وجود

... loading ...

وجود

سب کو عوام پر غصہ ہے!

جمعرات 18 جون 2020 سب کو عوام پر غصہ ہے!

<p style=”text-align: right;”></p>
<p style=”text-align: right;”>نامور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین سائنسی اعدادو شمار اور رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کا مزاج بُری طرح سے بگڑ چکا ہے اور اَب آگے آنے والے’’وبائی ایّام‘‘ پاکستانی عوام کے لیے انتہائی سخت ہوں گے۔عالمی اداروں کے بیان کردہ اِن ہی چشم کُشا حقائق کے تناظر میں ہمارے حکمران پاکستانی عوام پر سخت غصہ ہیں کہ انہوں نے عوام کو کورونا وائرس سے بچانے کے لیے ماہِ فروری سے لے کر اَب تک اپنی دانست میں کیا کیا انتظامی بندوبست نہیں کیے ۔ مثلاً سخت لاک ڈاؤن ، نرم لاک ڈاؤن ،اسمارٹ لاک ڈاؤن ،سلیکٹڈ لاک ڈاؤن ،فینسی لاک ڈاؤن حد تو یہ ہے کہ ایک صوبے نے تو اپنی عوام کی محبت اور وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان سے سیاسی پرخاش میں ’’کیئر فار یو ‘‘نامی لاک ڈاؤن کر کے بھی دیکھ لیا لیکن عوام کی مجرمانہ غیر سنجیدگی کی وجہ سے، اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔۔۔ اور کورونا وائرس کا پھیلاؤ پاکستان میں کم ہونے کے بجائے روز افزوں بڑھتا ہی جارہاہے ۔ لہٰذا حکمرانوں کی جانب سے اِس مخدوش صورت حال کی ساری ذمہ دار ی صرف اور صرف عوام پر ہی عائد کی جارہی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے عقل مند حکمرانوں کے جاری کردہ احکامات کی نہ تو پاسداری کرتی ہے اور نہ ہی بار بار جاری ہونے والے حکومتی انتباہوں کو کان کھول کر سنتی ہے۔پس!اگر کورونا وائرس بگڑ گیا ہے تو اُسے بگاڑنے کی تمام تر ذمہ داری براہ راست پاکستانی عوام پر عائد ہوتی ہے نہ کہ حکومتِ وقت پر ۔یہ ہی وجہ گزشتہ کچھ دنوں سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں متفقہ طور پر اور تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مکمل یکسوئی کے ساتھ پاکستانی عوام پر سخت غصہ ہیں ۔
پاکستانی عوام پر غصہ تو ڈاکٹروں اور اُن کی جملہ تنظیمات کو بھی بہت ہے ۔ ڈاکٹروں کو شکوہ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف صف اوّل کے سپاہی ہونے کی حیثیت سے وہ کون سی ایسی مسیحانہ نصیحت یا کاوش ہے جو انہوں نے پاکستانی عوام کو کوروناوائرس کے مہلک اثرات سے بچانے کے لیے نہیں فرمائی ۔ مگر مجال ہے جو پاکستانی عوام نے اپنے مسیحاؤں کی ایک بھی نسخہ جاتی قسم کی ہدایت پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی ہو۔حفظ ما تقدم کے طور پر ڈاکٹروں نے تو فروری میں ہی آگاہ کردیا تھا کہ 15 مارچ کو پاکستان میں کورونا وائرس کا پیک ٹائم ہوگا ، جب یہ طبی پیش گوئی درست ثابت نہ ہوسکی تو ڈاکٹروں نے فوراً ہی رجوع کرلیا اور15 اپریل کی نئی تاریخ دے ڈالی اور جب کورونا وائرس اِس مقررہ مدت تک بھی پیک پر نہ پہنچ سکا تو ڈاکٹروں نے 15 مئی ،15جون ، 15 جولائی اور 15 اگست کی ایک مکسچر نما تاریخ دے ڈالی ہے ۔یقینا تاریخ کے اِس اینٹی کوروناٹک قسم کے مکسچر میں پائی جانے والی کسی نہ کسی تاریخ تک تو کورونا وائرس ضرور پاکستان میں اپنے پیک پر آہی جائے گا ۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی سانس ابھی تک 15 اپریل کی ہی تاریخ پر اٹکی ہوئی ہے اور ڈاکٹروں سے کورونا وائرس کے مہنگے سستے تشخیصی ٹیسٹ اورعلاج معالجہ تو کروارہی ہے لیکن کورونا وائرس کے متعلق ڈاکٹر جوکچھ بھی ’’سائنسی ارشادات عالیہ ‘‘ فرمارہے ہیں اُس پر ایمان لانے کے بجائے اُلٹا اُن کی مسیحانہ تدبیروں و نصیحتوں کا ہنسی مذاق اُڑا رہی ہے ۔ اِس لیے وطن و عزیز کے کم و بیش تمام ڈاکٹرز بھی پاکستانی عوام پر سخت غصہ ہیں ۔
ویسے آج کل غصہ تو پاکستانی عوام پر میڈیا کے دانشوروں کو بھی خوب آیاہوا ہے۔ نیوز چینل کے اینکر عوام پر اِس لیے غصہ ہیں کہ پانچ ماہ سے وہ مسلسل کورونا وائرس کے حدود واربعہ،اُس کی خطرناک علامتیں اور کورونا سے احتیاط اور علاج کے لیے جادوئی تدبیریں ،ٹونے ،ٹوٹکے سب کچھ ہی تو مع جزوی تفصیلات کے سمجھارہے ہیں لیکن عوام ہے کہ ہرفن مولا اینکروں کی تجزیاتی و مطالعاتی گفتگو سے ایک اچھے بچے کی طرح ’’ایجوکیٹ ‘‘ ہونے کے بجائے کسی ہونق کی طرح ’’انٹرٹین ‘‘ یعنی حظ اُٹھارہی ہے ۔جبکہ ملک کے ممتاز کالم نگار پاکستانی عوام پر اِس لیے غصہ ہیں کہ کورونا وائرس کے متعلق وہ جتنی سچی مچی کہانیاں ،آپ بیتیاں ،سب رنگ داستانیں اور افسانے اپنے عالمانہ کالموں میں رقم کرسکتے تھے ،پورے انہماق کے ساتھ رقم کرچکے ہیں لیکن پاکستانی عوام کالم نگاروں کے خونِ قلم سے سینچے گئے کورونا وائرس سے متعلق خصوصی کالموں کو شوق سے پڑھنے کے بجائے ارطغرل غازی کے ڈرامہ کو مکمل ذوق سے دیکھنے میں دن رات مصروف ہے ۔یعنی عوام کے نزدیک کورونا وائرس سے متعلق کالم نگار کی لکھی گئی آپ بیتی پر یقین کرنا مشکل اور ارطغرل غازی کی معرکہ الآراء بہادری کی ستائش کرنا لازم ٹہرا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بعض کالم نگار تو پاکستانی عوام پر اتنا شدید غصہ ہیں کہ وہ اپنے کالموں میں بین السطور عوام کے لیے بے نطق صلواتیں تک لکھ رہے ہیں ۔
حیران کُن بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام سب سے خوش ہے ۔ اُن سے بھی خوش ہے جنہوں نے کیئر فار یو نامی لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کی پاداش میں اُنہیں سڑکوں پر مرغا بنایا ،اُن کی گاڑیوں کے ٹائروں سے ہوا نکالی اور اُنہیں ہتھکڑیاں لگا کر حوالہ زنداں کردیا۔ پاکستانی عوام اُن پولیس والوں سے بھی خوش ہے جو تھوڑی دیر تک دُکان کھلی رکھنے کے لیے تھوڑی سی رشوت لیتے ہیں ۔پاکستانی عوام اُن نجی ہسپتالوں کے مسیحاؤں سے بھی بہت خوش ہے جو کورونا وائرس کے نام پر 60 ہزار والا ٹیکہ 11 لاکھ میں لگارہے ہیں اور فقط چار دن آئی سی یو میں رکھنے پر 17 لاکھ روپے کا بل اُس کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں ۔لطیفہ ملاحظہ ہوکہ پاکستانی عوام تو کورونا وائرس سے بھی خوش ہے لیکن اِس کے باوجود بھی سب پاکستانی عوام پر غصہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</p>


متعلقہ خبریں


مضامین
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد وجود جمعرات 28 نومبر 2024
خواتین کا عالمی دن مسرت اور سیمل کی یاد

ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ وجود جمعرات 28 نومبر 2024
ہندوتوا کا ایجنڈا، مسلمان اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ

دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ! وجود جمعرات 28 نومبر 2024
دریائے سندھ پر مزید کینالوں کی تعمیر ، سندھ کے پانی پر ڈاکہ!

روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر