... loading ...
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع بازارِ حصص، پاکستان ا سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر شدت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے حملے کی ناکام کوشش میں چار حملہ آوروں سمیت دس افراد ہلاک ہو گئے ۔بظاہر اِس حملے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی بغل بچہ جماعت مجید بریگیڈ نے قبول کرلی ہے مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے اِس واقعہ کے پس پردہ بھی بھارتی خفیہ تنظیم’’ را ‘‘ہی ملوث ہے ،جس کی باقاعدہ تصدیق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی فرمادی گئی ہے ۔سب سے حیران کن با ت یہ ہے کہ ا نتہائی منظم انداز میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے اور اس پر قبضے کی خواہش لے کر آنے والے 4 دہشت گرد صرف 8 منٹ کی کارروائی کے دوران ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچا دیئے گئے۔ دہشت گردوں نے صبح دس بجے کے قریب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت میں پارکنگ کے راستے سے داخل ہونے کی کوشش کی،یہ ہی وہ وقت ہے جب اِس عمارت میں کاروباری سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔جبکہ کراچی سٹاک ایکسچینج کا دفتر کراچی کی ’’وال سٹریٹ‘‘ کہلائی جانے والی اہم ترین شاہراہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے ،جہاں پرا سٹیٹ بینک آف پاکستان، پولیس ہیڈ کوارٹر سمیت دیگر معروف بینک اور میڈیا ہاؤسز کے مرکزی دفاتر بھی موجود ہیں۔اس کے علاوہ سندھ رینجرز کا مرکزی دفتر بھی ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہی ہے۔ یعنی اگر کسی بھی وجہ سے دہشت گردوں کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو یرغمال بنانے کا منصوبہ کامیاب ہوجاتاتو کراچی پوری طرح سے مفلوج بھی ہوسکتاتھا۔ہزار شکر کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چار محافظوں اور کراچی پولیس کے اہلکاروں نے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے دہشت گردوں کی طرف سے کی جانب سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ اور دستی بموں کے حملوں کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے سخت اور انتہائی بروقت جوابی کارروائی کی ۔جس کا حتمی نتیجہ تمام دہشت گردوں کی ہلاکت اور بھارتی خفیہ ایجنسی را اور این ڈی ایس کی ایک اور بڑی ناکامی پر منتج ہوا۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے دہشت گردی کے اِ س واقعہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت و صلاحیت کی دھاک ایک بار پھر سے دنیا بھر پر ثابت کردی اور عالمی ذرائع ابلاغ اِس واقعہ کی کوریج کے دوران انتہائی واضح لفظوں میں اُن آٹھ منٹ کا بار بار تذکرہ کرتے رہے ،جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے باہم یکجا ہوکر ملک دشمن عناصر کے مذموم مقاصد کو پوری طرح سے خاک میں ملانے کی سعی پیہم کی ۔خاص طو ر پر نجی سیکیورٹی کمپنی سے تعلق رکھنے والے چار اہلکار جس طرح سے دہشت گردوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر مزاحم ہوئے ،اُسی کی بدولت یہ ممکن ہوسکا ، دہشت گردوں کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت میں داخل ہونے سے بہت پہلے ہی روک لیا گیا ۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ اتنی بڑی دہشت گردی کی کارروائی ہونے کے باوجود عمارت کے اندر حصص کی لین دین کی کاروباری سرگرمیاں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں روکی گئیں ۔ویسے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایک تسلسل کے ساتھ ملک بھر میں دہشت گردی کی کاروائیوں کو آغاز سے قبل ہی انجام تک پہنچاتے آرہے ہیں ۔ لیکن دہشت گردی کی منظم کارروائی کو کس طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ابتداء میں ہی ناکام بنادیا جاتاہے ۔ اِس کا عملی مشاہدہ پہلی بار عوام الناس نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والی دہشت گردی کی ناکام کارروائی پر ملاحظہ کیا۔
یاد رہے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے دہشت گرد حملہ میں ملوث بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی تھی جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی تھی ۔بی ایل اے کی ذیلی تنظیم مجید بریگیڈ کو مجید بلوچ نامی شدت پسند کے نام پر تشکیل دیا گیا تھا ،جس نے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملے کی کوشش کی تھی۔تاہم2006 میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔یہ تنظیم بھارت کی مدد سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بھی مخالفت کرتی رہی ہے اور اس نے اپنی حالیہ کارروائیوں میں پاکستان میں چینی اہداف کو تواتر کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔بی ایل اے کی جانب سے اگست 2018 میں سب سے پہلے جس خودکش حملے میں سیندک منصوبے پر کام کرنے والے افراد کی جس بس کو نشانہ بنایا گیا تھا اس پر چینی انجینیئر بھی سوار تھے۔اس کے بعد کالعدم بی ایل اے نے نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ تین خود کش حملہ آوروں نے کیا تھا۔اس حملے کے بعد ہی قندھار کے علاقے عینو مینہ میں ایک مبینہ خودکش حملے کی خبر آئی اور گزشتہ برس مئی میں گوادر میں پرل کانٹینیٹل ہوٹل پر بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے ارکان نے ایسا ہی ایک حملہ کیا تھا۔
عجیب بات یہ ہے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ آور دہشت گرد ’’مسنگ پرسن ‘‘کی اُس فہرست میں بھی شامل ہیں جس فہرست کی بنیاد پر گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان کی سیکورٹی کے ضامن اداروں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں قانونی اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلائی جارہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب کوئی’’ مسنگ پرسن‘‘ کسی دہشت گردی کی کارروائی میں براہِ راست شامل پایا گیاہے۔ اِس سے پہلے بھی دہشت گردی کے کئی واقعات میں بے شمار دہشت گرد بطور’’ مسنگ پرسن ‘‘شناخت کیے جاچکے ہیں ۔ یعنی اِس کا سادہ سا مطلب تو یہ ہوا کہ ’’مسنگ پرسن ‘‘ کی تلاش کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مہم چلانے والی غیر ملکی این جی اوز اور اُن سے وابستہ مشہور ومعروف سیاسی وسماجی شخصیات کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ’’سلیپنگ سیلز ‘‘ کے ساتھ وابستہ ہونے کے امکانات کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا مستقبل میں وطن ِ عزیز پاکستان کو آٹھ منٹ کی مزید دہشت گرد کارروائیوں سے بچانے کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر غیر ملکی این جی اوز کی چھتری تلے کام کرنے والی سماجی شخصیات کو بھی آٹھ منٹ کے لیے سہی بہرحال پوچھ گچھ ضرور کی جائے ۔ اُمید ہے کہ جس طرح دہشت گرد وں نے آٹھ منٹ میں شکست تسلیم کرلی تھی بالکل ویسے ہی دہشت گردوں کے یہ سہولت کاربھی آٹھ منٹ میں اپنے سارے آقاؤں کے نام اور اُن کے منصوبے ایک ایک کر کے بیان کردیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔