت کرتے اِن کا دل گھبرانے لگتا ہو تو پھر یہ دُہری شہریت کے بل بوتے پر ہی کچھ روز سستانے اور دل بہلانے کے لیے دیارِ غیر کے پرفضا مقامات پر موجود اپنے ذاتی گھروں کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں ۔
پاکستانی عوام بھی کتنی سادہ ہے کہ سوچتی ہے کہ مسلم لیگ ن دوہری شہریت کے قانون کو ختم کرنے میں حقیقی دلچسپی رکھتی ہے ۔ بھئی اگر مسلم لیگ ن نے دوہری شہریت قانون کو ختم کردیا تو پھر اس کے ایک درجن سے زائد وہ محب وطن رہنما سیر سپاٹے اور اپنی تکان اُتارنے کے لیے کہاں جائیں گے جن کے پاس خلیجی ممالک کے ایک سے زائد اقامے ہیں اور اِن اقاموں کے زیر سایہ عرب ملکوں میں یہ اور ان کے بچے بادشاہوں ،شہزادے اور شہزادیوں کی مانند زندگی کے مزے اُڑاتے ہیں ۔ جبکہ شریف خاندان کے مستقبل کے معمار اور ہونہار یعنی مریم نواز اور شہباز شریف کے بچوں کے بچے جن کے منہ میں پالنے میں ہی دُہری شہریت کی چوسنی دے دی گئی تھی ۔ وہ کیسے بھلا چاہیں گے کہ پاکستان میں دُہری شہریت کے بجائے ایک شہریت ہو اور بھانت بھانت کے لال ،نیلے ،پہلے پاسپورٹوں کے بجائے فقط ایک سبزہلالی رنگ والا پاسپورٹ ان کے بچوں کے ہاتھ میں ہو۔ لطیفہ ملاحظہ ہو کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف جن کے خون کے پلیٹ لیٹس پاکستان کی سرزمین پر پوری نہ ہوسکیں اُن کی یکے بعد دیگرے آنے والی نسلوں کی اُمیدوں پر بھلا ایک پاکستانی شہریت کا قانون کیسے پورا اُتر سکتاہے۔ اِس لیے جب بھی مسلم لیگ ن کے رہنما دوہری شہریت کے معاملہ پر سیاسی بیانات داغ رہے ہوتے ہیں تو ہم لاکھ ضبط سے کام لے لیں لیکن پھر بھی ہماری دوہری ہنسی نکل ہی جاتی ہے ۔
یادش بخیر ! کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی دُہری شہریت کے خلاف عملی طور پر کچھ کرگزرنے کی خبریں سامنے آنا شروع آجائیں تو ، اِس طرح کی خبروں کو قربِ قیامت کی ایک بہت بڑی نشانی ہی قرار دیا جاسکتاہے۔وگرنہ یہ وہی پاکستان پیپلزپارٹی ہے جس کی سندھ حکومت اپنے پچھلے دورِ حکومت میں سندھ کابینہ کے اجلاس بھی دوبئی میں طلب فرمایا کرتی تھی اور سندھ کابینہ کے ارکان کی فوج ظفر موج عوامی خرچے پر مع اپنے اہل و عیال اجتماعی طور پر کم و بیش ہر ہفتہ ہی سندھ کابینہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے عازم دوبئی روانہ ہوجایا کرتے تھے۔ جبکہ حفیظ شیخ جن کے مشیر خزانہ بنائے جانے پر آج کل جناب بلاول بھٹو زرداری کے جانب سے تحریک انصاف کی حکومت کو دوہری شہریت کے طعنے اور مہنے دیئے جارہے ہیں ۔خدا لگتی تو یہ ہے کہ حفیظ شیخ کو بطور وزیرخزانہ متعارف کروانے کا سہرا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے سر ہی جاتاہے ۔ حالانکہ حفیظ شیخ جب پیپلزپارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر خزانہ کے عظیم منصب پر فائز ہوئے تھے ،تب بھی موصوف پر دُہری شہریت کے الزام لگائے تھے لیکن چونکہ اُس وقت زمامِ اقتدار خوش قسمتی سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ہاتھوں میں تھی لہذا سیاسی رو میں سب روا تھا ۔ ویسے بھی جب حسین حقانی جیسے سینکڑوں غیرسیاسی افراد امریکہ سے ہن کی طرح برس رہے ہوں تو ایسے میں کس کی نظر بے چارے حفیظ شیخ کی دوہری شہریت کے الزام پر پڑنا تھی۔ مگر چونکہ اَب تحریک انصاف کی حکومت میں حسین حقانی جیسے قبیل کے افراد کا پاکستان میں داخلہ ممنوع قرار پایاہے اور مغرب نواز نام نہاد این جی اوز کا بوریا بستر بھی پاکستان سے گول کردیا گیا ہے ۔ شاید اسی لیے پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی دُہری شہریت کے قانون میں سقم دکھائی دینا شروع ہوگئے ہیں ۔
ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دوہری شہریت کا قانون ایک عوام دشمن قانون ہے اور اِسے فی الفور ختم ہوجانا چاہئے لیکن اِس بات میں پورا پورا شک ہے کہ دُہری شہریت کا یہ قانون پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی ختم کرسکتی ہیں یا اِس مستحسن کام میں کسی بھی قسم کی قانونی سہولت اور سیاسی معاونت فراہم کرسکتی ہیں ۔ اپوزیشن جماعتوں کے اِسی دوہرے سیاسی رویوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ دوہری شہریت کے خلاف بل قومی اسمبلی میں لانے کا اعلان کردیں ۔پھر دیکھئے گا کہ کیسے اپوزیشن جماعتیں دوہری شہریت کے فوائد و فضائل بیان کرنے میں رطب اللسان ہوجائیں گی۔ کیونکہ مسئلہ دوہری شہریت نہیں دوہری سیاست کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم کی شخصیت کے روحانی و سماجی پہلو

قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان وجود بدھ 25 دسمبر 2024
قائد اعظم ، دنیا کے خوش لباس اور نفیس انسان

رناں والیاں دے پکن پراٹھے وجود بدھ 25 دسمبر 2024
رناں والیاں دے پکن پراٹھے

ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار وجود بدھ 25 دسمبر 2024
ہتھیاروں کی دوڑ اور امریکی دوہرا معیار

پاکستان کے میزائل پروگرام پرامریکی خدشات وجود بدھ 25 دسمبر 2024
پاکستان کے میزائل پروگرام پرامریکی خدشات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر