... loading ...
سنتھیارچی نے میٹھی کہانیوں میں زہر گھول دیا!یہی تاریخ ہے، بخدا یہی تاریخ! تلخ، بہت تلخ۔ تھوکوں کے فرقے کی تاریخ، حکمرانوں کی تاریخ!!
درحقیقت پاکستان کی تاریخ کے پہلے سلیکٹڈ سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ بعد میں پیپلزپارٹی اس تاریخ کو بدلنے کی مسلسل جدوجہد کرتی رہی، مگر ماضی پنسل سے لکھا ہوا نہیں ہوتا کہ اُسے ربر سے مٹا دیا جائے۔سر شاہنواز بھٹو کی دوسری بیوی خورشید بیگم کے بطن سے ذوالفقار علی بھٹو نے جنم لیا تھا۔ اُن کی ماں کو سر شاہنواز بھٹو کے خاندان نے کبھی قبول نہیں کیا۔ بھٹو نے اپنے ایام اسیر ی میں اپنی ماں کا تاسف سے تذکرہ کیا، اُن کے والد کے خاندان نے اُن کی والدہ کوکبھی قبول نہ کیا،اس زخم کی وجہ بیان کرتے ہوئے بھٹو نے جو الفاظ استعمال کیے وہ یہاں دُہرانے کو جی نہیں چاہتا۔ مگر بھٹو نے خود وہی کچھ دُہرایا، جب اُنہوں نے اپنی پہلی بیوی کی طرف منہ اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ اُن کی پہلی شادی احمد خاں بھٹو کی صاحبزادی شیریں امیر بیگم سے ہوئی تھی۔ تب بھٹوکی اپنی عمر تیرہ جبکہ اُن کی اہلیہ کی عمر تیئس (23) برس تھی۔ بھٹو کی شادی نصرت اصفہانی سے دسمبر 1951ء میں ہوئی۔
سیماب صفت بھٹو نے ہمیشہ خیالات مثالی (آئیڈئیل) رکھے، مگر زندگی ”چالو“ (پریکٹیکل) گزاری۔کاندھے پر ایک صلیب کی طرح زندگی کا یہ تضاد زندگی بھراُٹھائے پھرتے رہے۔ بھٹو نے سیاست میں داخل ہونے کے لیے کوئی مثالی راستا اختیار نہیں کیا۔ وہی”چالو“ راستا۔ بیگم ناہید اُن کا تعارف اقتدار کے ایوانوں میں کراتی رہیں۔ بھٹو کا سیاسی کردار رات کی تاریکیوں میں ان کہی داستانوں کے درمیان پروان چڑھا۔ تاریخ یہی ہے! تاریخ یہی ہے!!اسکندر مرزا کی خواب گاہ کے پیچھے بنائے جانے والے تالابِ تیراکی(سوئمنگ پول) پر ناہید مرزا کی حکمرانی تھی، یہاں ”سفارشیں“ نہاتی تھیں۔ایرانی کرد ناہید مرزا کی ایک کزن نصرت اصفہانی تھیں۔ تاریخ یہی ہے کہ گورنرجنرل ہاؤس کے مہمانوں میں نصرت اصفہانی اور بھٹو بھی شامل تھے۔اب بھٹو کا وہ خط شائع ہوگیا ہے جو اُنہوں نے کبھی اسکندر مرزا کو لکھا تھا: قائد اعظم تو جو تھے، وہ تھے، میں آپ کو قائدا عظم سے بھی بڑا مانتا ہوں“۔ یہ انگریز کے وفادار جنگِ پلاسی میں مسلمانوں کے غدار میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزاکے نام لکھے گئے خط کے الفاظ ہیں۔وہی اسکندر مرزا جس نے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کیا، جس نے فوج کو آمریت کا راستا دکھایا، جس نے محلاتی سازشوں کی بنیاد رکھی۔ جسے مرنے کے بعد پاکستان نے قبول نہ کیا تو وہ ایران میں دفن ہوا۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی بھٹو کے خلاف ضیاء انقلاب کے معمار تھے۔ ”بھٹو، ضیاء اور میں“ نامی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:جنرل اسکندر مرزا کی سفارش پر ایوب خان نے بھٹو کو لاڑکانہ کے فارم سے بلا کر وزیر بنایا“۔ اسکندر مرزا کے کان میں یہ صور کسی اور نے نہیں نصرت اصفہانی کی کزن بیگم ناہید نے پھونکا تھا۔
اسکندر مرزا کا عہدِ صدارت 27/اکتوبر 1958ء کو تمام ہوا۔ اسکندر مرزا نے ہی1957ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے بارہویں اجلاس میں پاکستانی وفد کے ساتھ بھیجاتھا۔ رازِ درون ہائے خانہ سے واقفان بتاتے ہیں کہ بیگم ناہید نے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب پطرس بخاری (1951 تا 1954ء) سے ذوالفقار علی بھٹو کو اُبھارنے کے امکانات پر متعدد مرتبہ تبادلہئ خیال کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے بارہویں اجلاس میں شرکت کے نادر موقع پر اگر چہ پطرس بخاری ریٹائر ہوچکے تھے، مگر اُنہیں اقوامِ متحدہ کے تب سیکریٹری جنرل داگ ہیمرشولڈ نے انڈر سیکریٹری جنرل انچارج تعلقات عامہ کا عہدہ دے دیا تھا۔ وہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی کافی عرصے تک موثر رہے۔ بھٹو کو اُبھارنے کے لیے تعلقات کی ایک امر بیل تاریخ کی منڈیر پر چمٹی چڑھتی نظر آتی ہے۔ یہاں نصرت اصفہانی سے نصرت بھٹو بننے تک کا سفر نظرانداز کردینا چاہئے، جس کے اُتار چڑھاؤ کی پوری داستان کبھی رسان سے ارد شیر کاؤس جی سنایا کرتے۔ جس کے اب واحد راز داں الٰہی بخش سومرو ہیں۔ وہی اس رشتے کے نکاح خوان کی تلاش میں نکلے تھے۔ کچھ کہانیاں بیگم سلمیٰ احمد نے اپنی کتاب ”کٹنگ فری“میں بھی تحریر کی ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھٹو کی سیاست میں سیماب صفتی رنگین دنیا میں بھنورے کا روپ دھار لیتی تھی۔ تھوکوں کے فرقے نے بھٹو کی سرپرستی بھی کی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو اپنے من کی مرادوں اور نفس کی شرارتوں سے خود کو نہیں بچا سکے۔ نصرت بھٹو کے بعد بھی اُن کی بے قراریوں کو قرار نہیں آسکا تھا۔اُن کی زندگی میں 1961ء میں ایک نئی کہانی نے جنم لیاتھا۔ اسٹینلے والپرٹ نے اپنی کتاب”زلفی بھٹو“ میں لکھا ہے کہ بھٹو ایوب کی آنکھ کا تاراتھے۔ یہ تارا ڈھاکا میں حسنہ شیخ نامی شہابِ ثاقب سے جا ٹکڑایا۔ تب حسنہ شیخ کی عمر پچیس سے تیس سال کے درمیان تھی۔ حسنہ ایک کامیاب بنگالی وکیل عبدالاحد کی بیوی تھی، جن سے اُن کی دو بیٹیاں تھیں۔ بنگال کا جادو مشہور ہے۔حسنہ یوں بھی بنگالی اور پشتون نسل کے آمیختے کی اُٹھان تھی۔باہم دگر تھوکوں سے وابستگان کو ابھی راجستھان کے راجپوت کی مٹی میں بھی ملنا تھا۔حسنہ کی اردو، انگریزی اور بنگالی کی روانی نے بھٹو کی طبیعت کو اُن پر رواں کردیا۔ انڈیا ٹوڈے نے یہ کہانی 31/دسمبر 1977ء کو چسکے لے لے کر شائع کی۔ بھٹو اپنا جال بنگال میں پھینک آئے تھے۔ حسنہ نے شوہر سے نجات پائی، سامان کے ساتھ بیٹیوں کو سمیٹا اور سیدھی کراچی چلی آئی۔ باتھ آئی لینڈ کے جس اپارٹمنٹ میں حسنہ ٹہری وہ 70 کلفٹن کے بالکل نزدیک تھا۔اس تعلق کو پردے میں رکھنے کے لیے بھٹو کو بہت پاپر بیلنے پڑے۔ ایک دفعہ بھٹو اس اپارٹمنٹ سے پیدل چلتے ہوئے بھی 70 کلفٹن پہنچے تھے۔یہ کہانی ایک دستاویز کو خفیہ رکھنے کے لیے جلدی جلدی گھر سے باہر نکل کر راہِ فرار کی ہے۔ مگر یہاں کالم کے دامن میں اتنی پرلطف کہانی سمیٹی نہ جاسکے گی۔ بنگال کا جادو جس طرح بھٹو پر سرچڑھ کر بولتارہا، اس بکھری ہوئی کہانی کے کچھ اجزا فرائیڈے ٹائمز کی پرانی اشاعتوں میں ہیں اور کچھ تہمینہ درانی کی کتاب”مائی فیوڈل لارڈ“کی زینت بنے ہیں۔مصطفی کھر کی وہی تہمینہ درانی جس نے بعد کے ایام میں اپنی بے قرار وکھڑی زندگی کو شہبازشریف کی راتوں کے ساتھ قرار دینے کی ”اذیت“ اُٹھائی۔ (شہبازشریف کے معاشقے اپنی جگہ بجائے خود ایسی ہی ایک کتاب کا موضوع ہے،موصوف نے شعبہ صحافت کو بھی رنگین بنانے میں خاصا کردار ادا کیا۔یہ واقعات اپنے موقع پر موضوع بنیں گے۔) بھٹو کی پوری زندگی میں عورتوں کا عمل دخل پردے کے پیچھے، تاریکی میں اور گاہے اجالے میں نظر آتا ہے۔
بھٹو کے دورِ حکومت میں اکثر وزراء کے قصے منظرِ عام پر آتے رہے۔ مولانا کوثر نیازی کے متعلق مشہور ہوا کہ وہ حج کے لیے ترتیب دیے گئے وفد میں ناپسندیدہ عورتوں کو ساتھ لے گئے ہیں۔ اب بابرا شریف کا نام کیا لیں۔ دوران حج اُن عورتوں کے ملوث کردار پر تب کی سعودی حکومت نے خاموش احتجاج کیا تھا۔اُسی زمانے میں عبدالستار چودھری نام کے ایک صاحب نے ایک کتابچہ ”بھٹو کے رنگیلے وزیر“ تحریر کیا تھا، جس میں لکھے جانے والے قصے انتہائی شرمناک تھے۔ تھوکوں کے فرقے کی پرنانی جنرل رانی کی طرف واپس پلٹتے ہیں۔ جنرل رانی یحییٰ خان کے عہد میں ذوالفقار بھٹو کو بھی للچاتی رہی، اقتدار کے حصول کا خواب کسی بھی راستے سے پورا ہو، بھٹواس کے لیے تیار تھے۔بھٹو، مصطفی کھر اور دیگر سیاست دان تب یحییٰ خان اور دیگر فوجی حکام کے متعلق معلومات کے حصول کے لیے جنرل رانی کے گھر کی دہلیز پر ڈیرہ ڈالے رکھتے۔ یحییٰ خان کا زوال جنرل رانی کو بھی غروب کرنے لگا۔ ابتدا میں جب جنرل رانی کے گھر پہرے بٹھائے گئے، چھاپے مارے گئے تو جنرل رانی نے اخباری نمائندوں کے سامنے بھٹو اور مصطفی کھر کو فحش گالیاں دیں۔جنرل رانی نے تب بالکل سنتھیارچی کی طرح اپنے پرانے تعلقات اور واسطے بے نقاب کر دیے تھے۔ جنرل رانی نے ایک سے زائد مرتبہ دعویٰ کیا کہ وہ ایشیا کے اس ڈیگال کے لیے ”رنگین شا موں“ کی منتظم رہیں۔یحییٰ خان کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی جنرل رانی پر بھٹو کا قہر ٹوٹا۔ رنگیں کہانیوں کے اچھلنے کے خوف نے جنرل رانی کے گھر پہرا بٹھوایا۔ یہ سب قومی مفاد کی آڑ میں ہوا۔ ان تمام سرگرمیوں کی ذمہ داری مصطفی کھر نے اُٹھائی۔ اس دوران گرفتاری کے خوف نے جنرل رانی کو بھٹکتے بھاگتے محترم شورش کاشمیری کے گھر پہنچا دیا۔ جنرل رانی جس رات گرفتاری کے اندیشے میں مبتلا تھی، وہ رات انتہائی خاموشی سے شورش کاشمیری کے گھر گزاری۔ کہتے ہیں کہ شورش کاشمیری کی شرافت کے سامنے جنرل رانی نے ایک تصویری البم رکھا تھا، جس میں پاکستان کے سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور سول وعسکری نوکر شاہی کی زندگیوں کی کہانیاں قید تھیں۔ ایوب اور یحییٰ خان کے اقتدار میں براہ راست نشانے پر رہنے والے بہادر شورش کاشمیری نے اس ریکارڈ کو دیکھا تک نہیں۔ شورش کاشمیری نے کہا: آج تم اس ریکارڈ کو اُٹھائے پھرتی ہو، کل ان سے بات بن گئی تو پھر اس نگارخانہ عشق کی رونق ہوجاؤگی“۔پھر یہی ہوا۔بھٹو عہد میں ایک عرصہ وہ بھی آیا جب جنرل رانی نے اپنا بسیرا شارع قائداعظم پر واقع انٹر کانٹی نینٹل کے ایک ”کمرے“ میں ڈالا تھا۔ جنرل رانی کی یہ بارگاہِ وصال ایک دفعہ پھر آباد ہوگئی تھی۔ حکمرانوں اور سرکاری افسروں نے ایک بار پھر ہوس کو ترقی کا زینہ بنانا شروع کیا۔ یہیں پھرسازشی سانپوں نے اپنی کینچلیاں تبدیل کرنا شروع کیں۔ مصطفی کھر گورنر تھے۔ وہ زیادہ جانتے تھے کیونکہ وہ خود بھی ان ہی کہکشاؤں سے گزر کر اقتدار کی راہداریوں تک پہنچے تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ وہ اپنے ہی استعمال شدہ طریقوں کے ہاتھوں اب اپنے ہی حریفوں سے پچھاڑے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ پنجاب پولیس کو حرکت میں لایا گیا۔ جنرل رانی کو گرفتار کرکے تھانے پہنچا دیا گیا۔ اخباری رپورٹرز کو وہاں رسائی دی گئی تاکہ رسوائیوں کی تشہیر میں سیاسی امکانات کو مجسم کیا جاسکے۔ جنرل رانی نے گھاٹ گھاٹ کا پانی گھونٹ گھونٹ پی رکھا تھا۔ صحافی مطلب کے سوالات پوچھتے رہے، مگر دیدہئ عبرت بنی جنرل رانی نے کسی مزار کے بجھتے ہوئے دیے کی مانند کپکپاتے ہوئے صرف ایک جواب دیا:بس نقشہ بگڑ گیا“۔جنرل رانی بھی جانتی تھی، نقشہ وہی ہے، دریا بہ دریا یم بہ یم،کوچہ بہ کوچہ کو بکو وہی کہانی ہے، بس ”رانیاں“بدل جاتی ہیں۔ آج کی رانی سنتھیارچی ہے۔ کہانی وہی پرانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔