وجود

... loading ...

وجود

عدل و انصاف اور منصب ِقاضی

پیر 13 جولائی 2020 عدل و انصاف اور منصب ِقاضی

تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی ریاست کو کامیاب اور کسی حکمران کو مثالی و بہترین قرار دیا گیا تو اس کی کسوٹی عدل و انصاف کو ہی سمجھا گیا۔ عدل و انصاف ہی وہ معیار ہے جو کسی فرمانروا کے کردار کا تعین کرتا ہے۔ عدل و انصاف صرف رعایا یا عوام کے درمیان برابری کے سلوک کا نام نہیں بلکہ عادل و منصف شخص وہ ہے جو سب سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کرے۔ انبیائ، ائمہ، ولی و بزرگ ہستیوں کی صداقت کا پیمانہ بھی عدل و انصاف کو ہی قرار دیا گیا۔
عادل اعظم محمد مصطفی ؐ کا وہ اعلان آج بھی ہر عدل و انصاف فراہم کرنے کے دعویٰ دار کی روح تک کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے کہ’’اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہے تو آکر وصول کرلے‘‘ اور جب اس اعلان کے جواب میں ایک شخص نے قصاص کا دعویٰ کیا تو آپ ؐ نے باوجود کمزور دعویٰ کے چھڑی اس شخص کے ہاتھ میں دے کر اسے قصاص وصول کرنے کی دعوت دی یہ دعوت اعلان پر عمل کی مہر تھی۔
بات عدل و انصاف کی ہو یا نصفت کی ، فریقین کے درمیان فیصلہ کرنے والا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کردار کبھی عادل تو کبھی منصف، کبھی محتسب تو کبھی قاضی یا جج کہلاتا ہے۔ یہ ریاست کا انتہائی اہم منصب ہے جہاں اس کی لغرش پائے تخت کو لرزاں کردیتی ہے وہاں اس کا استقلال ڈوبتی ہوئی سلطنت کو عظیم ترین اقتدار میں بدل دیتا ہے۔ اسی امر کی جانب دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیر اعظم چرچل نے اشارہ کرتے ہوئے بڑے پراعتماد لہجہ میں کہا تھا ’’جاکر میرے ملک کی عدالتوں کو دیکھو اگر وہاں انصاف ہو رہا ہے تو جرمنی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘۔ اس حقیقت کو محمد علی بن علی ابن طبا طباالمعروف ابن طقطقی نے کچھ یوں بیان کیا کہ’’ ریاستیں کفر پر تو قائم رہ سکتیں ہیں لیکن ظلم پر نہیں‘‘۔
جب 656 ہجری بمطابق 1258 عیسوی ہلاکو خان نے المستعصم کو شکست دے کر بغداد کو تاراج کیا تو اس وقت کے تمام جید علما کو مستنصریہ میں جمع کرکے فتویٰ دریافت کیاجو یہ تھا کہ کافر مگر عادل فرمانروا بہتر ہے یا مسلمان غیر عادل سلطان؟ رضی الدین علی بن طائوس نے علماء کی خاموشی دیکھی تو آگے بڑھے اور استفتیٰ پر تحریر کیا کہ ’’کافر عادل، غیر عادل مسلمان سے بہتر ہے‘‘ تو دوسرے علما نے اس جواب کو تسلیم کیا۔
اوائل میں منصف کے فرائض حاکم یا بادشاہ خود انجام دیتے تھے لیکن رفتہ رفتہ جب سلطنتوں میں وسعت آئی اور مقدمات کی بھرمار ہوئی تو قضاۃ کا الگ محکمہ قائم کردیا گیا۔ یوں باقاعدہ طور پر عدالتی نظام وجود میں آیا اور اس کے لیے قاضی اور قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کا تقرر کیا گیا۔ اس کے بعد حکمران کے عادل اور باکردار ہونے کا انحصار عدلیہ کی آزادی اور اہل افراد کا قاضی کے منصب پر تقرر قرار پایا۔ قاضی کو اپنے فیصلوں میں کتنا آزاد ہونا چاہیے اس کا عملی نمونہ ہمیں سلطان محمود غزنوی کے عہد میں ہونے والے اس واقعہ سے ملتا ہے جب ایک رات سلطان محمود غزنوی نے اپنے خاص دوستوں اور سپاہ سالاروں کے ساتھ بزم ساغر و مینا منائی۔ تمام رات شرکائے محفل شراب پیتے رہے اور جاگتے رہے یہاں تک کہ صبوحی (صبح کی شراب) بھی پی گئی۔ جب یہ افراد سو کر اٹھے تو ان افراد میں شامل سپاہ سالار علی نوشتگین نے جو اس وقت خمار اور سر درد کا شکار تھا، سلطان سے اپنے گھر جانے کی اجازت چاہی۔ شب بیداری اور شراب نوشی میں بے اعتدالی نوشتگین پر اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ محمود غزنوی نے جب یہ حالت دیکھی تو کہا ’’اس عالم میں دن دیہاڑے جانا مناسب نہیں ہے، ظہر کے وقت تک تم یہیں ٹھہرو اور جب نشے کی کیفیت ختم ہوجائے تو چلے جانا۔ اندیشہ ہے کہ اگر تمہیں اس حالت میں محتسب نے دیکھا تو حد جاری کرے گا اس طرح تمہاری توہین ہوگی اور میرا دل دکھے گا‘‘۔ نوشتگین جو کہ پچاس ہزار کی سپاہ کا کمان دار تھا ،بڑا جنگجو اور بہادر تھا اور اس گھمنڈ میں تھا کہ اس کی حیثیت کے زیر اثر محتسب اس پر حد جاری کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لاسکتا ،بادشاہ سے جرنیلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر جانے کی ضد کرنے لگا۔
سلطان نے بادل نخواستہ اسے جانے کی اجازت دے دی ۔ نوشتگین اپنے غلاموں اور ملازموں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ اپنے مکان کی طرف چل پڑا۔ ادھر محتسب اپنے ایک سو سواروں اور پیادوں کے ساتھ روز مرہ کے گشت پر تھا۔ سپاہ سالار کو نشہ کی حالت میں پایا تو گھوڑے سے اتارنے کا حکم دیا اور خود بھی گھوڑے سے نیچے آگیا۔ جس کے بعد محتسب نے خود اپنے ہاتھ سے سپاہ سالار نوشتگین پر حد جاری کی اس بری طرح سے کوڑے برسائے کہ نوشتگین زمین پرلوٹ پوٹ ہوگیا لیکن سپاہ سالار کی فوج اور اس کے حوالی موالی، سب دیکھتے رہ گئے اور کسی کو زبان ہلانے کی بھی جرأت نہ ہوسکی ۔ یہ محتسب ایک ضعیف العمر ترک خادم تھا اور جنگوں میں بڑی خدمات انجام دے چکا تھا۔ محتسب سپاہ سالار کو سزا دے کے جاچکا تھا، اب سپاہ سالار کو لوگ اٹھا کر اس کے گھر لے گئے۔ دوسرے دن جب نوشتگین نے محمود غزنوی کو اپنی ننگی پشت دکھائی تو سلطان بہت ہنسا اور کہا کہ توبہ کرو کہ اب نشے کی حالت میں اپنے مکان سے باہر نہیں جائوگے۔ یہ سلطان محمود غزنوی کا مضبوط اور باضابطہ نظام تعزیرات تھا جس میں ہر شخص بلا تفریق و امتیاز اور بلا لحاظ عہد اپنے کیے کی سزا پاتا تھا۔
منصف یا قاضی کا منصب جہاں اتنا مضبوط، باوقار، بااختیار اور بااثر ہونے کا خواہاں ہے وہاں اتنا ہی نازک اور گراں قدر ذمہ داریوں و جواب دہی کے زیر اثر ہے کہ پرہیزگار، زہدو تقویٰ اورا علیٰ ترین شرافت کی حامل ہستیاں بھی اس بار گراں کو اٹھانے سے معذرت خواہ نظر آئے۔ حضرت ابو حنیفہ کو جب حاکم عراق یزید بن عمر ابن ہیبر نے کوفہ کے قاضی القضاۃ کے منصب کی پیشکش کی تو امام ابو حنیفہ نے ایک سو دس کوڑوں کی سزا کو اس منصب پر ترجیح دی۔ خلیفہ المنصور کے اصرار پر بھی آپ نے کوفہ کی قضاۃ سے معذرت کرلی اور کہا کہ میں خود کو اس منصب کا اہل نہیں پاتا ۔جس کے جواب میں المنصور نے کہا ’’تم جھوٹے ہو‘‘ تو امام ابو حنیفہ نے کہا ’’تو آپ نے خود فیصلہ کردیا ایک جھوٹا شخص کبھی قاضی بننے کا اہل نہیں ہوسکتا‘‘۔
امام ابو حنیفہ ایک اہل نظر انسان تھے شاید ان کے پیش نظرحضرت علیؓ کا یہ فرمان تھا جو انہوں نے قاضی شریح کو مخاطب کرکے فرمایا ’’اے شریح جس مسند پر تم بیٹھے ہو اس پر نبی یا وصیِ نبی بیٹھتاہے یا وہ جو شقی و بدبخت ہوتا ہے‘‘ یا پھر وہ وہ تحریر جو درشہر علم ؓ نے حضرت رفاعہ ابن شداد کی ہدایت کے لیے فرمائی جب انہیں اہواز کا قاضی مقرر کیا۔
’’یہ منصب ایک امانت ہے جو اس میں خیانت کا مرتکب ہوگا وہ قیامت تک اللہ کی لعنت کا مستحق قرار پائے گا‘‘۔
اول الذکر قول اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ اگر قاضی کے عہدے پر بیٹھے شخص نے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا تو وہ درجے میں نبی اور وصیِ نبی کے برابر ہوگا بصورت دیگر وہ ظالم اور بدبخت قرار پائے گا۔قاضی یا منصف کے عہدے کی سخت ذمہ داری اس حدیث سے مزید اجاگر ہوتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے ،رسول اللہ نے فرمایا : جس نے قاضی کا عہدہ لیا وہ چھری کے بغیر ہی ذبح کردیا گیا‘‘۔
متذکرہ بالا فرامین، مزاحمتِ ابو حنیفہ اور حدیث رسول اللہ کی روشنی میں یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قاضی یا جج کا منصب اہل دنیا کی نظر میں شان و شوکت، مطلق العنانیت، کروفر بااثر اور بااختیار ہونے کا سرچشمہ ہے لیکن اہل معرفت کے لیے کوہِ گراں، کانٹوں کا تاج، فریب ِدنیا اور سخت ترین امتحان ہے لیکن جو اس امتحان میں کامیاب ہوجائے تو پھر انبیاء کی ہمنشینی اس کا مقدر ہے۔
فریقن کے تنازعات کا حل مروجہ قانون اور شرعی احکامات کی ہدایت میں تلاش کرنا گوناگوں پیچیدگیوں کی وجہ سے کٹھن اوردشوار ہے اور اچھے اچھے ذی فہم بھی صحیح نتیجہ تک پہنچنے سے قاصر ہوتے ہیں اور اگر پہنچ جائیں تو داخلی دبائو، خارجی دبائو، مالی مفادات ، رشوت، سفارش، ذاتی تعلقات و روابط وغیرہ فیصلے کی راہ میں رکاوٹ حائل کردیتے ہیں جس کی وجہ سے طالب دنیا قاضی عدل و انصاف فراہم کرنے کی بجائے حق تلفی پر آمادہ ہوجاتا ہے اور جن کے دل اور ضمیر فریب دنیا سے مبرا ہوتے ہیں اور احساس فرض قلب سلیم میں بدرجہ اتم ہوتا ہے وہی افراد اس حساس منصب سے عہدہ برآں ہوتے ہیں اور ان کی ذمہ داریوں کی تکمیل میں کوئی فرق نہیں آتا۔
قضا کا مسئلہ اتنا نازک ہے کہ رسول اللہ ؐ اور آپ کے محترم صحابہ نے اس منصب کو عزت و زینت بخشی اور خلفائے راشدین نے خود اس فریضہ کو انجام دیا۔ علامہ شبلی نعمانی اپنی کتاب الفاروق میں لکھتے ہیں کہ عہد اسلام میں پہلی بار عدالت کا باقاعدہ نظام حضرت عمر نے رائج کیا اور انتظامی صیغے سے عدالتی صیغہ کو الگ کیا۔ اس سے قبل خلیفہ وقت اور ملکی افسران ہی قضا کا کام کرتے تھے۔ حضرت عمر نے گورنر کوفہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام عدالتی نظام کے اصولی احکامات سے متعلق اصول و ضوابط اور آئین پر مبنی ایک فرمان تحریر کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔
’’خدا کی تعریف کے بعد قضا ایک ضروری فرض ہے لوگوں کو اپنے حضور میں اپنی مجلس میں اپنے انصاف میں برابر رکھو تاکہ کمزور، انصاف سے مایوس نہ ہو اور رودار کو تمہاری رو رعایت کی امید نہ پیدا ہو جو شخص دعویٰ کرے اس پر بار ثبوت ہے اور جو شخص منکر ہو اس پر قسم، صلح جائز ہے بشرطیکہ اس سے حرام، حلال اور حلال ، حرام نہ ہونے پائے۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کرسکتے ہو۔ جس مسئلے میں شبہ ہو قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ ہو تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر خیال کرو پھر قیاس لگائو جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے اس کے لیے ایک معیاد مقرر کرو اگر وہ ثبوت دے تو اس کا حق دلائو ورنہ مقدمہ خارج۔ مسلمان سب ثقہ ہیں باستثنائے ان اشخاص کے جن کو حد کی سزامیں درے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دی ہو یا دلائی ہو اور وراثت میں مشکوک ہوں‘‘
یہ اصول آج بھی عدالتی نظام کے لیے مشعل راہ ہیں۔حضرت عمر نے قاضی کے تقرر کے لیے بھی حضرت ابو موسیٰ اشعری کو رہنما اصول تحریر فرمائے اور مخصوص محاسن کے حامل افراد کو ہی قاضی کے عہدے پر تعینات کرنے کا حکم فرمایا ان میں اہم خصوصیت یہ تھیں کہ اس منصب پر صرف بااثر اور صاحب عظمت شخص کو مقرر کیا جائے حضرت عمر نے اپنے تئیں منصب قضا کو رشوت ستانی سے محفوظ رکھنے کے لیے صرف دولتمند اور معزز ترین شخص کو قاضی مقرر کرنے کا فرمان لکھا جس کی وجہ یہ فرض کی کہ دولت مند شخص رشوت کی جانب مائل و راغب نہیں ہوگا لیکن فطرت انسانی کچھ اور ہی کہتی ہے۔

شیخ سعدی فرماتے ہیں:
نیم نانے گر خورد مرد خدا
بذل درویشاں کند نیمے دگر
ملک اقلیمے بگیرد بادشاہ
ہمچناں دربند اقلیمے دگر

(اگر کوئی اللہ والا آدھی روٹی کھائے گا،وہ آدھی دوسرے درویش کو دے دے گا،اگر بادشاہ کو ایک اقلیم (سلطنت) پر حکومت حاصل ہوجائے ،وہ دوسری اقلیم کی فکر میں پڑ جاتا ہے)
یعنی دولت کی زیادتی اس کی ہوس کو مزید بڑھاتی ہے اور اس فطرت انسانی کے زیر اثر ایک دولتمند شخص نے منصب قضا پر رشوت لے کر تاریخ اسلام میں اپنا نام پہلے رشوت خور قاضی کے طور پر درج کروالیا۔
(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی وجود جمعه 29 نومبر 2024
سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں تبدیلی

انتقام کی فصل وجود جمعه 29 نومبر 2024
انتقام کی فصل

بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم وجود جمعه 29 نومبر 2024
بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم

خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر