... loading ...
پاکستان کی سیاسی و انتظامی تاریخ میں یہ پہلی بار امر واقع ہوا ہے کہ بیک وقت ایک، دو نہیں بلکہ پوری تین جے آئی ٹی رپورٹس عوام کے مطالعہ کے لیے پیش کردی گئی ہیں۔قصہ مختصر کچھ یوں ہے کہ سندھ حکومت نے وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کی جانب سے چیف سیکریٹری سندھ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی دائر کردہ درخواست کے دباؤ میں آکر عذیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس جاری کر دیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے تینوں جے آئی ٹیز کی رپورٹس محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کے بعدسندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ’’ اِن تینوں جے آئی ٹی رپورٹس میں آصف علی زرداری کا نام کہیں درج نہیں ہے‘‘۔یہ جملہ پریس کانفرنس میں اتنی بار دہرایا گیا کہ گمان ہونے لگا کہ شاید جے آئی رپورٹس شائع ہی فقط اِس مقصد کے لیے کی جارہی ہیں کہ عوام الناس کو معلوم ہو سکے کہ اِن تینوں جے آئی ٹی میں آصف علی زرداری کا نام کہیں موجود نہیں ہے اور واقعی سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونی والی جے آئی رپورٹس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے کسی بھی اہم رہنما کا نام موجود نہیں ہے ۔
خیر اگر سندھ حکومت کے نزدیک تینوں جے آئی رپورٹس کی بنیادی خوبی ہی یہ ہے کہ اِن میں پاکستان پیپلزپارٹی کا اعلیٰ قیادت کا نام نہیں ہے تو بھلا اِس پر پاکستانی عوام کو کیا اعتراض ہوسکتاتھا۔ پس! پاکستانیوں نے ایسی جے آئی ٹی رپورٹس ، جن میں آصف علی زرداری کا نام بھی کہیں نہیں لکھا ہوا ہے، پڑھنے کے لیے وہ عجلت اور بے تابی دکھائی کہ کئی گھنٹوں کے لیے وہ سرور ہی ڈاؤن ہوگیا ،جہاں پر سندھ حکومت نے جے آئی ٹی رپورٹس مطالعہ کے لیے رکھی تھیں ۔ اِس خبر کے منظر عام پر آجانے کے بعد کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ بھی لگادی کہ’’جے آئی ٹی رپورٹس پڑھنے والوں کا بے تحاشا رش انٹرنیٹ سرور پراِس وجہ سے ہے کہ عوام بذات ِ خود تصدیق کرنا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی تینوں جے آئی ٹی رپورٹس میں آصف علی زرداری کا نام موجود نہیں ہے ‘‘ ۔
ابھی عوام اِس سیاسی حیرانگی سے نکل ہی نہیں پائے تھے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی تینوںجے آئی رپورٹس میں جناب آصف علی زرداری کا نام موجود نہیں ہے کہ اگلے ہی دن وفاقی وزیر ِ برائے بحری امور علی زیدی نے ایک اور جے آئی ٹی رپورٹ یہ کہتے ہوئے پیش کر دی کہ’’ آج آپ کے سامنے عزیر بلوچ کی جو جے آئی ٹی رپورٹ رکھ رہا ہوں،صرف یہ ہی اصلی ہے کیونکہ اِس رپورٹ کے ہر صفحے پراسپیشل برانچ، سی آئی ڈی، آئی ایس آئی، آئی بی، پاکستان رینجرز اور ایم آئی کے حکام کے دستخط ہیں، اس جے آئی ٹی رپورٹ میں اگر کسی کے دستخط نہیں تو وہ سندھ حکومت ہے، سندھ حکومت نے جو جے آئی ٹی جاری کی ہے وہ الگ ہے، سندھ حکومت کی جاری کی گئی جے آئی ٹی پر 4 صفحات پر دستخط ہیں، میرے پاس جو جے آئی ٹی ہے اس کے ہر صفحے پرعزیر بلوچ کے دستخط ہیں اور اس رپورٹ میں فریال تالپور، عبدالقادر پٹیل، شرجیل میمن، یوسف بلوچ، ذوالفقار مرزا اور نثار مورائی کا نام ہے ‘‘۔
مگر سچی بات تو یہ ہے کہ عوام وفاقی وزیر برائے بحری اُمور علی زیدی کی اِس پریس کانفرنس سے بھی شدید مایوس ہوئی کیونکہ اُن کی پیش کردہ مبینہ اصل اور مکمل جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا نام موجود نہیں ہے۔یعنی سندھ حکومت کے ترجمان جناب مرتضی وہاب کم ازکم اپنے اِ س دعوی پر تو کھرے اُترے کہ سندھ حکومت کی پیش کردہ تینوں جے آئی ٹی رپورٹس میں آصف علی زرداری کا نام نہیں ہے ۔ جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ اصل اور مکمل جے آئی ٹی کس کے پاس ہے ؟۔کیا سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی جے آئی رپورٹس اصل اور مکمل ہیں؟ یا پھر وہ جے آئی ٹی رپورٹس اصل اور مکمل ہیں جنہیں وفاقی وزیر برائے بحری اُمور علی زیدی نے پیش کیا ہے؟۔ اِس عجیب و غریب تنازعہ کا فیصلہ یا تو وہ افراد کرسکتے ہیں جنہوں نے جے آئی رپورٹس مرتب کی ہیں یا پھر بقول علی زیدی ’’ چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے پر ازخود نوٹس لیں، جس کا بھی نام جے آئی ٹی میں ہے، اس سے تفتیش کی جائے‘‘۔بصورت دیگر جے آئی ٹی رپورٹس کی اصل اور نقل کا فیصلہ کرنے کے لیے حکومت ِ سندھ کی طرف سے ایک جے آئی ٹی بھی بنائی جاسکتی ہے۔
بہرکیف ایک بات طے اصل جے آئی ٹی 37 صفحات والی ہے یا 43 صفحات والی ۔ لیکن اِن رپورٹس میں جو بھی انکشافات کیے گئے ہیں ،اُنہیں پڑھنا ایک کمزور دل رکھنے والے شخص کے لیے تو قطعی ممکن نہیں ہے ۔ یہ جے آئی رپورٹس سندھ ،خصوصا کراچی کے معاشی ،سماجی ،اخلاقی و انسانی استحصال کی ایسی ہوش ربا ،ہولناک اور دل دہلادینے والے داستان ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد کراچی میں گزشتہ چالیس برسوں سے حکمرانی کرنے والے نام نہاد سیاسی نمائندوں کو نفرت سے دھتکارنے کو من کرتاہے۔عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے جاسوسی اور 198 افرادکو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔جبکہ بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتشزدگی حادثہ نہیں دہشت گردی تھی،ایم کیو ایم رہنما حماد صدیقی اور رحمان بھولا نے 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے پر فیکٹری میں آگ لگائی۔
دوسری جانب نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ میں سندھ کے انتظامی اداروں میں مالی کرپشن کے لیے اختیار کیے سیاسی طریقہ واردات کی نقاب کشائی فرمائی گئی ہے ۔ عوام اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ جے آئی ٹی رپورٹس آج تو بغیر کسی کاروائی کے مختلف سیاسی حیلوں اور بہانوں کے باعث داخل دفتر کردی جائیں گی ۔کیونکہ اِن جے آئی ٹی رپورٹس میں بیان کیے مجرموںکو کیفر کردار تک پہنچانے کی انتظامی طاقت نہ تو علی زیدی کے پاس اور نہ ہی سندھ حکومت کے پاس اتنا حوصلہ ہے کہ انہیں بچا سکے۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ظلم ،قتل و غارت گری اور کرپشن کا بازار گرم کرنے والے مجرم اپنے انجام تک نہیں پہنچ سکیں گے ۔یقینا قدرت کی لاٹھی بے آواز ہے اور یہ لاٹھی مستقبل قریب میں عوام الناس پر سیاست کی آڑ میں ظلم وجبر کرنے والوں پر ضرور برسے گی ۔اِس بار عوام کو سیاسی بتوں سے نہیں ،صرف اپنے خدائے واحد سے اُمید ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔