... loading ...
’’قبلہ کے انتقال کے باب میں تم کو کیا لکھوں ۔تعزیت کے واسطے تین باتیں ہیں ۔اظہار غم، تلقین صبر ،دعائے مغفرت ،سو بھائی اظہار ِ غم تکلف محض ہے ۔جو غم تم کو ہوا ہے ،ممکن نہیں کہ دوسرے کو ہوا ہو۔تلقین صبر بے دردی ہے ۔یہ سانحہ عظیم ایسا ہے کہ ایسے موقعے پر صبر کی تلقین کیا کی جائے ۔رہی دعائے مغفرت،تو میں کیا اور میری دُعا کیا؟مگر چوں کہ وہ میرے مربی اور محسن تھے ،لہذا دل سے اُن کے لیے دُعا نکلتی ہے۔‘‘یہ تحریر مرزا غالب کے ایک خط سے مقتبس ہے جو انہوں نے 15 نومبر 1866 کو اپنے ایک عزیز محسن کی ماتم پرسی کے لیے رقم فرمایا تھا۔مرزا غالب جیسے قادرالکلام شاعر کوبھی اگر اپنے محسن کا پرسہ لکھنا ایک کارِ محال محسوس ہو تو پھر ہم جیسے عامی کی فکری و تحریری مشکلات کیا ہوں گی شاید اس اندازہ لگانا بھی آسان نہ ہو۔ خاص طو رپر اگر واردات ِ اجل محمد رمضان جیسے ایک ایسے بطلِ جلیل پر گزری ہوجو عالم میں انتخاب ،سیاست میں بااخلاق ، معاملات میں صاحبِ ادراک اور دوستی میں سراپا اخلاص ہی اخلاص ہو تو پھر اظہار غم ، تلقین صبر اور دعائے مغفرت جیسے الفاظ بھی مرحوم کے لواحقین سے تعزیت کرنے والوں کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔محمد رمضان سے میرا تعارف کچھ زیادہ پرانا نہیں تھا ،بس یہ ہی آج سے 15 برس پہلے ماہِ جون کی ایک تپتی ہوئی دوپہر کا واقعہ ہے کہ جب شہرِ نواب شاہ کے صاحبِ طرز شاعر انوار انجم نقوی نے مجھے پہلی بار محمد رمضان سے یہ کہہ کر متعارف کروایاتھا کہ ’’اِن سے ملیے یہ ہیں محمد رمضان آرائیں ،اگر آپ ابھی تک ان سے نہیں ملے ،تو سمجھ لیجئے کہ سندھ میں رہنے کے باوجود سندھ سے نہیں ملے ‘‘۔ انوار انجم نقوی کا یہ جملہ اُس وقت تو ایک شاعر کی معمول کی مبالغہ آرائی محسوس ہوا لیکن جیسے جیسے محمد رمضان کی طلسم ہوش ربا شخصیت مجھ پر منکشف ہوتی گئی ،ویسے ویسے میں اِس جملہ کی پوری سچائی کا قائل ہوتا گیا۔یقینا محمد رمضان صوبہ سندھ کی بے لوث محبت ،مہمان نواز روایت اور اخلاص کی عملی تصویر تھے۔
محمد رمضان نے عملی سیاست کا جس وقت آغاز کیا تھا ،اُس وقت صوبہ سندھ کی سیاست ایک نظریہ اور آدرش کا نام ہوا کرتی تھی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ وہ جوں سیاست میں قدم بڑھاتے گئے کامیابی آگے بڑھ کا اُن کے قدموں کو چومتی گئی ۔ صدرِ پاکستان فیلڈمارشل ایوب خان نے جب بی ڈی الیکشن کے نام سے ملک میں پہلے بلدیاتی انتخابات کروائے تو محمد رمضان ضلع نواب شاہ سے منتخب ہونے والے پاکستان کے سب سے کم عمر بی ڈی ممبر قرار پائے اور صدر پاکستان ایوب خان نے انہیں اسلام آباد بلوا کر اُن سے حلف لیا۔ محمد رمضان صوبہ سندھ میں شہری سیاست میں اتحاد و یگانگت کے سب سے بڑے نقیب تھے۔چونکہ اَن کی بنیادی سیاسی تربیت انجمن طلباء اسلام کے سیاسی و اخلاقی پلیٹ فارم پر مولانا عبدالستار نیازی اور علامہ احمد شاہ نورانی کے زیرِ سایہ ہوئی تھی ۔ لہٰذا موصوف سیاست میں اخلاقیات و نظریات کو ہمیشہ سب سے مقدم رکھتے تھے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ جب پاکستان کی سیاست میں نظریات و افکار کے مقابل روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے اور لسانیت کی بنیاد پر سیاست کرنے والے آگئے تو محمد رمضان نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’میں نے سیاست روٹی ،کپڑا اور مکان کے حصول کے لیے نہیں شروع کی تھی کہ جو میں اِسے روٹی ،کپڑا اور مکان کے لالچ میں آکر قربان کردیتا اور نہ ہی میں یہ چاہتا تھا کہ سندھ کی شہری آبادی کو قومیت کے زہر آلودنعروں کے نام پر تقسیم در تقسیم کردیا جائے‘‘۔محمد رمضان سیاست میں فکری طور پر علامہ اقبال ؒ اور مولانا عبیداللہ سندھی کے نظریات کے خوشہ چیں ہونے کی وجہ سے لوگوںکے درمیان بھائی چارے اور یگانگت کی جوت جگانے کے لیے اپنا تن ،من دھن تو بخوشی قربان کرسکتے تھے لیکن چند مادی خواہشوںکے حصول کے لیے لوگوں کو سیاسی طور پر ایک دوسرے کا جانی دشمن کسی صورت نہیں بناسکتے تھے۔
1980 کی دہائی میں محمد رمضان سندھ کی سیاست میں در آنے والی تعصب اور مفادات کی سیاسی و لسانی گروہ بندیوں کے خلاف ایک استعارہ بن کر اُبھرے اور سندھ کو اَمن ،آشتی و بھائی چارہ کا گہوارہ بنانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ جس کی قیمت محمد رمضان کو اپنے عزیز از جان بھائی محمد اسلم آرائیں کی شہادت کی صورت میں ادا کرنا پڑی ۔ حالانکہ قاتل سبق سکھانے تو محمد رمضان کو ہی آئے تھے لیکن دھوکے میں اُن کے بھائی کو شہادت کے عظیم منصب پر فائز کرکے چلے گئے۔ اپنی جگہ بھائی کے قتل ہوجانے کے دلخراش سانحہ کے باعث محمد رمضان کے خاندان والوں نے اُنہیں فوری طور پر نواب شاہ سے لاہور ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ خوش قسمتی سے لاہور میں محمد رمضان کو معروف محقق ،اسکالر ،شمس الاطباء اور حکیم اہلسنت جناب حکیم محمد موسیٰ امرتسری ؒ کا سایہ رفاقت میسر آگیا۔حکیم محمد موسیٰ امرتسری ؒ کی صحبت نے محمد رمضان کی خوابیدہ علمی ،ادبی و سماجی صلاحیتوں کو بیدار کردیا اور ’’ادارہ مجلس رضا ‘‘ کے تحت تحقیقی و علمی کتابیں چھاپ کر اُنہیں مفت میں تقسیم کرنے کی جس عظیم الشان علم دوست تحریک کا آغاز حکیم اہلسنت نے کیا تھا اُسے مزید مہمیز دینے کے لیے محمد رمضان نے اپنے ایک اور علم دوست ساتھی صاحبزادہ ابوالخیر میاں محمد زبیر کی معیت میں ادارہ دارالفیض گنج بخش قائم کرکے جاری رکھا۔حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ادارہ اپنے قیام سے لے کر اَب تک مختلف موضوعات پر سینکڑوںتحقیقی و علمی کتب لاکھوں کی تعداد میں چھاپ کر ملک کے طول و عرض میں بالکل مفت تقسیم کرچکا ہے۔
محمد رمضان داخلی طور پر صوفی ازم سے متاثر تھے اور اُن کی تمام زندگی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی تبلیغ و اشاعت اور نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی جدوجہد میں گزری۔ بزرگانِ دین اور اُن کے مزارات سے اُنہیں خاص قلبی عقیدت و لگاؤ تھا اور یہ ہی وجہ ہے کہ روحانیت کے کئی سلاسل کی جانب سے محمد رمضان کو مجازی خلافت بھی حاصل تھی ۔ جبکہ اندرونِ سندھ کی معروف ترین بزرگ ہستی حضرت حاجی سید احسان علی قادری ،چشتی نظامیؒ نے بھی انہیں اپنی حیات میں ہی مسجد ابوذرغفاری ؓ نواب شاہ سے متصل درگاہ و لنگر خانہ غوث الاعظم دستگیر کے انتظامی معاملات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تفویض کردی تھی ۔ جسے محمد رمضان نے مرتے دم تک بحسن و خوبی نبھانے کی بھرپور کوشش کی اور گزشتہ 15 برس میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا جب انہوں نے دیے گئے فرائض کی ادائیگی میں ذرہ برابر بھی کسی قسم کی کوئی کوتاہی یا غفلت برتی ہو۔ اس کے علاوہ محمد رمضان اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان بریلویؒ کی معروف تصنیف ’’فتاوی رضویہ ‘‘ کے بھی زبردست شناور تھے اور30 جلدوں پر مشتمل اِس ضخیم کتاب میں درج کم وبیش ہر فتوی انہیں پوری طرح سے اَزبر تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نجی و خوانگی مسائل کے شرعی مسائل لے کر اکثر احباب اُن سے رجوع فرماتے رہتے تھے جنہیں یہ ’’فتاوی رضویہ ‘‘ کی روشنی میں ایک لمحہ میں ایسے حل فرمادیا کرتے تھے کہ سائل کا صرف مسئلہ ہی حل نہیں ہوجاتا تھا بلکہ اُسے اطمینان قلب کی دولت بھی نصیب ہوجاتی تھی۔ دینی مسائل کے علاوہ محمد رمضان اپنے دوست و احباب کے دنیاوی مسائل کو اپنے اسباب سے حل فرمانے میں بھی خاص دلچسپی لیتے تھے۔ مثال کے طور پر میں نے ایک بار بے دھیانی میں انہیں کہہ دیا تھا کہ’’ مجھے مطالعہ کے لیے کتب خریدنے میں شدید مشکلات کا سامنا پڑتاہے ‘‘۔ بس اُس کے بعد انہوں نے مجھے کتاب فراہم کرنا اپنے اُوپر لازم کرلیا اور گزشتہ 10 برسوں میں نہ جانے کہاں کہاں سے انتہائی ،قیمتی اور نادر موضوعات پر مشتمل ہزاروں کتب مطالعہ کے لیے فراہم کیں ۔حالانکہ میں نے اُنہیں اِس عمل سے باز رکھنے کے لیے کئی بار اُن کی منتیں بھی کیں لیکن ہر باروہ یہ کہہ کر مجھے خاموش کروا دیا کرتے تھے کہ ’’حساب ِ دوستاں درِ دل ‘‘۔
دوستوں کا حساب کتاب ہمیشہ اپنے دل میں چھپا کر رکھنے والا جب 18 جون کی شام کو چپکے سے اِس جہانِ فانی سے رخصت ہوا تو خبر ہوئی کہ ہم نے اپنے دوست و غم خوار محمد رمضان کی صورت میں کیا کچھ کھو دیا ہے ۔ وبا کے مشکل ترین ایّام میں جب اُن کی رحلت کی اطلاع موصول ہوئی تو فوراً ہی فیصلہ کرلیا کہ چاہے کچھ ہوجائے اُن کے آخری دیدار کو حفاظتی اقدامات کے ساتھ ہی سہی بہرحال ہم ضرور جائیں گے۔ کورونا وائرس کی خوف و دہشت سے لبریز فضا میں محمد رمضان کے جنازے میں ہزاروں افراد کا جم غفیر دیکھ کر منکشف ہوا کہ مرحوم کی محبت میں تو سارا عالم ہی مبتلا ہے اور کیوں نہ ہو ،آخر محمد رمضان تھے بھی تو سب کے پیارے ۔ آسمان ہمارے پیارے دوست رمضان بھائی کی لحد پر ہمیشہ شبنم افشانی کرے۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔