... loading ...
گاہے خیال آتا ہے ، ہم کیسی قوم بن گئے؟ہمارا کوئی منظر ہے نہ تہہ منظر!!ہم چاہتے کیا ہیں ، کچھ معلوم نہیں۔ تعصبات ، مفادات اور ذاتیات، فیصلہ کن عاملین ہیں۔ کوئی نظریہ، کوئی استدلال ، کوئی منطق ہماری رہنمانہیں۔ اور اب یہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس!! فیصلہ کیا آیا، ہم سب بے نقاب ہوگئے۔
فیصلہ آیا تو ملک کے انتہائی قابل وکلاء میںشامل منیر اے ملک کے چہرے پر ایک فاتحانہ وفو ر تھا وہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل تھے۔ سپریم کورٹ بار کے مختلف سابق صدور انتہائی پرجوش تھے۔حامد خان، امان اللہ کنرانی اور علی ظفر کو اس فہرست میں شامل کرلیں۔ سپریم کورٹ بار کے موجودہ صدر قلب حسن بھی نہال تھے۔ دوسری طرف کے وکلاء بھی ایک خاموش فتح کی نوید دیتے ہوئے اپنی خوشی چھپائے پھررہے تھے۔ جدہ کے جادوگر شریف الدین پیرزادہ کے’’ منصب ِجلیلہ‘‘ (براہِ کرم جلیلہ کو ’’ذ‘‘ سے نہ پڑھیں) پر نئے فائز ہونے والے بیرسٹر فروغ نسیم نے بھی نقارہ بجادیا کہ ’’ہار جیت کی بات کریں تو شاید میں مقدمہ جیت گیا ہوں‘‘۔ اُن کے اس موقف کی تائید میں بھی پورے ملک سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ منیر اے ملک کی خوشی اس نکتے کی ترجمان ہے کہ سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے نہ صرف صدارتی ریفرنس کو ہوا میںاڑا دیا ، بلکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری اظہارِ وجوہ کے نوٹس کے بھی پرزے پرزے کرکے پورے معاملے کاناس ماردیا ۔ دوسری طرف فروغ نسیم کی جیت کا اعلان اس نکتے کا ڈھنڈورچی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بالواسطہ جڑی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر میں بھجوادیا گیا، جس کی حمایت وہ برسرِ عدالت کرچکے ہیں، کیونکہ یہ عملاً اُن کے اس بنیادی موقف کی تائید ہے کہ سب کا احتساب بلاتفریق ہونا چاہئے۔ فریقین کے متضاد ردِ عمل میں اپنی اپنی ڈفلی بجانے سے واضح ہوتا ہے کہ عدالتی فیصلہ تفہیم کی سطح پر دشواریاں پیدا کررہا ہے۔ یہ دانستہ ہے یا نادانستہ، اس سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ جانبین کے لیے اس میں الگ الگ تسلیاں موجود ہیں۔یہ وہی ماجرا ہے ، جو صبح دم سیر کے دوران میں کچھ ڈاکٹرز کو جوس پیتے ہوئے پیش آیا تھا۔ اُنہوں نے ایک لنگڑاتے ہوئے شخص کو دیکھا تو ایک ڈاکٹر نے رائے دی کہ یہ آتھرائیٹس کا مریض ہے، دوسرے ڈاکٹر کی رائے یہ تھی کہ لنگڑا کر چلنے والے کا دراصل ٹخنہ مڑا ہوا ہے۔ تیسرے نے کہا مجھے لگتا ہے کہ اسے مہروں کا مسئلہ ہے۔ اس دوران میں وہ لنگڑاتا ہواشخص ڈاکٹرز کے قریب پہنچ گیا، اُس نے ان مسیحاؤں سے پوچھا: قریب میں کوئی موچی ہے، میری چپل ٹوٹ گئی ہے۔
ایک سادہ سوال ہے کہ عدالتی فیصلے میں چپل ٹوٹی ہے؟ یا واقعی مریض کو آتھرائیٹس یا مہروں کا مسئلہ ہے؟عدالتیں ابہام اور سقم کو دور کرتیں ، سوالات کے جواب دیتیں اور تنازعات کو فیصل کرتی ہیں۔ ہمارا عدالتی اُفق اس معاملے میں ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ یاد کیجیے! نوازشریف کے حوالے سے پاناما لیکس کے فیصلے پر اسی طرح مٹھائیاں کھائی گئی تھیں، مگر نتائج فیصلے کی تفہیم سے بالکل مختلف نکلے۔ اس عدالتی فیصلے میں بھی ایک اور کہانی سامنے آرہی ہے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے اب یہ کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔ ایف بی آر سے شفاف تحقیقات کی امید نہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ موصوف نے بھی فیصلے کے فوراً بعد سرشاری کے عالم میں مٹھائی کھائی تھی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینے کی بات بھی کچھ حلقوں میں ہضم نہیں ہورہی۔ یہ حکومت کی جانب سے نہیں ، بلکہ خود اپوزیشن کے حلقوں سے ایک آواز ہے۔سیاستدان اور ماہرِ قانون چودھری اعتزاز احسن نے عدالت کے سامنے سوال اُٹھایا ہے کہ محض یہ کہہ دینا کافی نہیںکہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے، عدالت عظمیٰ کو یہ وضاحت بھی کرنا ہوگی کہ ’’ریفرنس کیسے بدنیتی پر مبنی ہے‘‘؟ واضح ہے اونٹ کسی جانب کے ہوں، کسی کروٹ چین نہیںلے پارہے۔ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ لنگڑا کر چلنے والے کا مسئلہ کیا ہے؟
درحقیقت یہاں کسی بھی معاملے کا کوئی درست تناظر موجود نہیں۔ایک بے ہنگم اور بے جوڑ زندگی کے ساتھ تاریخ کے چوراہے پر پڑی قوم کشاکشِ طاقت کے کھیل میں اپنے بنیادی تصورات کی بھینٹ دے چکی ہے۔ ہمارے پاس حالیہ تاریخ میں کوئی ایک بھی واقعہ ایسا نہیں جس کی تعبیر وتشریح متفقہ ہو۔ یہ زندگی سے دستبردار ہونے جیسی ایک ہولناک حقیقت ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہمارا کوئی قومی تناظر نہیں۔ واقعات کی بُنت میں کوئی قابلِ اعتبار معیار نہیں۔ قومی اعمال کو جانچنے میںکوئی سچا اور یکساں پیمانہ نہیں۔بس آدھی ادھوری وابستگیاں ہیں، جس کے ساتھ پورے پورے مفادات پیوستہ ہیں۔ اسی سے ہمارا سچ برآمد ہوتا ہے، اسی سے تاریخ کی تعبیریں ڈھونڈی جاتی ہیں، ادبی تشبیہات تراشی جاتی ہیں۔ طاقت کی حرکیات پر چلنے والے نظم ِ اجتماعی میں یہ منظر نامہ زیادہ بھیانک اور مضرت رساں ہوجاتا ہے۔ اسی لیے یہاں پارلیمانی ، عدالتی اور سیاسی تاریخ سمیت ہر قسم کی تاریخ بس ایک بھرم اور دھوکا ہے۔ واحد حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ہر چیز ایک مشتبہ منطقے (گرے ایریا) میں کشمکش سے دوچار رہتی ہے۔یہاں طاقت کے مراکز ایک دوسرے کو اپنی ڈھب پر لانے، لے جانے کے لیے زور آزما رہتے ہیں۔ پیشِ منظر پر اُبھرنے والے’’ حقائق ‘‘درحقیقت پسِ منظر میں چلنے والے معاملات کے زیرِ اثر اُدھیڑ بُن سے دوچار رہتے ہیں۔ نوازشریف کا معاملہ اسی نوعیت کا تھا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے باب میں اس نوع کے شکوک خارج از امکان نہیں۔ یہ فیصلہ ایسا ہے کہ اگر ’’صراطِ مستقیم ‘‘ پکڑ لی گئی تو اسے اُنگلی پکڑ کر جنابِ منصف کی مرضی کی حدود میں لے جایا جائے گا۔ اگر جناب ِ منصف نے اپنی ’’صراطِ مستقیم‘‘ پر چلنے کی کوشش کی تو یہی صراطِ مستقیم اِسی فیصلے کے ذریعے تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک کی جاسکتی ہے۔ فیصلہ دونوں طرح کے امکانات سے آباد ہے۔اس میں گاتی گنگناتی شاہراہیں بھی ہیں اورسکوت افزا سناٹوں ، تیرہ وتار اندھیاروں میں اندیشوں سے گھرے راستے بھی۔ قانونی تشریح اور نکتہ آفرینی کہیں اور سمجھداروں کا مشغلہ ہوتا ہوگا، یہاں بے وقوفوں کا ہے۔
واحد نکتہ یہی نہیں، یہاں فریقین کی حمایت ومخالفت کا ماجرا بھی مختلف نہیں۔جانبین کی زور آزمائی کے نکتے خوب ہیں۔ ایک طرف ہر ایک کے بلاامتیاز احتساب کا واویلا ہے۔ دوسری طرف آئین کی بالادستی کا ڈھنڈورا، اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے پاک عدلیہ کے بروئے کار رہنے کا نظریہ!!! دونوں طرف کے تصورات بہت ہی ارفع ہیں۔ مگر ان تصورات پر کردار کی کسی گواہی کے بجائے وابستگیوں کی چھاپ لگی ہے۔ مختلف زمانوں اور حوالوں میں انہوں نے اپنے ان نظریات کے بجائے اپنی وابستگیاں نبھائی ہیں۔ اگر ان کے کردار کو دیکھیں تو حامی حامی نہیں دکھائی دیں گے اور مخالف مخالف نظر نہیں آئیں گے۔ بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل ایک جیسے نظر آئیں گے۔ شاندار سیاست کارانہ جبلت ان کی قیادت کرتی ہے، جو اُنہیں کبھی بکواسی بناتی ہے اور کبھی گونگا بہرا کردیتی ہے۔ تعصبات ، مفادات اور ذاتیات سے اُبھرنے والے اقدامات کو بھلے ہی اچھے بھلے نظریات کے زرق برق اوراق میں لپیٹ دیا جائے، اس کی بدبو کبھی نہ جائے گی۔ ایسی لایعنیت میں معنویت تلاش کرنے کے رسواکن کام پر خود کو کیوں صرف کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔